ریاست مدینہ اور ریاست پاکستان( حصّہ اوّل )۔۔حافظہ عائشہ احمد

حضور ﷺ کو اللہ تعالی نے انسانیت کے لئے آخری ہدایت کا سر چشمہ بنا کر بھیجا۔ حضورﷺ   کی ولادت اور بعثت ایک نئے دور کا آغاز اور تا ریخ کی ایک نئی جہت کا تعین تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ  ﷺ  کی تشر یف آوری کے بعد انسانیت کلیتاً ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔ ایک ایسا دور جس میں شعور، آگہی، تہذیب، کلچر اور اعلیٰ  انسانی اقدار کے فروغ، قیام اور استحکام کے وہ نظائر ملتے ہیں جن کا نہ صرف آپ کی آمد سے قبل وجود نہ تھا بلکہ ان کا تصور بھی مفقود تھا۔ جب حضور اکرم ﷺ  خانہ کعبہ میں حج کے موقع پر باہر سے آنے والے حجاج کرام سے ملتے اور ان تک اپنی دعوت پہنچاتے تھے ان میں مدینہ سے آنے والے حجاج کرام بھی شامل تھے دو سال کی  اس تبلیغ کا فائدہ یہ ہوا کہ اہم قبائل کے سرداروں نے اسلام قبول کیا اور آپ ﷺ کے ہا تھ پربیعت کی اور واپس مدینہ جا کر آپ ﷺ  کے پیغام کو دوسروں تک پہنچایا یہاں تک کہ مدینہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی ،مکہ میں کفار مکہ نے آپﷺ کو دکھ اور تکلیف میں مبتلا کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا اور آپ ﷺ  نے مدینہ منورہ تشریف لا نے کے بعد جن امور کو اپنی ترجیحات میں رکھا ان میں سر فہرست آئینی ریا ست کی تشکیل اور اسکا دستور متفقہ طور پر منظور کروانا تھا۔ نئی ریا ست کے دستور کی تیاری آپ نے ہجرت مدینہ کے ابتدائی دنوں میں ہی شروع کر دی تھی اس لئے کہ  مدینہ طیبہ میں آپ سے پہلے ہو نے والی جنگوں خصوصاً جنگ بعاث نے اہل مدینہ کو اس سوچ بچار پر مجبور کر دیا تھا کہ   وہ مدینہ میں مستقل خون ریزی اور قتل وغارت کے خا تمے کیلئے کچھ اقدامات کریں۔

حضور ﷺ  کے مدینہ طیبہ تشریف لا نے کے بعد اس بات کے امکانات بہت روشن ہو گئے کہ مدینہ طیبہ لا قانونیت کی کیفیت سے نکل کر ایک منظم معاشرے میں ڈھل جا ئے۔ حضور ﷺ  نے اپنی پیغمبرانہ اور خداداد صلا حیتوں کے ذریعے شروع ہی سے ایسے اقدامات کیے جن سے آگے چل کر ایک متفقہ دستور کی منظوری کی راہ ہموار ہو ئی۔ حضورﷺ  کی مو ثر حکمت عملی میں سب نمایاں اور دور رس نتا ئج کے حا مل وہ معا ہدات تھے جوآپ نے یہودونصاریٰ  سمیت کفار مکہ اور دیگر عرب قبا ئل کے سا تھ فر ما ئے ان میں سب سے زیا دہ اسلام دشمن سیکو لر اکا ئیاں تھیں جن کے ساتھ آپ نے مختلف اوقات میں مختلف نو عیت کے اتحا دی معاہدے کیے، لیکن آپ کے دو اتحا دی معاہدے بطور خا ص نتا ئج کے اعتبار سے تا ریخی اور فیصلہ کُن ثا بت ہو ئے۔ ان میں سے میثاق مدینہ اور دوسرامعا ہدہ حدیبیہ کے نا م سے موسوم ہے ۔ یہا ں صراحت ضروری ہے کہ یہ اتحاد  مذہبی بنیا دوں پر نہیں بلکہ سماجی بنیا دوں پر قائم ہو ا تھا۔ حضورﷺ  نے اہل کتاب کو نفسیاتی طور پر قریب کر نے اور انہیں اعتماد میں لینے کے لئے مذہبی قدر مشترک کو پیش کیا یعنی اللہ تعا لی ٰ پر ایمان۔ قرآن نے حضور ﷺ  کے اس مدعا کو یو ن بیا ن فرما یا :

قُلْ یٰـٓاَهْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَآءٍم بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ.

’’آپ فرما دیں: اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔‘‘

(آل عمران، 3: 64)

حضور اکرمﷺ  نے اپنی بعثت کے بعد عمر بھر جس لگن اور ذمے داری کے ساتھ اپنے فرض کو پورا کرکے انسانیت کو پستی سے نکال کر رفعت تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا، اس کی مثال تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا مثالی طرز حکمرانی، جس نے داخلی و خارجی سطح پر بکھرے یثرب کو دنیا کی بہترین اسلامی فلاحی ریاست مدینہ میں تبدیل کر دیا،

نبی اکرمﷺ  کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد فوری طور پر مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی، دوسرے لفظوں میں ریاست کے لیے سیکرٹریٹ قائم کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ معاشرے کے معاشی مسائل کے حل کو اولیت دی گئی۔ ایک طرف ریاست میں ہنگامی حالت تھی تو دوسری طرف انصار مدینہ تھے جن میں متوسط بھی تھے اور کافی مالدار بھی، یعنی عملی طور پر جو شکل آج پاکستان کی ہے کچھ ایسی ہی شکل مدینہ منورہ کی تھی۔ ہمارے ہاں بھی ایک طبقہ معاشی ظلم کی وجہ سے بدحالی کا شکار ہے اور دوسرا طبقہ کافی متمول ہے۔ ایسی حالت میں محسن انسانیتﷺ  نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیا۔ ایک ٹیم موجود تھی جو اسلامی فلاحی نظام پر پختہ یقین رکھتی تھی۔ اس ٹیم میں شامل لوگوں نے ایک دوسرے کے لیے قربانیاں دیں اور اس طرح دو طبقوں میں جو غیر معقول معاشی فرق تھا وہ ختم ہوگیا۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان دنوں مدینہ منورہ کی معیشت کا سارا انحصار یہودیوں کے سودی کاروبار پر تھا مگر حضور اکرمﷺ  نے مہاجرین سے یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی یہودیوں سے سود پر قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کر دو، کیوں کہ اس طرح معاشی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل ناممکن تھی بلکہ آپ ﷺ  نے انصار مدینہ سے فرمایا کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور پھر قرض حسنہ کا نظام رائج فرمایا اور جب معاشرے کے افراد عملاً باہمی تعاون کے ذریعے بلا سود قرضوں پر معیشت کو قائم کرنے میں لگ گئے تو آپ ﷺ  نے سود کو مکمل طور پر حرام قرار دے کر اس لعنت کو ختم کر دیا۔

ریاست مدینہ کے اہم خدوخال
حکمت کا مرحلہ باہمی اخوت
آپﷺ  کی مدنی زندگی بہت زیادہ مصروف رہنے کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ انتہائی مشکل اوقات میں بھی آپﷺ نے اپنی خداداد بصیرت سے سلامتی کی راہیں نکالیں۔ مدینہ طیبہ میں تشریف لانے کے بعد آپ ﷺ  کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا، کیوں کہ مکہ میں مسلمان ایک مختصر اقلیت کے طور پر رہ رہے تھے جب کہ یہاں انہیں اکثریت حاصل تھی۔ پھر آپ ﷺ نے شہریت کی اسلامی تنظیم کا آغاز کیا جس میں آپ ﷺ  کو منتظم ریاست کا درجہ حاصل ہو گیا۔ اس میں شک نہیں کہ مکی زندگی کے مقابلے میں یہ بڑی کام یابی تھی، لیکن پر سکون معاشرے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی تھا۔

اسلامی ریاست کا تصور
یہ معاہدہ اسلامی ریاست کی بنیاد تھا، یہاں سے حضور اکرمﷺ  کی زندگی نیا رخ اختیار کرتی ہے۔ اب تک آپ ﷺ  کے تدبر و فراست کے تمام پہلو ایک ایسے مرکز کے قیام کے لیے تھے جہاں سے دعوت اسلام موثر طریق سے دی جا سکے۔ آپ ﷺ  کی سابقہ کوششیں ایک مدبر کی تھیں لیکن اب آپﷺ  منتظم ریاست کے طور پر سامنے آ رہے ہیں، لہٰذا آپﷺ  کے تدبر کا مطالعہ اسی زاویے سے کرنا ہو گا۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ آپ ﷺ  کے پیش نظر ایک اہم مقصد مثالی اسلامی فلاحی معاشرے کا قیام تھا اور اس کے لیے قوتِ نافذہ کا ہونا ناگزیر تھا۔ آپ ﷺ  اکثر دعا فرمایا کرتے تھے کہ:

اے اللہ اقتدار کے ذریعے اسلام کی مدد فرما۔

آپﷺ  کی یہ دعا قبول ہوئی اور ریاست مدینہ کی شکل میں پہلی اسلامی فلاحی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔ قرآن مجید نے اسلامی ریاست کا جو مقصد متعین کیا کہ

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِوَ ِﷲِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ.

’’(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘

(الحج، 22: 41)

اس آیت مبارکہ کے مطابق آپ ﷺ  نے ریاست مدینہ اور اس کے رہنے والوں نے اپنے فرائض کو سرانجام دیا۔ ریاست مدینہ کے قیام سے آپﷺ   کا مقصود رضائے الہٰی کا حصول اور عوامی بہبود تھا۔ اس حکومت کی بنیاد خاندانی عصبیت اور نسلی شعور کی جگہ دینی وحدت پر قائم تھی۔ اس انوکھی اور اپنی نوعیت کی منفرد ریاست کے منتظم کا انداز بھی عام حکمرانوں سے یکسر مختلف تھا۔ منتظم ریاست کی حیثیت سے آپﷺکے تدبر کی بے شمار مثالیں آپ ﷺ  کی حقیقی عظمت کا پتا دیتی ہیں۔

قانونی مساوات
ریاست مدینہ دنیاکی اولین ریاست تھی جس میں سب انسان قانون کی نظر میں برابر تھے۔ریاست مدینہ کی تشکیل وتاسیس تک تو کسی ریاست نے اس بات کا دعویٰ  بھی نہیں کیاتھا کہ اس کے ہاں سب برابر ہیں لیکن اس کے بعد آج کی ریاستوں میں کاغذی دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن قانون سب کے لیے یکساں کا رواج عملاً کہیں بھی موجود نہیں ہے۔عیسائی راہبات کے لیے سکارف کی اجازت ہے جبکہ مسلمان خواتین کے لیے اس قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔ دوسری طرف ریاست مدینہ ایسی ریاست تھی جس میں انصاف و عدل کے تقاضوں کے مطابق مسلمان قاضی کا فیصلہ یہودی کے لیے برات اورمسلمان کے لیے گردن زنی کا تھا۔ ایک دفعہ جب محسن انسانیتﷺ  سے مجرم کے لیے قانون میں رعایت مانگی گئی تو فرمایامیری بیٹی بھی ایساجرم کرتی تو یہی سزا پاتی۔ آپ ﷺ  بذات خود عمر کے آخری ایام میں مسلمانوں کے درمیان براجمان ہوئے اور فرمایا میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو بدلہ لے لے۔قانون کی نظر میں سب برابر ہیں آپ ﷺ کے درسِ مساوات نے ہی اس معاشرے کو عدل فاروقی سے روشناس کرایا۔

نظام تعلیم
اسلامی ریاست میں نظام تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ آپ ﷺ نے ہجرت سے قبل ہی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو معلم بنا کر مدینہ بھیج دیا تھا اور ہجرت کے بعد مسجد نبویﷺ  کو باقاعدہ درس گاہ کا درجہ حاصل ہو گیا۔ غیر مقامی طلبہ کی تدریس و رہائش کے لیے صفہ چبوترہ بنایا گیا۔ عرب میں چوں کہ لکھنے کا رواج نہیں تھا اس لیے مسجد نبوی میں ہی حضرت عبد اللہ بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عبادہ بن رضی اللہ عنہ صامت کو لکھنا سکھانے پر مامور کیا گیا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مختلف زبانیں سکھائی گئیں اور فنون جنگ کی تعلیم ہر جوان کے لیے ضروری قرار دی گئی۔ خواتین گھریلوں صنعتوں کے ساتھ علاج معالجے کا انتظام بھی کرتی تھیں، حتیٰ کہ ایک صحابیہ نے مسجد نبوی ہی میں خیمہ لگا دیا تھا جہاں زخمیوں کی مرہم پٹی کی جاتی تھی۔دنیاوی علوم سیکھنے کے لیے قیدیوں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ انھیں اپنی رہائی کے بدلے مسلمانوں کو پڑھانا ہو گا۔

عمل احتساب
اگر چہ رسول اکرمﷺ  کے عہد میں احتساب کا کوئی مستقل محکمہ قائم نہیں تھا مگر حضور اکرمﷺ  یہ فرض خود انجام دیا کرتے تھے۔ تجارتی معاملات کی بھی نگرانی فرماتے۔ عرب میں تجارتی معاملات کی حالت نہایت قابل اصلاح تھی۔ مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ ﷺ  نے اصلاحات جاری کیں۔ آپ ﷺ  تمام لوگوں سے اصلاحات پر عمل کراتے، جو باز نہ آتے انہیں سزائیں دیتے۔ آپ ﷺ  کے عہد میں کوئی باقاعدہ جیل خانہ نہیں تھا اس لیے صرف اتنا خیال کیا جاتا تھا کہ مجرم کو کچھ مدت کے لیے لوگوں سے ملنے جلنے اور معاشرتی تعلقات قائم نہ رکھنے دیے جائیں۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کے عہد میں دیکھا کہ لوگ تخمیناً غلہ خریدتے تھے۔ ان کو اس بات پر سزا دی جاتی تھی کہ اپنے گھروں میں منتقل کرنے سے پہلے اس کو خود ہی وہاں بیچ ڈالیں جہاں اس کو خریدا تھا۔آپ ﷺ اعمال پر کڑی نگاہ رکھتے، کسی عامل کی شکایت پہنچتی تو فوراً تحقیقات کراتے کیو نکہ حکمران کی حیثیت ایک داعی کی ہے اگر سلطنت عدل کی جگہ ظلم و تشدد قبول کر لے تو سلطنت کا نظام درہم برہم ہو تا ہے۔ یہ تھی مدینہ کی ریا ست جو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر استوار ہو ئی تھی۔

ریاست مدینہ میں اقلیتوں کے حقوق
حضور ﷺ  نے اقلیتوں کومعاشرے میں وہی مقام عطاکیا جو معاشرے کے بنیادی شہریوں کو حاصل تھے۔ آپ ﷺ  نے اقلیتوں کی جان و مال، عزت وآبرو،ناموس حتی کہ ان کے مذہبی حقوق کے تحفظ کو آئین کا حصہ بنایا کیونکہ اسلامی ریاست کے تنا ظر میں اس دور کا ایک اہم سوال بن گیا ہے۔ اس لئے حضورﷺ  کے فرمان مبارک میں بھی اس امر کی توضیح کرتے ہیں کہ ریاست اسلامی میں اقلیتوں کو کون کون سے حقوق حا صل ہیں۔

قال صلی الله علیه وآله وسلم لاهل الذمه:ما اسلمو علیه من ذرایهم و اموالهم و اراضیهم وعبیدهم و مواشیهم، ولیس علیهم الا الصدقه.

حضور ﷺ نے فرمایا : ذمی کے لئے وہ کچھ ہے جس کے لئے اس نے اطاعت کی۔ذمی کی اولاد اموال، اراضی، غلام اور ان کے مواشی کا خیا ل رکھو۔ ان پر صدقہ کے سوا کچھ نہیں۔

آپ ﷺ نے اقلیتوں کی مذہبی آزادی کے بارے میں فرمایا :

و ان یهود بنی عوف امۃ مع المومنین، للیهود دینهم، و للمسلمین دینهم، مولیهم و انفسهم الا من ظلم و اثم، فانه لا یو قع الا نفسه و اهل بیته.

اور عوف کے یہودی مو منین کے ساتھ ایک سیاسی وحدت تسلیم کیے جا تے ہیں۔ یہودیوں کے لئے ان کا دین ہے اور مسلمانوں کے لئے اپنا دین ہے خواہ ان کے موالی ہوں یا وہ بذات خود ہو ں، ہاں جو ظلم یا عہد شکنی کا ارتکاب کرے تو اس کی ذات یا گھرانے کے سوا کو ئی مصیبت میں مبتلا نہیں کیا جا ئے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply