• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دنیا بھر میں آنلائن شاپنگ کیوں مفید بنتی جا رہی ہے؟۔۔محمد سلیم

دنیا بھر میں آنلائن شاپنگ کیوں مفید بنتی جا رہی ہے؟۔۔محمد سلیم

پاکستان میں دکانوں سے شاپنگ کرتے ہوئے کبھی کبھی صاف نظر آتا ہے کہ سامنے والا گاہک کو الو بنا رہا ہے، اور کبھی کبھی تو دکانداروں کی ڈھٹائی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ گاہک کے پاس کڑوے گھونٹ بھرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ ۔
ایک مثال دیتا ہوں: ایک ویسٹ کوٹ خریدنے گیا۔ دکاندار نے جو پیس مجھے دکھایا اس پر کمر کے پیچھے (پہننے پر وہ جگہ ممکنہ طور پر جہاں انسانی جسم کا گردہ ہوتا ہے پر آتی) تقریبا 3 سینٹی میٹر مربع کپڑے کا سٹکر سلائی کر کے لگایا گیا تھا۔ سٹکر پر انگریزی حروف ایچ ڈی لکھے ہوئے تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ کسی عیب کو چھپانے کیلیئے ایسا کیا گیا ہے۔ میں نے دکاندار سے کہا؛ حاجی صاحب، یہ کیا ہے؟ آپ کے پاس اچھا مال نہیں؟ فرمانے لگے: کہ ہم تو بس ایچ ڈی کمپنی کا مال بیچتے ہیں۔ میں حیران-کیہڑی ایچ ڈی کمپنی! جو اپنا لوگو ویسٹ کوٹ کے پاسے پر لگاتی ہے! میری مسکراہٹ کو پہچان کر حاجی صاحب واسکٹ کو سمیٹتے ہوئے فرمانے لگے: نہیں ہے ہمارے پاس مال، کہیں اور سے جا کر خرید لو۔
میری طرح کئی لوگوں کو بھاؤ تاؤ کرتے ہوئے بہت کوفت ہوتی ہے اور کئی دفعہ مروت میں الٹا نقصان بھی ہو جاتا ہے۔ کچھ دکاندار تیز طراری یا نوسر بازی کو اپنا وطیرہ بنا کر رکھتے ہیں اور ٹھگی فریبی سے باز نہیں آتے۔ کچھ اعتماد بنا کر بد اعتمادی کرتے ہیں جو لوگوں کو آنلائن شاپنگ کی راہ دکھاتا ہے۔
ایسے لوگ جو دن کا بیشتر حصہ دفتروں میں گزار دیتے ہیں ان کے پاس واپسی پر گھر جاتے ہوئے اتنی سکت نہیں ہوتی کہ اب کچھ وقت ضرورت کی چیزیں تلاش کرنے اور خریدنے میں بھی گزاریں۔ کچھ خواتین کام کے کپڑوں میں شاپنگ سے گریز کرتی ہیں اور خاص شاپنگ کیلیئے آنا وقت اور پلاننگ چاہتا ہے۔ ان لوگوں کو بھی آنلائن شاپنگ سوٹ کرتی ہے۔
چین میں کسی کمرشل بلڈنگ میں چلے جائیے: لابی میں پارسلز کا انبار لگا ہوا ہوگا۔ بلڈنگ میں قائم دفاتر کا عملہ اوپر نیچے آتے جاتے اور لابی سے گزرتے ہوئے اپنے اپنے پارسلز (اگر ان کے پاس پارسل ڈیلیور ہو چکنے کا نوٹیفیکیشن آ چکا ہو تو) تلاش کر کے لیجاتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، مارکیٹس اور شاپنگ مالز میں دیکھنے والی ہوتی ہے۔ جہاں کا مصروف ترین عملہ بھی اپنی شاپنگ کیلیئے وقت نکال لیتا ہے اور ڈیلیوری والے سٹاف کو ان کے کمروں اور کام کی جگہوں پر پارسل پہنچا رہے ہوتے ہیں۔
اس بار 11-11 پر تاؤباؤ کو ھانزھو کی ایک مشہور یونیورسٹی میں روبوٹ وھیکلز چلانے پڑے جس پر گیٹ پر ٹھہرے عملہ کے لوگ پارسلز لاد دیتے تھے اور روبوٹ یونیورسٹی کے اندر مختلف سپاٹس پر ڈیلیور کر دیتے تھے۔ اس طرح جا کر کام کا زور توڑا گیا۔
چین میں آنلائن شاپنگ کو جو چیز سب سے منفرد بناتی ہے وہ یہاں کی کوریئر سروسز ہیں، چین کی آخری نکڑ سے بھیجا ہوا ہوا پارسل بھی تیسرے دن آپ کی میز پر ہوتا ہے۔ لوگ صرف موبائل کے کور ہی نہیں زندہ مچھلی، مشرق میں بیٹھ کر مغربی کنارے کے تازہ پھل، زندہ پودے، مصالحے، دور دراز پہاڑوں سے جمع کی گئی شہد، سینے پرونے کا سامان اور دوائیاں تک منگواتے ہیں۔ پارسلز میں دو یوان سے لیکر دو ہزار یوان کی بھی چیز ہوتی ہے مگر رکھا ایسے ہی ہوتا ہے جیسے دو یوان والا پارسل۔ میرے محلے کی سپر مارکیٹ والے نے اپنی دکان پر آئے ہوئے پارسل دکان کے پچھلے دروازے کے پاس رکھوائے ہوتے ہیں جہاں سے خود جا کر خود ہی ڈھونڈھنا اور خود ہی اٹھا کر چلے جانا ہوتا ہے۔
پاکستان میں یہ کاروبار خوب پروان چڑھ رہا ہے۔ جس طرح شروع شروع کے پہلے سیلابی ریلے میں آلائشیں بھی ساتھ آ جاتی ہیں اور صاف پانی وقت کے ساتھ ساتھ دیر سے آتا ہے۔ ایسے ہی آنلائن کام کے شروع میں کاروباری اقدار سے ناوافق اور اخلاقی تقاضوں سے نابلد لوگ بھی اس فیلڈ میں آئیں گے مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہی لوگ بچیں گے جن کا معیار، قیمتیں، کسٹمر کیئر اور فیڈ بیک بولے گا۔
آنلائن کام کرنے والے جب تک خود ایک برانڈ نہ بن جائیں تب تک ان کے انفرادی کام کرنے سے بہتر کسی بڑے پلیٹ فارم کی چھتری تلے کام کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح ایک تو اس پلیٹ فارم مہیا کرنے والے ادارے کی ضمانت موجود رہتی ہے جو گاہک کو نفسیاتی تحفظ فراہم کرتی ہے دوسرا بیچنے والا بھی اپنے پیسوں کے بارے میں مطمعن رہتا ہے۔ دنیا کچھ لے کچھ دے کے اصول پر زیادہ بہتر چلتی ہے۔
مجھے پاکستان میں ملتان میں بیٹھ کر سوات کے موسمی پھل، کپڑے، ٹوپیاں اور دیگر سوغاتیں مل جاتی ہیں تو مجھے اور کیا چاہیئے۔ ایسے ہی اگر کسی سوات کے بھائی کو ملتان کی چیز سوات بیٹھے ہی مل جائے تو اس کو گلوبل ویلیج بنی اس دنیا کا سچ میں فائدہ ملے گا۔
آپ اس آنلائن بزنس کو کتنا کیش کرنا چاہتے ہیں، اس آنلائن بزنس میں کونسا مرحلہ اپنا چاہتے ہیں آپ پر منحصر ہے۔
پوسٹ میں منسلک لکڑی کا بیرل نما خوبصورت دیدہ زیب ڈبہ جس میں پیتل کا حصہ نسب کر کے چوڑی دار بنا دیا گیا ہے۔ اس میں چوبیس ایسی سوئیاں جن میں بآسانی دھاگہ ڈالا جا سکتا ہے۔ مکمل باحفاظت پیکنگ میں ڈال کر ایک عالمی شہرت یافتہ کوریئر کمپنی کے توسط سے گھر بیٹھے مواصلات کا سارا خرچہ اور کل قیمت ملا کر مجھے ساڑھے چھ یوان میں بھیجا گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مجھے اگر یہی چیز خریدنی پڑتی تو کسی کنوینئنس سٹور سے جا کر خریدنے پر میرے کم از کم پندرہ یوان خرچ ہو جاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ تحریر محمد سلیم صاحب کی فیس بُک وال سے کاپی کی گئی ہے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply