پاکستانی سیاحت میں گلگت بلتستان کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ملکی سیاحت گلگت بلتستان کے بغیر ادھوری تصور کی جاتی ہے۔ گلگت بلتستان کو قدرت نے بےپناہ حسین اور دلفریب مناظر سے نوازا ہے۔ چاروں طرف ایستادہ دیو ہیکل یہاڑ، مسحورکُن جھیلیں، بلندیوں سے گرتی آبشاریں، خوبصورت سُر بکھیرتے جھرنے، سحرانگیز گلیشئر، تاحدنگاہ پھیلا ہوا سبزہ، سرسبز و شاداب جنگلات، لہلہاتے کھیت، سفیدے ، بید مجنوں اور چنار کے ہوشربا درخت، خوبانی، سیب، چیری ، اخروٹ اور شہتوت کے ثمردار پیڑ، پھلوں سے لدی پھندی جھکی جھکی ڈالیاں ، پورے علاقے میں پھیلی پھلوں کی طلسماتی مہک۔
کہا جاتا ہے جس نے ہندوستان دیکھا ہو مگر آگرہ جا کر “تاج محل” نہیں دیکھا ہو، گویا اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ مغل شہنشاہ شاہ جہان کی یہ شاہکار تخلیق اپنے اچھوتے فن تعمیر کی وجہ سے عجائبات عالم میں شمار ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ کہنا بےجا نہیں ہوگا کہ پاکستان کی سیاحت پر نکلنے والا اگر گلگت بلتستان کی سیر کیے بِنا واپس نکل جاتا ہے، تو درحقیقت اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ پاکستان میں رہتے ہوئے تاحال اگر گلگت بلتستان کی طرف چکر نہیں لگا ہے تو اس سے بڑی بدنصیبی کیا ہو سکتی ہے؟ قدرتی مناظر کا قریب سے مشاہدہ اس علاقے کی سیر کر کے کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایک منظر دل موہ لیتا ہے۔ انسان آنکھ جھپکنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آنکھ ان حسین مناظر کی دید سے کبھی سیر ہو ہی نہیں سکتی۔
بالفرض گلگت بلتستان میں اور کچھ نہ بھی ہوتا ، تیرہ سو کلومیٹر پر مشتمل شاہراہ قراقرم ہی سیاحوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لینے کے لئے کافی ہوتی ۔ کوئی تو وجہ ہے ورنہ یہ دنیا کا “آٹھواں عجوبہ” قرار نہ پاتا ۔ دیو قامت پہاڑی سلسلہ بشام سے اسکردو اور خنجراب تک پھیلا ہوا ہے۔ پہلی بار ان پہاڑوں کے بیچ سفر کرنے والا ایک عجب سا سرور محسوس کرتا ہے ۔ سیاح کو لذت اور دہشت کا دلچسپ امتزاج میسر آتا ہے ۔خوبصورت اور دیومالائی پہاڑ اور نیچے گہری اور عمیق کھائیاں کہ دیکھ کر ہی جُھرجُھری آنے لگتی ہے۔ نگاہ اُوپر اٹھتی ہے تو لذت اور نیچے جھکتی ہے تو دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ اُوپر فلک بوس پہاڑ نیچے عمیق کھائیاں ، ان پہاڑوں کی اُونچائیوں سے گرتے شفاف پانی کی دودھیا آبشاریں ۔ یوں لگتا ہے جیسے سفید موتیوں کی مالا ٹوٹی ہو اور موتی ایک ایک کر کے بکھر رہے ہوں۔ پہاڑوں کے دامن میں خراماں خراماں بہتا ہوا دریائے سندھ کا نیلگوں پانی۔ یہ پہاڑ اور یہ نظارے ایک سیاح کو پوری طرح اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔ وہ قدرت کی اس حسین صناعی پر عش عش کر اٹھتا ہے۔ پہاڑ ، آبشاریں ، کھائیاں اور دریائے سندھ کا منظر آنکھوں کو تراوٹ اور دماغ کو فرحت بخشتا ہے۔
”عظیم ہمالیہ کے حضور“ایک شاندار سفر نامہ۔۔پروفیسر خالد اکبر
گلگت بلتستان کے بہت سے علاقوں مثلاً سکردو، ہنزہ، استور، غذر وغیرہ نے سیاحت میں بڑا نام اور دام کما لیا ہے۔ ان علاقوں کے لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہو رہا ہے۔ وہ سیاحت کے شعبے میں سالانہ کروڑوں کا زرمبادلہ کما لیتے ہیں۔ سالانہ ہزاروں کی تعداد میں سیاح ان خوبصورت علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ مذکورہ علاقوں کے لوگوں میں شعور و آگہی بہت زیادہ ہے۔ وہ اپنے علاقوں کے حسین مناظر سے فائدہ اُٹھانا جانتے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے بےتحاشا ترقی کی ہے۔ گلگت بلتستان میں سیاحت کے شعبے میں سب سے زیادہ محروم ضلع “دیامر” ہے۔ یہ ضلع حسین قدرتی مناظر سے جتنا مالا مال ہے سیاحت کے میدان میں اتنا کنگال ہے۔ مذکورہ ضلع میں صرف “فیری میڈو” نامی سیاحتی مقام تک سیاحوں کی رسائی ہے باقی تمام تر خوبصورت مقامات سیاحوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ بابوسر روڈ گرمیوں میں کھلتا ہے اور کثیر تعداد میں سیاح اس خوبصورت مقام کی سیر پر نکل آتے ہیں لیکن بدقسمتی سے سیاحوں سے جو فائدہ ہزارہ والے اُٹھاتے ہیں وہ دیامر والے نہیں اُٹھا سکتے۔ بابوسر روڈ پر طعام و قیام کا معیاری بندوبست ہے نہ دیگر اشیائے ضروریہ دستیاب ہیں۔ وجہ اہلیان علاقہ میں شعور و آگہی کا فقدان ہے۔ اللہ نے انہیں مالی فراوانی سے نوازا ہے لیکن جانے کیوں متمول افراد کی طبیعت اس جانب مائل نہیں ہوتی۔
داریل ، تانگیر اور کھنبری (داریل) میں ان گنت مقامات ہیں جو سیاحوں کو پوری طرح اپنے طلسم میں جکڑ سکتے ہیں۔ اللہﷻ نے ہر اس شے اور منظر سے ان علاقوں کو نواز رکھا ہے جو ایک سیاح اپنی حقیقی اور مصنوعی آنکھ کے کیمرے میں محفوظ کرنا چاہتا ہے۔ یہ سحرانگیز مناظر تاحال دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہیں۔ اس گمنامی کی سب سے بڑی وجہ سڑکوں کی عدم دستیابی ہے۔ طویل پُرمشقت پیدل سفر کرکے ان دلربا مقامات کی سیر کی جا سکتی ہے مگر یہ کارمشقت خال خال لوگ ہی سر انجام دے سکتے ہیں۔ میں خود ان کوہساروں کا باسی ہونے کے باوجود ان خوبصورت مقامات کی دید سے محروم رہا ہوں ۔
سیاحت ، سڑک اور ہوٹلنگ کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ کسی بھی مقام تک آسان رسائی اور طعام و قیام کی سہولت سیاحت کے لئے بنیادی شرط ہے۔ کوئی علاقہ کتنا بھی خوبصورت کیوں نہ ہو ، سڑک اور طعام و قیام کی سہولت میسر نہ ہو تو سیاحوں کے لئے اس کی رعنائیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ دن میں سیاحت اور شب کو بستر استراحت ایک سیاح کے لئے ناگزیر ہے۔ بدقسمتی سے مذکورہ علاقوں کے بیشتر مقامات تو سڑک کی سہولت سے ہی محروم ہیں اور اگر کہیں سڑک کی سہولت میسر ہے تو ہوٹل کی سہولت میسر نہیں ہے۔
سفر نامہ لکھنے کے تین نسخے۔۔یاسر پیرزادہ
میں اس تحرير کے توسط سے داریل ، تانگیر اور کھنبری کے متمول اور کاروباری حضرات کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ وہ ہوٹلنگ کی طرف توجہ دیں۔ اس طرح سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگا جو نہ صرف آپ کے بلکہ پورے علاقے کے لوگوں کے حق میں بھی سودمند ثابت ہوگا۔ ہوٹلنگ دنیا بھر میں منافع بخش کاروبار سمجھا جاتا ہے۔ یہ گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں ہے لہذا عزم مصمم کیجیے کہ آپ نے ہوٹل تعمیر کرنا ہی کرنا ہے۔ یہ کام کل کرنا ہے تو آج اور آج کرنا ہے تو ابھی شروع کیجیے۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ ان علاقوں کے لوگ بڑے مہمان نواز ہیں۔ مہمان کو اعزاز سمجھتے ہیں اور اس پر جان چھڑکتے ہیں۔ میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جن کے دسترخوان سدا آباد رہتے ہیں اور مہمان نہ ہو تو کھانا ہضم نہیں ہوتا لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مہمان نوازی سے سیاحت کو فروغ نہیں دیا جا سکتا۔ مہمان نوازی الگ ہےاور سیاحت الگ۔
وادی تانگیر ستیل نامی جگہ تک سڑک کی سہولت میسر ہے۔ سڑک کچی ہے پکی کرنے کے ساتھ ساتھ اس وادی کے لوگ ہوٹل اور ریسٹورنٹ کھول کر سیاحت کو فروغ دے سکتے ہیں اور لاکھوں روپے کما سکتے ہیں۔ داریل میں “اٹھ” نامی جگہ تک سڑک بنا کر اور داریل میں طعام و قیام کا اہتمام کر کے لوگ اپنا معیار زندگی بہتر بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح سڑک کے ذریعے کھنبری اور گلگت شہر کو آپس میں جوڑا جا سکتا ہے۔ اگر ان علاقوں میں سیاحوں کی آمد ورفت جاری ہوئی تو علاقے سے غربت و افلاس کا خاتمہ ممکن ہے۔ سیاحت کا شعبہ وسیع ہے اس سے ہزاروں لوگوں کا روزگار جڑ سکتا ہے۔ یہ لوگ اسکردو، ہنزہ، استور اور غذر کے لوگوں سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ اصل مقصد حلال روزی کمانا ہے۔ سرکار ہر فرد کو ملازمت نہیں دے سکتی۔ روزگار کے کئی طریقے ہیں۔ سیاحت کے فروغ کے لئے اقدامات اُٹھائیں اور باعزت روزی کمائیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں