بھیڑیا اور مریخ گاڑی (38)۔۔وہاراامباکر

کیلی فورنیا کے ایک تعلیمی ادارے نے آرٹس، میوزک اور فزیکل ایجوکیشن کے پروگرام بند کر دئے۔ وجہ؟ اس ادارے نے تینتیس کروڑ ڈالر خرچ کر کے کمپیوٹر، سرور، مانیٹر اور دوسری آلات خریدے تھے۔ بہت فخر اور بڑی دھوم دھام سے اس کا افتتاح کیا گیا تھا۔
چند برس گزر جانے کے بعد یہ آلات پرانے ہو کر بے کار ہو گئے تھے۔ مائیکروپروسیسر تیز ہو چکے تھے۔ میموری ہارڈ ڈسک سے کلاوٗڈ پر جا چکی تھی۔ نئے سافٹ وئیر پرانے فرم وئیر پر کام نہیں کرتے تھے۔ دس سال میں ان کی مہنگی خریداری کسی کام کی نہیں رہی تھی۔ سکول کا فخر اور وہ خرچ جس نے تخلیقی آرٹ اور جسمانی فِٹنس کا گھلا گھونٹ دیا تھا ۔۔۔ اپنی مختصر عمر گزار کر پھینکا جا رہا تھا۔
یہ ہمیں سوچنے کا موقع دیتا ہے۔ مشینوں کا یہی انجام ہے۔ ان کا ڈیزائن انہیں قید کر دیتا ہے۔ بننے کے ساتھ ہی متروک ہو جانا طے ہو جاتا ہے۔
اگر ہم بائیولوجی کا مطالعہ ذرا دھیان سے کریں تو ہم لائف وئیر کے اصولوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایک بھیڑئے کی ٹانگ ایک شکنجے میں آ جاتی ہے۔ وہ اس ٹانگ کو دانتوں کی مدد سے کاٹ کر آزادی حاصل کر لیتا ہے۔ لنگڑاتا ہوا اپنی زندگی جاری رکھتا ہے۔ اس کا مقابلہ مریخ گاڑی “سپرٹ” سے کرتے ہیں۔ یہ چار جنوری 2004 کو سرخ سیارے کی سطح پر اتری۔ کامیابی سے سیر کرتی رہی لیکن 2009 میں چار سو پاوٗنڈ کی روبوٹک گاڑی مٹی میں پھنس گئی۔ یہ باہر نہیں نکل پا رہی تھی کیونکہ اگلا پہیہ کام نہیں کر رہا تھا۔ مریخ کی سطح پر پھنسی سپرٹ کے شمسی پینل خود کو سورج کی طرف نہیں کر سکے۔ روور کی پاور ختم ہو گئی اور سردیوں میں اس کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ 22 مارچ 2010 کو اس نے اپنا الوداعی پیغام زمین پر بھیجا اور ختم ہو گئی۔ اب یہ مریخ پر پڑا چالیس کروڑ ڈالر کا کچرا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپرٹ نے اپنی شیڈولڈ زندگی سے زیادہ وقت گزارا لیکن اگر ہم نے ایسی انسانی کالونیاں بنائی ہوتیں جو چند سال کے بعد ڈھانچہ بن جاتیں تو یہ کامیابی نہ ہوتی۔
یہ مریخ گاڑی کے ڈئزائن پر تنقید نہیں۔ سپرٹ ناسا کی شاندار انجینرنگ اور زبردست کامیابی تھی۔ مسئلہ ہارڈوائرنگ کا ہے۔ اگر ایک روبوٹ اپنا پہیہ، اپنا ایکسیل یا کوئی اور حصہ گنوا دے تو کھیل ختم۔ لیکن جانوروں کی دنیا میں جانداروں کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ چلتے رہتے ہیں۔ لنگڑا کر، گھسیٹ کر، اچھل کر ۔۔۔ اپنی کمزوریوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنی زندگی جاری رکھتے ہیں۔
پھندے میں پھنسا بھیڑیا اپنی ٹانگ چبا لیتا ہے اور اس کا دماغ اس نئے جسم کو کنٹرول کر لیتا ہے۔ کیونکہ اس کے لئے زندگی جاری رکھنا اس کا مقصد ہے۔ اسے خوراک کی ضرورت ہے۔ پناہ کی ضرورت ہے اور اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچنا ہے۔ ان کی سپورٹ کی ضرورت ہے۔ دماغ اس کا حل ڈھونڈ لیتا ہے۔
مریخ گاڑی اور بھیڑیے میں فرق کس کا ہے؟ یہ فرق “انفارمیشن” بمقابلہ “مقصد کے ساتھ انفارمیشن” کا ہے۔ سپرٹ کا اپنا کوئی مقصد نہیں۔ اس کے مقابلے میں پھنسے ہوئے بھیڑیے کی اپنی آرزوئیں ہیں۔ محفوظ رہنے کی خواہش ہے۔ خطرے سے فرار چاہتا ہے۔ اس کے لئے گئے فیصلوں اور ارادوں کی راہنمائی مقاصد کرتے ہیں۔ دماغ ان کے حصول کے لئے ماحول سے انفارمیشن پیتا ہے اور وہ کرتا ہے جو اس کا جسم اجازت دیتا ہے۔ دماغ ان صلاحیتوں کو مفید اعمال میں ترجمہ کر دیتا ہے۔
بھیڑیا لنگڑاتا ہوا بھی زندگی جاری رکھتا ہے۔ جانور ضرر کے ساتھ ہی بند نہیں ہو جاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدرت کو پتا تھا کہ بھیڑیے کے دماغ کو ہارڈوائیر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جسم کا پلان بدلتا ہے۔ ماحول تبدیل ہوتا ہے۔ صلاحیت اور عمل کا پیچیدہ تعلق یکساں نہیں رہتا۔ بہتر پلان یہ ہے کہ ایسا سسٹم بنایا جانا ہے جو انفارمیشن کو پراسس کر سکتا ہو۔ انفارمیشن میں سے مفید ترین کو اخذ کرنے کے لئے خود کو ڈھال سکتا ہو۔ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ایڈجسٹ ہو سکتا ہو۔ مقاصد طویل مدت کے بھی ہوتے ہیں، مختصر مدت کے بھی۔ لیکن ہر حال میں دماغ کا ٹارگٹ ان کو پورا کرنا ہے۔
ایسے روبوٹ بنانے کے لئے کیا کرنا ہو گا جو خود کو پہنچنے والے نقصان کے باوجود کام جاری رکھیں؟ ایسے روبوٹ بدلتے باڈی پلان کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت، کھانے پینے، سوشلائز کرنے اور زندہ رہنے کی خواہش رکھتے۔ جب یہ ہو جائے تو پھر وہ اپنے پھنسے ہوئے پہیوں اور نقصان پہنچ جانے والے پارٹس کے ساتھ بقیہ سرکٹ کے ساتھ وہ جاری رکھتے جو انہوں نے شروع کیا تھا۔ تصور کریں کہ مریخ گاڑی اپنا پہیہ الگ کر دیتی اور باقی پہیوں کے ساتھ چلنے کا طریقہ سیکھ لیتی۔ اس کو بنانے کے لئے مشینوں کو مقاصد اور اِن پُٹ کو ملا کر اپنی وائرنگ تبدیل کرنے کا طریقہ آنا چاہیے۔
نہ ہی بھیڑیا ہارڈ وائیرڈ ہے، نہ ہی میں اور آپ۔ یہ دنیا اتنی پیچیدہ ہے کہ اس کی پیشگوئی کرنا ممکن نہیں ہے۔ اور اس وجہ سے ایسی جینیاتی پروگرامنگ ناممکن ہے، جو اس دنیا کی باریکیوں کا سامنا کر سکے۔ آخر، سب کچھ ہی ایک رواں بہاوٗ میں ہے۔ اجسام، خوراک کے ذرائع، دوسرے افراد اور انواع، ماحول یا کچھ بھی اور ہو۔ اِن پُٹ، صلاحیت اور آوٗٹ پُٹ کا آپسی تعلق بنانے کا بہتر طریقہ ایسا سسٹم بنانا ہے جو ایکٹو طریقے سے بہتر ہو سکے۔ مقاصد کیلئے خود کو ایڈجسٹ کرتا ہو۔
قدرتی انجینرنگ کی کامیابی کے طریقے کا یہ فہم مصنوعی انجینرنگ کے لئے نئے دروازے کھول سکتا ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply