جو تیری چاہت ہے۔۔سید مہدی بخاری

پاکستان کو خدا نے بارہ سو کلومیٹر لمبی کوسٹل پٹی عطا کی ہے جس کا زیادہ تر حصہ بلوچستان کو لگتا ہے۔ ان چھوئے ساحل ہیں مگر ان ساحلوں پر قدم رکھنے کے لئے راہیں خود تلاشنا پڑتی ہیں۔ یہ مرکزی سڑکوں سے ہٹ کر پہاڑوں کے بیچ یا ریتلے ٹیلوں کے دامن میں واقع ہیں۔ ایسا ہی ایک ساحل داران کے نام سے جانا جاتا ہے۔۔

اس تصویر میں مَیں خود کھڑا ہوں، کچھ لمحے قبل سورج ڈوبا تھا۔ اس وقت میں فوٹوگرافی میں مشغول رہا۔ بہت کٹھنائیاں جھیل کر دشوار گزار راہوں میں راہ تلاشتا میں اس ساحل پر پہنچا تھا۔ اب جب آسمان پر بادل کے ایک ٹکڑے کو ڈوبتے سورج کی آخری کرن نے گلال مل دیا ہے تو ایسی تنہائی و اداسی کے لمحات میں مجھے اپنے ماضی سے کئی منظر یاد آنے لگتے ہیں۔ کئی سورج بجھ چکے، کتنی شامیں غروب ہو چکیں، کئی راتیں مجھے سفر میں لوریاں سناتے بیت چکیں۔

ایسی اداس شام میں بیتے لمحے، سفری یادیں، ہنستے روتے لوگ، گلگت بلتستان کی وادیاں، جیپوں کا شور، جنگل، نگر اور ہیسپر کے پرانے گھر، دریاؤں کے کنارے، سمندروں کی نمکین باس، پربت، جھرنے اور چپ راتوں میں لگا تنہا کیمپ سب یاد آنے لگتے ہیں۔ انسان فطرت کو اپنے اندر جذب کرتے کرتے کبھی زندگی کی اس اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے کہ فطرت اسے اپنے اندر جذب کرنے لگتی ہے اور وه لمحہ بہ لمحہ، یاد بہ یاد، فنا ہوتا جاتا ہے۔ ایک نطفے سے پیدا ہو کر خاک میں مل کر نائٹروجن بننے تک کا سارا سفر، تحلیل ہونے کا مرحلہ ہی تو ہے۔ خلیہ بہ خلیہ۔ فطرت کو اپنے اندر سمونے کی چاه میں مگن لوگوں کو اصل میں فطرت اپنے اندر سمو لیتی ہے۔۔

بیتے شب و روز دھیان میں آ کر ایک ہنگامہ برپا کیے رکھتے ہیں۔آئسولیشن نے مجھے کبھی بے چین نہیں کیا۔ جو لوگ مجھے جانتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ میں فطری طور پر الگ تھلگ یا تنہا رہنے والا انسان ہوں اور اسی میں خوش رہتا ہوں۔ مجھے ہجوم، کانفرنسوں، ملاقاتوں، نمائشوں، تقریبات وغیرہ وغیرہ سے چڑ ہے۔ میل جول سے اجتناب کرتا ہوں۔ کوئی شخص خود آ کر مل لے تو مل لے۔ یہ تنہاروی میری فطرت ہے۔ مصنوعی ہنسی، مروت بھری باتیں اور گوسپس مجھ سے نہیں ہو پاتے۔۔

اب جب میں زندگی کی 37 خزائیں دیکھ چکا ہوں، کبھی آئینے میں اپنی صورت دیکھوں تو سر کے بالوں میں چاندی اُترنے لگی ہے۔ ان سفید ہوتے بالوں اور سیاہ پڑتی آنکھوں، جذبات کی مدھم ہوتی لَو، اور گم گشتہ رشتوں کے بیچ ایسے کھڑا ہوں جیسے مسافر آدھے سفر کے بعد کسی سرائے میں کچھ دیر کو ٹھہرے اور پھر باقی آدھے سفر کی تیاری کرنے لگے۔اگر انسان کی اوسط عمر ساٹھ سال ہے تو آدھی گزر چکی (بالیقیں حیات و موت کا مالک جب چاہے قصہ تمام کر دے)۔ مسافر مڑ کے دیکھنا بھی چاہے تو پیچھے راستوں پر گردباد کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ دُھول مٹی کا طوفان ہے جیسے کچے راستے سے گزر کر سواری اپنے پیچھے گرد مٹی کا طوفان چھوڑ جاتی ہے۔ اسی گردباد میں کئی دوست، رشتے، ماں باپ، اور عزیز مٹی اوڑھ کر سو چکے ہیں۔

زندگی کے اب تک کے سفر میں کیسے کیسے نقش مٹ چکے ہیں۔ دوست ہنگامہ روز و شب میں فکرِ معاش لیے دور جا بسے ہیں۔ اچھے سے اچھے کی تلاش میں، لائف سٹائل کو پُر تعیش بنانے کی چاہ میں دوست بچھڑتے جاتے ہیں اور میں اپنی دُھن میں اپنے شوق کے پیچھے کئی سالوں سے سرگرداں ہوں۔ نوکر پیشہ اتنا ہی سفر کرتا ہے جتنا اس کی زنجیرِ پا کرنے دیتی ہے۔۔

تصویر کشی یا مصوری ایک ثانوی فن ہے، اصل تو سفر ہے جو انسان کو شعور بخشتا ہے۔ دوسروں کے بارے جاننے کا موقع ملتا ہے۔ کئی کہانیاں سنائی دیتی ہیں، کئی رسم و رواج دکھائی دیتے ہیں۔ کئی ہمسفر ہمیشہ یاد رہتے ہیں، تو کئیوں سے انسان اسی وقت فرار ہو جاتا ہے۔ مزاج داں ملے نہ ملے سفر کا سارا مزہ دوسروں کو جاننے میں ہے۔

اس منظر سے کچھ ہی لمحے قبل سورج آخری ہچکیاں لے رہا تھا تو آنکھ نے بس دیکھا کیا،۔کئی گزر جانے والوں کی شکلیں ڈوبتے سورج میں گڈ مڈ ہو گئیں۔ کئی ناموں پر دل پسیجا اور دیکھتے دیکھتے اُفق پر ٹھہرے بادل کے ٹکرے میں خون اتر آیا۔

آنے والے دنوں کا مالک و مختار پتہ نہیں زندگی کے اور کیا کیا رنگ دکھاتا ہے مگر ایک موہوم سی تسلی تو اندر سے آتی ہے کہ جو ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے ، جو ہوا وہ ہونا ہی تھا اور آگے بھی جو ہو گا ٹھیک ہی ہو گا ۔راضی بر رضا اور منشائے الہی کے سامنے سر خم کرنے کے سوا انسان کے پاس آپشن ہی کیا ہوتی ہے ۔حدیثِ قُدسی نہ ہوتی تو شاید ہم جیسوں کا دل بالکل ہی اُٹھ چُکا ہوتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

“ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے۔ ہو گا وہی جو میری چاہت ہے”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply