بال سفید ہوگئے میرے ان کے بیچ۔۔عارف خٹک

رات کے آٹھ بج رہےتھے۔ دفتر سے آکر کمر سیدھی کی۔ تھوڑی دیر بعد جوگرز اور شارٹ پہن کر ورزش کیلئے اپنی بلڈنگ سے باہر نکلا، میرا جم میری بلڈنگ سے پانچ سو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ سامنے بہت بڑا ٹریفک سگنل ہے جس کی خودکار بتیاں کافی دیر بعد سبز ہوتی ہیں۔ سو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کیلئے آپ کوکم سے کم بھی پانچ منٹ کا وقت درکار ہے۔ سڑک عبور کرنے کے لیےمرد وخواتین کا ایک جم غفیر کھڑا ہوتا ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں، پژمردہ چہرے اور تھکے ماندے جسم گھسٹتے ہوئے دیکھ کر میرے جیسے بندے پر ایک عجیب سی یاسیت چھا جاتی ہے۔

کہتے ہیں کہ رائٹر کا اگر مشاہدہ کمزور ہے تو وہ رائٹر کہلانے کے قابل نہیں ہے۔ انسانی چہروں کا قریبی مشاہدہ، ان کے جذبات و احساسات کا مشاہدہ، ان کی چال ڈھال کا مشاہدہ  کرتے کرتے ہم جیسے لکھنے والے ایک کردار تخلیق کرلیتے ہیں، اور خود کو اس کردار میں ڈھال کر آپ کو رُلاتے ہیں اور ہنساتے ہیں۔

میں روزمرہ کے مشاہدات کا بہت شوقین ہوں۔ مجھے ہر چہرے میں ایک کہانی نظر آتی ہے۔ کسی کا روتے بلکتے بچوں کا انتظار، کسی کا انتظار کرتا محبوب، اور کوئی رشتوں کے نام پر بلیک میل ہوتا مزدور پیشہ ادھیڑ عمر پشتون ۔ میری کہانیوں کے کردار یہی عام لوگ ہیں۔

آج اس جم غفیر میں مجھے میلے کچیلے کپڑوں میں دو پشتون نظرآ ئے۔ ایک کی عمر غالباً  ساٹھ سال کے قریب ہوگی۔ اس کیآنکھوں میں ماند پڑتی چمک سے اندازہ ہورہا تھا کہ جوانی دیار غیر میں تیاگ کرکے وہ اس کنفیوژن کا شکار ہے کہ اپنی آخری سانس یہیں کسی گرم دن، کسی سڑک کنارے بیلچے سے ریت ہٹاتے ہوئے پوری کرے، یا گاؤں جاکر اپنی بوڑھی بیوی کے سامنے شرمندہ ہوکر مرنے کو ترجیح دے۔ بابا کیساتھ ایک نوعمر مزدور تھا جو نیا نیا دیار غیر وارد ہوا تھا۔ بابا تفصیل کیساتھ اس نوعمر  کو دیار ِ غیر اور اپنے وطن کا فرق سمجھا رہے تھے۔ میں جان بوجھ کر ان دونوں کے قریب گیا کہ ان کی باتیں سنوں۔

“بچے یہاں کی چمک دمک پر مت جائیں یہ جو ننگی عورتیں آپ کو نظر آرہی ہیں یہ اندر سے بالکل ٹوٹی پھوٹی ہیں۔ ان کی روح تک مردہ ہوکر باس دے رہی ہے، بال سفید ہوگئے میرے ان کے بیچ”۔
بابا نے اپنا فلسفہ ایک جھٹکے میں انڈیل دیا۔ نوجوان حریص نظروں سے ننگی پنڈلیوں کو گھور کر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔

“اگر آپ کے پاس گاڑی ہے ایک کمرہ ہے تو یہی عورتیں بغیر نکاح آپ کے ساتھ رہیں گی، ان کا دین ایمان پیسہ ہے، بال سفید ہوگئے میرے ان کے بیچ”۔

نوجوان دنیا مافیہا سے بے خبر پاس کھڑی خواتین سے حظ اٹھا رہا تھا۔ میرے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ چھا گئی۔ بابا کے مشاہدے کا میں قائل ہوگیا۔

“بچے یہاں ذہنی ابتری بہت زیادہ ہے۔ عورت کو چھوڑ یہاں کے مرد بھی مرد کیساتھ جسمانی تعلقات کیلئے مررہے ہیں، بال سفید ہوگئے میرے ان کے بیچ”۔

بابا نے سامنے ایک پھینی ناک والے مرد کی طرف خشمگیں نگاہوں سے دیکھا جو کمر پر ہاتھ رکھ کر اپنی نزاکت کا ببانگ دہل اعلان کررہا تھا۔ نوجوان نے تیزی سے اپنا سر بابا کی طرف گھمایا۔
“استغفراللہ ان پر اللہ کا عذاب کیوں نازل نہیں ہوتا”۔ نوجوان کو حیرت کے شدید جھٹکے لگ رہے تھے۔
میری مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی بابا پر مجھے بے تحاشا  پیار آنے لگا۔
ایکدم بابا نے اپنی نظریں مجھ پر گاڑیں۔
“یہ کالے کچھے میں جو مرد نظر آرہا ہے ناں آپ کو؟”۔ بابا نے نوجوان کو میری طرف متوجہ کیا۔ میں انجان بن گیا کہ ان کو معلوم نہ ہو کہ میں بھی ان کا ہم زبان ہوں۔
“یہ لڑکا بالکل امردپرست ہے۔ ہم جنس پرست ہے اس کی گول گول سفید بے بال پنڈلیاں اس بات کی غمازی کرتی  ہیں کہ یہ بھی مفعول ہے، بال سفید ہوگئے میرے ان کے بیچ”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں شدید غصے کی کیفیت میں تیزی سے آگے بڑھ کر بابا کو روکنے لگا تھا کہ آپ کو شرم آنی چاہیے  یوں کسی کے بارے میں ایسی بکواس کیسے کرسکتے ہیں، اسی وقت سگنل کی بتی سبز ہوگئی اور بابا اپنے فلسفے سمیت بھیڑ میں کھو گئے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply