جو ہے فرق تجھ میں مجھ میں۔۔شکور پٹھان

“ابے یار تم لوگ الگ ہی لگتے ہو” وہ بڑی دلچسپی سے سارا منظر دیکھ رہا تھا۔
“ کیا مطلب؟ کیسے الگ لگتے ہیں؟” میں نے کچھ کچھ سمجھتے ہوئے بھی پوچھ لیا۔
“ تم لوگ سالے ایک دم چِکنے لگتے ہو” وہ خواتین کے زرق برق لباسوں بلکہ شاید خواتین پر نظریں گاڑے ہوئے تھا۔
یہ واہیات سا خراج تحسین میرے لیے عجیب نہیں تھا۔ یہ میرا ساؤتھ انڈین دوست تھا۔ میں نے اپنے گھر کی ایک شادی میں دفتر ی ساتھیوں کو بھی مدعو کیا ہوا تھا اور ایک دو کو چھوڑ کر سارے انڈین تھے۔ جنوبی ہند کا یہ دوست پہلی بار کسی پاکستانی شادی میں آیا تھا۔ اس کے لئے یہ سب بہت عجیب تھا۔ جنوبی ہند یعنی کیرالہ اور مدراس وغیرہ کی شادی کی تقریبات خصوصاً  ہندو شادیوں میں بہت زیادہ مذہبی رسومات ہوتی ہیں لیکن ہلا گلا کم ہوتا ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ شادیوں میں وہ اپنے روایتی لباسوں میں ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں کی شادیوں میں شور شرابا، ہلا گلا ناچ گانا نسبتًا زیادہ ہوتا ہے۔ لباس بھی اور خاص کر خواتین کے لباس بھی کچھ زیادہ ہی بھڑکیلے اور رنگ برنگے ہوتے ہیں۔

لیکن یہ چہروں کا رنگ تھا جو میرے ملباری دوست کو متاثر کررہا تھا۔ میں نے اس کا دل رکھنے کے لیے کہہ تو دیا کہ ہندوستانیوں اور پاکستانیوں میں ایسا کوئی خاص فرق نہیں لیکن اس کی ستائشی نظریں بتا رہی تھیں کہ کچھ تو فرق ضرور ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ عام طور پر کوئی فرق نہیں البتہ کچھ علاقوں اور لوگوں میں ، عادات واطوار میں، رہن سہن ، بول چال ، رسوم و رواج میں واضح فرق ہے۔

میرے کراچی میں زیادہ تر وہی لوگ آباد ہیں جو ہندوستان کے مختلف علاقوں خصوصا ً دہلی اور بمبئی سے ہجرت کرکے آئے ہیں تو لاہور اور پنجاب کے دوسرے شہروں میں دہلی، امرتسر، لدھیانہ، جالندھر، انبالہ کے مہاجر بڑی تعداد میں بسے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف دہلی اور بھارتی پنجاب میں مغربی پنجاب یعنی لاہور، لائلپور ، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور پنجاب کے دوسرے شہروں سے نقل مکانی کرنے والے شر نارتھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ اسی طرح بمبئی اور گجرات میں بڑی تعداد ان سندھی ہندوؤں کی ہے جو کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ، ٹھٹھہ، شکارپور وغیرہ سے اپنے گھر بار چھوڑ کر ہندوستان جا بسے۔

سرحد کے دونوں جانب ایک ہی رنگ، ایک ہی زبان، ایک ہی لباس اور ایک سے رہن سہن کوئی اچھوتی بات نہیں۔ کراچی میں بہار کالونی، دہلی سوسائٹی، بنارس کالونی، بمبئی ٹاؤن، سی پی برار سوسائٹی، یوپی موڑ اور اس جیسے بے شمار نام نظر آئیں گے تو دہلی میں لاہوری دروازہ اور کراچی حلوہ، زبان حال سے پکارتے نظر آتے ہیں کہ “کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔”
اور یہاں خلیجی ممالک میں جب کوئی عرب ہم جیسی رنگت اور زبان والے کو “ ہندی” کہتا ہے یا کوئی گورا ہمیں “ یو بلڈی پاکی” کہتا ہے تو اس کی حقارت کا نشانہ ہم پاکستانی ہندوستانی دونوں ہوتے ہیں اور عربوں کے نزدیک ہندی اور اردو ایک ہی چیز ہے کہ دونوں زبانوں کے بولنے والے ان سے ایک ہی انداز میں بات کرتے ہیں، ایک جیسے کپڑے پہنے ہوتے ہیں۔
اور ہندوستانیوں کے “ ویجیٹیرین ریسٹورنٹ “ میں پاکستانی بھی اسی شوق سے “ تھالی “ کھاتے ہیں، یا ساؤتھ انڈین ریسٹورنٹ میں “ اڈلی، مسالا ڈوسا اور سانبھر “ کا ناشتہ کرتے ہیں ، جس شوق سے ہندوستانی دوست “ کراچی دربار” میں حلوہ پوری اور آلو کے پراٹھوں کا ناشتہ اور “پاک غازی” میں نہاری کا ڈنر کرتے ہیں۔ ہندوستانی مسافروں کو پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور میں کوئی “ دہشت گرد” نظر نہیں آتا تو نہ ہی پاکستانیوں کو کسی ہندوستانی ڈاکٹر سے علاج کرواتے ہوئے حرام و حلال کا خیال آتا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ اگر پاکستانی کو بتایا جائے کہ ہسپتال میں اس وقت ایک مصری ڈاکٹر اور ایک ہندو ڈاکٹر ڈیوٹی پر ہے اور وہ کس کو دکھانا پسند کرے گا تو پاکستانی مریض بلا جھجک ہندوستانی ڈاکٹر کا نام لے گا کہ وہ اس کی زبان اور مرض کو سمجھ سکتا ہے۔

گھسی پٹی محبت۔۔رابعہ احسن
اور یہ میرا چھیالیس سالہ تجربہ ہے کہ ہندوستانی اور پاکستانی جس طرح ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں کوئی دوسرا نہیں سمجھتا۔ عرب اور ایرانی لاکھ ہمارے “ مسلمان بھائی” سہی لیکن ہم لین دین اور دیگر معاملات میں ان سے دور ہی رہتے ہیں۔ یہ ہمسائے جو کبھی ماں جائے تھے ایک دوسرے سے الگ رہنا بھی چاہیں تو نہیں رہ سکتے۔

لیکن دونوں ہمسایوں میں اتنا کچھ ملتا جلتا ہے تو بہت کچھ الگ بھی ہے۔ یہ وہ فرق ہے جس سے ہندوستانی اور پاکستانی ایک دوسرے کو پہچان لیتے ہیں۔ یہ اتنی بڑی تفریق نہیں ہے اور اس کی وجہ بھی دونوں ملکوں کے معاشی، سیاسی، جغرافیائی اور مذہبی حالات ہیں۔ مثلاً بھارت کے جنوبی علاقوں کے لوگوں کی اکثریت کی رنگت سیاہی مائل ہوگی تو پاکستان کے شمالی علاقوں کے باشندے سرخ وسفید رنگت والے نظر آئیں گے۔ لیکن یہ تو قدرتی فرق ہے اور یہ فرق انڈیا میں بھی جنوبی اور شمالی ، مشرقی اور مغربی خظوں کے باسیوں میں نظر آئے گا تو پاکستان میں بھی کرانچی والے پٹھانوں کی طرح صحتمندنظر نہیں آئیں گے۔

لیکن کچھ چیزوں کا فرق بہت دلچسپ ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ صرف میرے اپنے محسوسات، مشاہدات اور تجربات ہوں۔ دوسروں کا مشاہدہ یا تجربہ اس سے بالکل مختلف ہو۔ میری باتوں سے اختلاف کی بھی بہت زیادہ گنجائش ہے لیکن شاید بہت سے میری باتوں کی تائید بھی کرینگے۔

میں نے کھانوں کی بات کی۔ کچھ کھانوں سے بھی آپ پہچانے جاتے ہیں۔ نہاری دہلی، کراچی اور لاہور میں ایک جیسے شوق سے کھائی جاتی ہے لیکن اگر آپ دہلی کے “ کریم ہوٹل” میں رات یا دوپہر میں نہاری طلب کریں تو سوال ہوگا “ پاکستان سے آئے ہو؟”۔ وجہ یہ ہے کہ دہلی میں نہاری ، نہار یعنی صبح کو ہی کھائی جاتی ہے ( یہ بہت پہلے کی بات ہے، ہوسکتا ہے اب وہاں بھی ہماری طرح چوبیس گھنٹے نہاری کھائی جاتی ہو)۔
“ ذرا شِیرہ تو دینا”۔ میری دفتری ساتھی نے کہا۔
“ شیرہ تو کوئی نہیں ہے” میں نے ناشتے کی طرف دیکھا۔
“ ارے اتنا سارا تو ہے” اس نے سوجی کے حلوے کی طرف اشارہ کیا۔
میں اپنے ساتھیوں کے لیے ایک پاکستانی ریسٹورنٹ سے حلوہ پوری کا ناشتہ لے گیا تھا۔ ان کے ہاں سوجی کے حلوے کو شیرہ کہتے ہیں۔
اور یہ کوئی پہلا مختلف لفظ نہیں تھا۔ یہ سارے انڈین جب نئے نئے آتے ہیں تو فوٹو کاپی نہیں “ زیروکس” بناتے ہیں کہ بھارت میں یہی لفظ زیادہ مستعمل ہے۔ اور کوئی دوست بھارتی دوست آپ دفتر کی بس کی طرف اشارہ کرکے کہے کہ “ ٹیپمو” وہاں کھڑی ہے تو پریشان مت ہوں ۔ وہ “ وین “ یا “ویگن” کی طرف اشارہ کررہا ہوگا۔

اگر آپ انڈیا یا پاکستان کے کسی بھی شہر کے بازار اور گلیوں کی فلم دیکھیں تو آپ کو کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔ ایک جیسے مکان، ایک جیسی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، ایک جیسے مفلوک الحال راہ گیر” ایک جیسی گندگی، ایک جیسا شورشرابا اور ایک سی پسماندگی، میں شاپنگ مالز، میٹرو بس اورنج لائن ٹرینوں اور “ پوش” علاقوں کی بات نہیں کررہا ۔ وہ ہر ملک میں ایک جیسے ہوتے ہیں۔ میں “ کٹریوں گلیوں، اور محلوں کی بات کررہا ہوں۔ ٹریفک ویسا ہی بے ہنگم، لوگوں کا ازدحام دونوں جگہ ایک سا نظر آئے گا لیکن ایک فرق واضح ہے۔ ہاتھ سے چلنے والی “غیر انسانی” سائیکل رکشہ آپ کو ہندوستان کے تقریباً ہر شہر میں نظر آئے گی۔ کلکتہ میں تو ہاتھ کا “ شرمناک” رکشہ بھی نظر آئے گا جسے مدقوق اور منحنی انسانی ہاتھ کھینچ رہے ہوتے ہیں۔ دوسری چیز جو ہندوستان کے ہر شہر میں نظر آئے گی وہ بیچ سڑک چلتی گائیں ہیں جنہیں کوئی روکنے کی ہمت نہیں کرسکتا اور جو چلتے ٹریفک میں سڑک کے بیچوں بیچ بڑی بے اعتنائی سے بیٹھی نظر آئیں گی۔ ان کے علاوہ کئی شہروں میں آوارہ کتوں کے ساتھ “سؤر” بھی چہل قدمی کرتے نظر آئیں گے۔ میری معلومات کے مطابق پاکستان کے کسی شہر کی گلیوں اور بازاروں میں سؤر نہیں پائے جاتے۔ البتہ اسلام آباد میں سنا ہے کہ سؤر ہوتے ہیں (اور اس پر یقین کیا جاسکتا ہے۔) لیکن یہ جنگلی سؤر ہوتے ہیں۔ ایک اور جانور جو ہندوستان کے کئی شہروں میں افراط سے نظر آتے ہیں وہ ہیں بندر۔ مجھے نہیں پتہ کہ پاکستان کے کسی شہر میں بندر انسانوں کے شانہ بشانہ بھی پائے جاتے ہیں۔ ان جانوروں کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ہندوستان کی گلیوں اور بازاروں کا زیادہ تر کچرا یہ بے زبان ہی صاف کردیتے ہیں۔

پاکستان میں شہروں کی صفائی ستھرائی کی ذمہ داری “ بلدیہ “ کی ہوتی ہے جب کہ بھارت میں “ مونسپالٹی “ یا “ نگر پالیکا” یہ کام کرتی ہے۔ وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت ہے تو ان کے ہاں “ جن تنتر “ ہے۔ ہمارے ہاں قومی اسمبلی اور سینیٹ یا ایوان زیریں اور ایوان بالا ہیں تو پڑوس میں “ لوک سبھا” اور “راجیہ سبھا” ہیں۔ پارلیمان ان کے ہاں سنسڈ ہے۔
خیر یہ تو کوئی ایسی بات نہیں ، کہ ہمارے ہاں اردو اور ان کے ہاں ہندی یا ہندوستانی کا چلن ہے لیکن ایک بات ماننی پڑے گی کہ ہندوستان میں قانون کا چلن ہم سے کہیں زیادہ ہے ۔ البتہ ہمارے قانون نافذ کرنے والوں کا رشوت کا ریٹ ان کے بھارتی ہم منصبوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح بھارتی عام طور پر سرکار سے مطمئن رہتے ہیں لیکن ہمارے ہاں عموماً “ کسی بھی” حکومت کو پسند نہیں کیا جاتا اور حکومت مخالف جذبات ہر دور میں پائے جاتے ہیں۔ ہندوستانی البتہ الیکشن میں بھرپور حصہ لے کر حکومت کو بدل بھی لیتے ہیں ہم البتہ حکومت کو گالیاں دے کر بھی اگلے انتخاب میں انہی نمائندوں کو اسلئے ووٹ دیتے ہیں کہ وہ ہماری ذات، برادری یا مسلک کا ہے۔

شہرِ گریہ(قسط1)۔۔۔شکور پٹھان
جہاں تک زندگی کے حقیقی مسائل اور ضرورتوں کا تعلق ہے ہندوستان میں ان پر سنجیدگی سے زور دیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں فروعی یا ثانوی ضروریات پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ میری بات شاید کسی کی سمجھ نہ آئے۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہندوستان میں تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل زیادہ توجہ پاتے ہیں۔ سرکاری تعلیم ہر شہر میں میسر ہے اور انتہائی سستی ہے، اسی طرح سرکاری ہسپتال اور علاج معالجے کی سہولتیں بہت زیادہ اور بہت بہترین ہیں ۔ یہاں دوبئی سے کئی عرب انڈیا صرف علاج کی خاطر جاتے ہیں ۔ جب کہ ہماری زیادہ توجہ تعیشات اور فضولیات پر ہوتا ہے۔ ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں غیرملکی کاروں کی بھرمار ہے۔ ہمارے ہاں کوکا کالا، پیپسی وغیرہ ایک زمانے سے ہیں جبکہ بھارتیوں کویہ سب کچھ نرسمہا راؤ کے وزیر خزانہ منموہن سنگھ کی پالیسیوں کے سبب نصیب ہوا۔ اس سے قبل وہ اپنے مقامی مشروبات “ لمکا” اور “ تھمس اپ” پر گذارہ کررہے تھے۔

ہمارے ہاں کوئی خاتون موٹرسائیکل یا سائیکل چلائے تو مردوں کی نظریں حدِ نظر تک اس کا پیچھا کریں گی۔ ہندوستان میں یہ ایک عام سی بات ہے اور لڑکیاں اطمینان سے سائیکل اور اسکوٹر چلاتی ہیں۔ البتہ پاکستان میں کار چلانے والی خواتین کی تعداد ہندوستانیوں سے بہت زیادہ ہے ( وہی بات، بنیادی ضروریات والی)۔ بمبئی کی بسوں میں خواتین کے لئے الگ کمپارٹمنٹ نہیں ہوتا جبکہ ہمارے ہاں عورتوں حصہ الگ ہونے کے باوجود عورتیں گھبرائی سی رہتی ہیں کہ اکثر مرد جان بوجھ کر خواتین والے حصے سے سوار ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں گھر سے باہر کھانے کا مطلب ہے نہاری، حلیم، بریانی، پایا، چرغہ، تکا بوٹی وغیرہ کھانا جبکہ ہندوستانی مردعورتیں ، بھیل پوری، پاؤبھاجی، مسالا ڈوسا، رگڑا پیٹیز وغیرہ کے لیے باہر جاتے ہیں۔ ہندوستان میں عموماً گھر میں ہی کھانے کا رواج ہے جبکہ کچھ عرصے سے پاکستان میں باہر کھانے کا رواج زیادہ ہوگیا ہے۔ میری اکثر ہندوستانی ساتھی خواتین صبح دفتر آنے سے پہلے نہ صرف ناشتہ بلکہ دوپہر کا کھانا بھی پکا کر دفتر آتی تھیں۔

یہی حال فیشن میں ہے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی خواتین جدید فیشن کو اپنانے میں ذرا دیر نہیں لگاتیں ۔ کچھ یہی حال مردوں کا ہے۔ ہندوستانی اور خصوصاً  ساؤتھ انڈین بہت عرصہ تک ایک ہی فیشن پر قائم رہتے ہیں۔ بیل باٹم ہمارے ہاں متروک ہوئے زمانہ ہوگیا تھا، اس کے تقریباً پانچ سال بعد تک ہندوستان میں بیل باٹم پہنی جاتی رہی۔ پہلے یہاں دوبئی میں ہندوستانی خواتین دوپٹہ نہ لینے کی وجہ سے پہچانی جاتی تھیں اب ہماری خواتین نے بھی دوپٹّے کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ الحمدللّٰہ۔ ہاں ایک فرق اب بھی واضح ہے۔ نوجوان پاکستانی خواتین اور لڑکیاں اب شلوار میں کم نظر آتی ہیں زیادہ تر ٹراؤزر یا پاجامہ پہنتی ہیں لیکن اس کا رواج بھارتی خواتین میں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ ( میری وسعت نظر کی داد دیں)۔

دہلی خواتین کی آبروریزی کے حوالےسے دنیا بھر میں بدنام ہے اور World’s Rape Capital کہلاتا ہے۔ لیکن میرے دوست شاید مجھے کچا چبا جائیں اگر میں کہوں کہ عورتوں کی توقیر عموماً بھارت میں پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں خواتین بے فکری سے سودا سلف بیچتی نظر آتی ہیں ، دفتروں میں کام کرتی ہیں، بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں۔ اتنی آزادی ہماری خواتین کو دی جائے پھر نتیجہ دیکھئے گا۔
ہندوستانی مول تول زیادہ اور خرچ کم کرتے ہیں۔ پاکستانی مول تول کم اور خرچ زیادہ ( بلکہ آمدن سے کہیں زیادہ ) کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستانی جب واپس اپنے دیس واپس آتا ہے تو وہ اپنا گھر بنا چکا ہوتا ہے۔ پاکستانی اپنے قرض سے ہی نہیں نجات پاتا۔ ہندوستان میں پرائیوٹ کاروں کا چلن ہم سے بہت کم ہے لیکن ہر شہر میں پبلک ٹرانسپوڑت کا بہترین نظام موجود ہے۔ ہمارے ملک کے سب سے بڑے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ نام تھا جس کا ، کب کی گئی تیمور کے گھر سے۔ بمبئی میں لوکل ٹرین، بسیں ہر شہری کو میسر ہیں ۔ ہمارے شہروں میں ذاتی کاروں، موٹرسائیکلوں اور اللہ ماری “ چنچیوں” کا شور کانوں کے پردے پھاڑے ڈالتا ہے۔

ہمارے ہاں جب دوست احباب ملتے ہیں تو معانقہ یا مصافحہ کرتے ہیں ( زمانہ قبل از کرونا کی بات کررہا ہوں )۔ ہندوستانی زیادہ سے زیادہ ہاتھ ملائیں گے ورنہ دور سے ہے ہاتھ جوڑ کر پر نام کرینگے۔ ہندوستانی عام طور پر اپنے سے بڑے اور سینئر کا احترام کرتے ہیں اور ان کے پاؤں چھوتے ہیں، ہمارے ہاں کوئی خود کو چھوٹا نہیں سمجھتا اور پاؤں چھونا تو ویسے بھی شرک ہے۔ غیر اسلامی ہے۔
ہندوستان نے اپنے شہریوں کو بہت سی بنیادی سہولتیں دینے کی کوشش کی لیکن ایک چیز میں بہت بری طرح ناکام ہے اور وہ ہے بیت الخلاء۔ بمبئی جیسے شہروں میں اکثر گھروں میں بیت الخلا نہیں ہیں۔ چال جیسی عمارتوں میں تیس تیس، چالیس چالیس گھرانوں کے کے لئے ایک یا دو بیت الخلا ہوتے ہیں۔زیادہ تر لوگ، سمندر کنارے یا کھلے میدان یا ریلوے ٹریک کے قریب رفع حاجت میں مصروف نظر آئیں گے اور اس میں دن اور رات، مرد اور عورت کی تخصیص نہیں۔ پاکستان میں الحمدللّٰہ چھوٹے سے چھوٹے گھر کا بھی اپنا بیت الخلا ہوتا ہے بلکہ ایک سے زیادہ ہوتے ہیں۔

بہت سے پھل جو ہمارے ہاں ملتے ہیں وہ ہندوستان میں نہیں پائے جاتے اسی طرح بہت سے ہندوستانی پھلوں سے ہم پاکستانی واقف نہیں۔” کینو “ تو ہم پاکستانیوں کی “ایجاد” ہے۔ کوئٹہ اور چمن کا “ گرما” ، چلغوزے وغیرہ بھارت میں اجنبی ہیں ۔ہمارے ہاں “ رام پھل، کاجو پھل، تاڑ گولے، اور “ فنس” کا نام کوئی نہیں جانتا۔ ہندوستانی اپنے ہاپوس یعنی الفانسو کو آموں کا بادشاہ سمجھتے ہیں اور ہم اپنے چونسا کے سامنے کسی کو نہیں گردانتے۔ ہاں ایک بات ہے کہ آموں کی قیمت کچھ بھی ہو ہم بے حساب اور کلو کے حساب سے خریدتے ہیں جبکہ ممبئی میں آم درجن کے حساب سے فروخت ہوتا ہے اور “ الفانسو “ بھی گن کر خریدا جاتا ہے۔

گننے اور تولنے پر یاد آیا کہ ہمارے ہاں دودھ، گوشت وغیرہ آدھا پاؤ تو کوئی خرید لے گا لیکن “ گرام “ کے حساب سے کوئی نہیں خریدتا جب کہ ہندوستان میں چار سو گرام گوشت بھی خریدا جاسکتا ہے۔ اور ایک اور پیمانہ “ کوئنٹل” ہے جسے میں نے کبھی پاکستان میں استعمال ہوتے کبھی نہیں دیکھا۔
پان اور گٹکے کا رواج دونوں کے ہاں ایک جیسا ہے لیکن شکر ہے ہمارے ہاں “دارو” کی لت عام لوگوں کو نہیں۔ خاص لوگوں کی بات دوسری ہے۔ یہاں تو ویسے بھی انسانوں یعنی عام انسانوں کی بات ہورہی ہے، خاص لوگ ، کوئی دوسری مخلوق ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عام اور خاص کی بات سے یاد آیا کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ بہت ہی خاص ہوتے ہیں اور ان کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔ حکومت ہو یا حکومت کے مخالفین ، سب ان کی خوشنودی کو خدا کی رضا سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں اور ان کی قدم بوسی بہت بڑا اعزاز سمجھی جاتی ہے۔ ہندوستان میں البتہ ان “خاص لوگوں” کو ان کی اوقات میں رکھا جاتا ہے ۔ اسی لئے بھارت ہم سے پیچھے رہ گیا اور وہاں ڈیفینس سوسائٹی، بحریہ ٹاؤن ، نیول کالونی جیسے اعلی اور جدید رہائشی علاقے نہیں ہیں۔
بہت سی اور باتیں ہوں گی جو ہم میں اور ان میں مختلف ہوں گی۔ کچھ چیزیں ہمارے ہاں ان سے اچھی ہیں تو کچھ ان کے ہاں بہتر ہونگی ۔ میری بات کوئی پتھر پر لکیر نہیں ۔ بہت سی باتیں شاید درست نہ ہوں۔ لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رہنی چاہیے کہ یہ دنیا فانی شے اور آخرت میں تو ہم ہی سرخرو ہونگے۔ اس لیے بہت زیادہ فکر کی ضرورت نہیں۔
پاکستانی اور ہندوستانی بھائیوں سے “ کہا سنا معاف” کی التجا کے ساتھ ۔خدا حافظ

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply