شارٹ کٹ (38)۔۔وہاراامباکر

فلم “میٹرکس” میں مرکزی کردار نیو اور ٹرینیٹی ایک عمارت کی چھت پر ہیں۔ ایک ہیلی کاپٹر کھڑا ہے۔
نیو: “کیا تم یہ ہیلی کاپٹر اڑانا جاتی ہو؟”
ٹرینیٹی: “ابھی نہیں”
ٹرینیٹی اپنے ساتھی کو فون کرتی ہے اور پائلٹ کا پروگرام مہیا کرنے کا کہتی ہے۔ ساتھی فٹافٹ سے کمپیوٹر پر تلاش کر کے چند سیکنڈ میں ٹرینیٹی کے دماغ میں یہ پروگرام ڈال دیتا ہے۔ نیو اور ٹرینیٹی ہیلی کاپٹر میں بیٹھتے ہیں اور وہ ہیلی کاپٹر اڑا لے جاتی ہے۔
ہم ایسا مستقبل پسند کریں گے لیکن سائنس فکشن کے اس منظر پر سائنس کیا کہتی ہے؟ کیا ایسا ہونا کبھی ممکن بھی ہو سکے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک صدی پہلے تک یادداشت کو سمجھنے کا ایک بڑا چیلنج ٹیکنالوجی کا نہ ہونا تھا۔ اب اس کی غلط سمجھ کو درست کرنے میں بڑا چیلنج ٹیکنالوجی کا ہونا ہے۔ خاص طور پر کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی کا۔ ڈیجیٹل انقلاب نے ہماری زندگی کا ہر پہلو پر اتنا اثر کیا ہے کہ اس کے استعاروں سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔ حالانکہ ان دونوں کا آپس میں کوئی موازنہ نہیں۔ اور ان میں سب سے بُری مثال میموری کی ہے۔ انسانی دماغ کی یادداشت کی سٹوریج کا کمپیوٹر کی یادداشت کے طریقے سے ذرا بھی تعلق نہیں۔ دماغ کسی منظر کی یاد کو ایک ایک نکتہ کر کے کوڈ نہیں کرتے۔ ہم اپنی پسندیدہ کہانیوں کو حرف بحرف یاد نہیں رکھتے۔ اس کی کوڈنگ کا یہ طریقہ نہیں ہے۔

سیارہ زہرہ پر زندگی؟۔۔محمد شاہ زیب صدیقی 

آپ نے انگریزی زبان میں ایک لطیفہ سنا اور قہقہہ لگایا۔ آپ کے دوست نے ہنسنے کی وجہ پوچھی۔ آپ نے پلٹ کر اس کو یہی لطیفہ پنچابی میں سنا دیا اور وہ بھی ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا۔ یہ کیا تھا؟ کیسے ہوا؟ آپ اپنے نیورل خزانے سے اس کے ہر لفظ کا تجزیہ کر کے اس کا مطلب نہیں نکالتے۔ لطیفہ سننے پر ہم لطیفے کی روح کو سمجھتے ہیں۔ معنی گدگداتے ہیں (خواہ وہ لفظوں کا کھیل ہی ہو)۔ مزاح الفاظ میں نہیں۔ لفظوں کی ترتیب میں نہیں۔ انگریزی تھی یا پنجابی، اصل شے الفاظ نہیں بلکہ وہ تصورات ہیں جو یہ الفاظ اندرونی طور پر چھیڑتے ہیں۔ اگر انگریزی نامانوس ہوتی تو یہ الفاظ آپ کو ہنسا نہیں سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکتہ بہ نکتہ، حرف بحرف کے بجائے ہم نئے سٹیمولس کو کسی تناظر میں کوڈ کرتے ہیں۔ یہ فزیکل اور سوشل تصورات ہو سکتے ہیں۔ جو ہم سیکھتے ہیں، اس کا تعلق اس سے ہے کہ ہمیں پہلے کیا معلوم ہے۔ مثال کے طور پر دو لوگ منگولیا کی تاریخ کے اہم واقعات کی فہرست دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ان میں سے ایک منگولیا کے بارے میں اچھا علم رکھتا ہے تو اسے ان نئے واقعات کو اپنے نالج ماڈل کا حصہ بنانے میں مشکل نہیں ہو گی۔ جبکہ دوسرا، جسے منگولیا کو دنیا کے نقشے میں ڈھونڈنے میں بھی دشواری ہوتی ہے، اس کے پاس وہ سٹرکچر نہیں جس سے یہ نئی انفارمیشن چپک سکے۔
رفتار کی تہوں کا ماڈل تیز رفتار تہوں کے لئے فریم ورک بناتا ہے۔ پرانے تجربات بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ وہ آرکیٹکچر دیتے ہیں جس پر مزید تعمیر کی جا سکے۔ ہر نئی چیز کو اس سے پہلے آنے والی انفارمیشن کے فلٹر سے سمجھا جاتا ہے۔

ماہرینِ طبیعیات کو کیونکر تاریخ کامطالعہ کرنا چاہیے؟ میتھیو سٹینلے (ترجمہ: عاصم رضا)حصّہ اوّل

اب ہم واپس اس فلم کے سین کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ہاں، ہم سب ایسا مستقبل پسند کریں گے لیکن نہیں، ایسا کبھی بھی نہیں ہونے والا۔
رفتار کی تہوں کا یہ ماڈل مستقبل کے کئی قسم کے خواب چکناچور کر دیتا ہے۔ وہ کیوں؟ کیونکہ میموری اپنے سے پہلے آنے والی ہر چیز کا فنکشن ہے۔ کسی ایک فرد کے لئے ہیلی کاپٹر اڑانے کے فن کا کوڈ موٹرسائیکل سواری کی مماثلت سے لنک ہوا ہو۔ ایک اور شخص جس نے گھوڑوں کے ساتھ وقت گزارا ہو، وہ پائلٹ کا نالج گھوڑوں کو کنٹرول کرنے کی موٹر میموری پر بناتا ہے۔ ایک تیسرے کے لئے اس کا مطلب بچپن میں کھیلی جانے ویڈیو گیم کے ساتھ ہے۔ ہر شخص کے لئے ٹاسک کو سمجھنے اور کوڈ کرنے کا طریقہ مختلف ہے۔ اس لئے یہ ناممکن ہے کہ ہدایات کا کوئی سٹینڈرڈ سیٹ ہے جس کو دماغ میں اپ لوڈ کیا جا سکے۔
کسی کمپیوٹر کے لئے مشین اڑانے کی ہدایات کسی ایک فائل میں ہو سکتی ہیں جو کئی کمپیوٹرز استعمال کر سکیں۔ لیکن بائیولوجیکل دماغ کے لئے نہیں۔ ہر چیز زندگی میں اپنے سے پہلے آنے والی چیزوں سے منسلک ہے۔ ابتدائی تجربے میموری کا اندرونی شہر تعمیر کرتے ہیں۔ نئے مکین نے اپنی جگہ پر اسی شہر میں منفرد طریقے سے فِٹ ہونا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے ہم سیکھنے کے عمل کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟ اچھی خبر یہ کہ اچھی بنیاد کے ساتھ علم کی عمارت کو وسیع سے وسیع تر کرنا آسان ہوتا جاتا ہے۔ کیونکہ ہر نئی انفارمیشن کو چپکنے کے لئے زیادہ سے زیادہ جگہیں ملتی جاتی ہیں۔ لیکن بری خبر یہ کہ اس کے علاوہ سیکھنے کا کوئی بھی شارٹ کٹ نہیں ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply