جنات یا نفسیاتی عارضہ (ہسٹریا)۔۔عارف خٹک

ذہنی اذیت، ناہموار معاشرتی رویے، غیر محفوظ حال، دماغی الجھنیں اور اتھاہ مایوسیاں دماغ کے مخصوص حصوں کو متاثر کرکے انسان کو خود سے غافل کردیتی ہیں۔ انسان کے شعور پر اس کا لاشعور حاوی ہوکر اُسے  عجیب و غریب حرکتیں اور مخیرالعقول باتیں کرنے پر مجبور کرکے ہم سب کو حیرت زدہ کردیتا ہے اور   کوئی علمی معلومات نہ ہونے کے سبب، ہم ان کا الزام جنات پر لگا دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب آپ پوچھیں گے کہ گوجرہ کی صائمہ فر فر انگریزی میں کیسے بات کرسکتی ہیں جنہوں نے  سکول کی شکل تک نہیں دیکھی۔ ہمارا لاشعور ہمارا میموری کارڈ ہے جس میں پیدائش سے لیکر ابھی تک ہر ڈیٹا محفوظ ہوتا ہے۔ اس کا ڈیٹا اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ ہوا میں اڑتے ذرات تک کو گن کر  سٹور کردیتا ہے سو گوجرہ کی صائمہ نے اتفاقاً  ٹی وی یا ریڈیو پر کبھی نہ کبھی انگریزی سن رکھی ہو گی، سو شعور کی غیر موجودگی میں لاشعور کا میموری کارڈ ایکٹو ہوکر حالات کے حساب سے معلومات سامنے رکھ دیتا ہے۔ سو حیرانی کی بات نہیں ہے۔
سیکس ہمارا بنیادی حق ہے اور جسمانی ضرورت بھی ہے۔ سیکس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جنسی خواہشات کو زبردستی دبانے سے زبردست قسم کے نفسیاتی مسائل اور پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔
انسان کا رجحان تشدد کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ یا وہ دوہری شخصیت کا شکار ہوکر معاشرے کیلئے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ ہمارے ہاں سیکس کے حوالے سے غلط تصورات نے انتہائی  غلط رویوں کو جنم دیا ہے۔
اس پر تفصیلی مضمون لکھونگا۔ مگر ایک عام مسئلہ جو شاید ہمارے آس پاس ہورہا ہے وہ خواتین کے اندر بڑھتی  ہوئی  ہسٹریا کی بیماری ہے۔ جس کی کافی   وجوہات ہوتی ہیں۔ خواتین مرد کے مقابلے میں بنیادی طور  پر کمزور اعصاب کی مالک ہوتی  ہیں۔ خواتین کو مرد کی نسبت زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب وہ توجہ سے محروم ہوجاتی ہیں یا مختلف انسانی رویوں سے متاثر ہونا شروع کردیتی ہیں تو اس کے دماغ میں مختلف کیمیکلز ری ایکشنز شروع ہوجاتے ہیں۔ جس کا اختتام ہسٹریا جیسی  بیماریوں پر ہوتا ہے۔ سو میں  سے ساٹھ فی صد نوجوان خواتین جو ہسٹریا کا شکار ہوتیں ہیں،اگر ہم سروے کرکے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کی عدم توجہ، یا جنسی ناآسودگی جیسے عوامل بالآخر ان کے  لاشعور کو ان پر حاوی کردیتا ہے کیونکہ وہ شدت سے فرار حاصل کرنا چاہتی ہیں پھر وہ مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوکر غیر فطری حرکتیں کرنے پر مجبور ہوجاتی  ہیں۔ اگر آپ کے آس پاس کوئی ایسی نوجوان خاتون ہے اور غیر شادی شدہ ہے تو بجائے عاملوں یا مزاروں پر  لیکر جانے کے ، ان کی شادیاں کروا دیں، اگر وہ خاتون شادی شدہ اور بچوں کی ماں ہے تو اس کے شوہر کا فرض ہے کہ ان کی کاؤنسلنگ کرے ان کو خوداعتمادی دے اور اپنے رویوں پر نظرثانی کرے کیونکہ جو کام ہم مفت میں کرسکتے ہیں اس کے لئے مہنگے نفسیاتی معالجین اور خودساختہ عاملوں کے پاس جانے کی قطعا ًًکوئی ضرورت نہیں ہے۔ سو میں سے دس ایسے کیسز ہوتے ہیں جن میں ڈاکٹر ہماری کاؤنسلنگ کرسکتا ہے نہ کہ ہمارے مریض کی۔

Facebook Comments