میاں خدا کی بے شمار نعمتیں۔۔حسان عالمگیر عباسی

آپ کو خدا نے آنکھیں اور بینائی عطا کی ہے۔ اتنی بڑی نعمت کا شکر بجا لانے کی بجائے کسی حسینہ کے نینوں پہ کیوں رشک کرتے ہیں جن میں خدائی خوبروئ نظر آتی ہے؟ یقیناً اندھے سے واسطہ نہیں پڑا!

آپ کو اللہ نے کان اور سنائی عطا کی ہے۔ اتنے بڑے تحفے کو قبول کرنے کی بجائے کسی حور کے گوش پہ کیوں نازاں ہیں جو نازک موتی بالی سے لیس ہے؟ شاید آپ نے کنکٹا نہیں دریافت کیا!

آپ کو مالک نے ہاتھ اور پکڑائی عطا کی ہے۔ اتنے  بڑے دین کو اپنانے کی بجائے کسی پری کے دست سے کیسا گھمنڈ جو کنگن لچھا چوڑی چھلے کی جھنکار رکھتا ہے؟ اتفاقاً آپ نے ‘بے دست’ پہ نگہ نہیں ڈالی!

آپ کو خالق نے پاؤں اور پیش قدمی عطا کی ہے۔ اتنی بڑی عنایت کو تسلیم کرنے کی بجائے کسی سندر ی کے پیر پہ کیسا فخر جو موزے پائل صندل کی چھنکار دیتا ہے؟ غالباً آپ نے لنگڑا نہیں دیکھا!

آپ کو خالق نے ناک اور ‘قوت شامہ’ عطا کی ہے۔ اتنی بڑی بخشش پہ رضامندی کی بجائے کسی تڑنگی کے لمبے انف پہ کیسا اترانا جو کوکے نتھے سے نتھی ہو؟ شاید آپ نے نکٹا نہیں پایا!

آپ کو رازق نے گلے گردن سے نوازا۔ اتنی کرم نوازی پہ شکر کی بجائے کسی نلی سے کیسی جلن جس پہ ہار کا پہناوا ہو؟ از روئے امکان آپ نے گردن کی کٹائی نہیں دیکھی!

آپ کو حاکم نے زبان اور بولی دی۔ اتنی خیر پہ ممنونیت کی بجائے کسی مقرر خطیب سے کیسا حسد جو اسلوبِ بیان رکھتا ہو؟ از روئے گماں آپ کا گونگے سے پالا نہیں پڑا!

جو آپ کے نزدیک قابل رشک ہیں ان کی محرومیوں سے آپ کا واسطہ پڑنے لگے تو خدا سے آپ اسی کا مطالبہ کریں جو رب کریم اپنی علم و حکمت کے تحت دیتا ہے۔ خدا کے خزانے خالی نہیں ہیں لیکن وہ حکمت والا ہے۔ آپ ان نعمتوں کا شمار کریں جو دی گئی ہیں۔ آپ کی آنکھ دنیا و مافیہا سے قیمتی ہے۔ آپ کا پاؤں ہے تو چل رہے ہیں۔ ہاتھ ہے تو استعمال میں لا رہے ہیں۔ سکون ہے تو دولت کس کام کی؟ دولت مند تو سکون کی تلاش میں ہے۔ آپ شکر کریں کیونکہ ‘لئن شکرتم لازیدنکم۔’ ہر قدم پہ شکر بنتا ہے۔ اس کی نعمتوں کا کوئی شمار نہیں۔ قال اللہ فی الکلام:

Advertisements
julia rana solicitors london

اور اگر تم خدا کی نعمتوں کا حساب کرو تو شمار نہ کر پاؤ گے!

Facebook Comments