پلٹ، تیرا دھیان کدھر ہے؟/عمران حیدر تھہیم

یہ دُنیا زمان و مکان کی قید میں ہے جہاں ہر مادی شئے اور ہر ذی رُوح اپنے اپنے دائرے میں سفرِ مُستقیم پر گامزن ہے۔
کسی نے 22 سال کی عمر میں گریجویشن کی لیکن اچھی ملازمت حاصل کرنے سے پہلے 5 سال انتظار کیا۔ کسی نے 24 سال کی عمر میں شادی کی اور 29 میں طلاق یافتہ ہو گیا لیکن کوئی 35 سال کی عمر میں بیاہا گیا مگر مرتے دَم تک رشتہء ازدواج میں منسلک رہا۔کوئی 25 سال کی عمر میں کمپنی کا CEO بن گیا اور 50 سال کی عمر میں مر گیا۔ جبکہ دُوسرا 50 سال کی عُمر میں CEO بنا لیکن 90 سال تک زندہ رہا۔کوئی ابھی تک کنوارا ہے، جب کہ اُس کے اسکول فیلوز میں سے کوئی دادا بن گیا ہے۔
اوباما 55 سال کی عمر میں دوبار امریکہ کا صدر بن کر ریٹائر بھی ہوگیا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے 70 سال کی عمر میں شروعات کیں۔

اِس دُنیا میں ہر کوئی اپنے اپنے ٹائم زون کی بُنیاد پر کام کر رہا ہے۔ آپ کے آس پاس کے لوگوں میں سے کچھ آپ سے آگے اور کچھ آپ کے پیچھے لگ سکتے ہیں۔ لیکن ہر کوئی اپنی اپنی دوڑ اپنے اپنے وقت میں دوڑ رہا ہے۔

کسی سے بھی حسد نہ کریں اور اپنے حِصّے کا کام کریں۔ فطرت کی پروگرامنگ کے مطابق ہی سامنے والا اپنے ٹائم زون میں ہے اور آپ اپنے ٹائم زون میں۔

صبر و تحمّل سے کام لیں آپ نے دیر نہیں کی اور نہ ہی آپ جلدی آن پہنچے ہیں۔ آپ بہت وقت پر ہیں، بلکہ عین وقت پر ہیں۔ اِس سے بڑا مُعجزہ کیا ہوگا کہ آپ بَیک وقت ماضی میں بھی جھانکنے کی صلاحیّت رکھتے ہیں اور مُستقبل پر مُکمّل نظر رکھنا بھی آپ کے اپنے شعور کی دسترس میں ہے۔

یاد رکھیں شعورِ ذات اوراعتمادِ ذات کو قابو میں رکھ کر اِس عالمِ ہست سے خُود کو کامیابی سے نکال کر عالمِ برزخ سے ہوتے ہوئے عالمِ محشر میں پہنچنا ہی آپ کی اصل منزل ہے۔ جیسا کہ اُردو نظم کے قادرالکلام شاعر مجید امجد کا ایک شعر ہے۔۔۔

اَبَد، اِک موڑ تیرے راستے کا
تُو سَیلِ شوق ہے، مَت تَھم مُسافر!

اِسی موضوع پر راقم الحروف کی طبع آزمائی بھی مُلاحظہ ہو۔۔۔

مَیں پھر بھی قُلزمِ برزخ پہ آن پہنچا ہوں
گو، درمیان میں دشتِ بدن بھی پڑتا تھا
ہماری آنکھ کے جذبے بہت ہی گہرے تھے
تمہارے ہاتھ کی مہندی کا رنگ پِھیکا تھا

لہٰذا فطرت کے اِس مَربُوط نظام کی لڑی میں خُود کو پِروئے رکھیے۔ محتاط لیکن غیر محسوس طریقے سے متحرّک رہیے۔ آپ سے آپ کے حِصّے کا کام لیے بغیر قدرت نہ آپ کا انخلاء چاہتی ہے اور نہ ہی آپ سے کام لیے بِنا آپ کو دُنیا سے مِنہا کرے گی۔ بس اپنی ڈیوٹی نبھائیے اور پھر یہاں سے چلتے بنیے۔ یہی ازلی اور ابدی نظامِ فطرت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گَری کا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply