جماعت اسلامی اور کامیابی۔۔حسان عالمگیر عباسی

ٹائم مشین کے بارے میں سنا ہی ہوگا۔ فرض کریں کہ منصورہ سے چند قدموں پہ کھڑی قدیم عمارت کی منزل نمبر چھ سے یہ آلہ ہاتھ لگ جاتا ہے۔ مجلس شوریٰ بیٹھتی ہے اور طے پاتا ہے کہ فلاں ابن فلاں کو بلایا جائے جو جماعت اسلامی کو آنے والے چند برسوں میں ایوان میں بھاری اکثریت کے ساتھ دیکھنے کا شوقین ہے۔ چونکہ جلد بازی اس کی رگ رگ میں تھی لہذا انگ انگ تیزی سے ہلاتا ہوا امیر صاحب کے دفتر پہنچ جاتا ہے۔

امیر صاحب سارا قصہ سناتے ہیں اور ذمہ سونپتے ہیں کہ ٹائم مشین کا استعمال کرتے ہوئے ماضی کے جھروکوں میں جانا ہے اور کامیابیوں کے طویل سلسلوں کا بغور مطالعہ کرنا ہے تاکہ اندازہ ہو پائے کہ ماضی میں کیا کچھ پا لیا گیا ہے تاکہ چند برسوں میں ایوانوں میں جماعت کے ہونے کو کامیابی کی ضمانت سمجھنے والا کیڑا اپنی موت آپ مر جائے۔

ٹائم مشین اس کو امانتاً سپرد کی جاتی ہے۔ وہ بخوشی اپنے گھر پہنچتا ہے اور بیوی کو اس اہم اور مقدس فریضے کی ادائیگی کا بتلاتا ہے جسے اسے چند گھنٹوں بعد نبھانے چلنا ہے۔ اس ٹائم مشین کی ایک خاصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس پہ سفر کرنے کی صورت میں مستقبل بھی باآسانی دیکھا جا سکتا ہے یعنی 2020 میں بیٹھا ہوا کارکن 2024 بلکہ غالباً 2021 میں ہونے والے الیکشنز کے نتائج دیکھ کر 2020 میں بیٹھے ہوئے کارکنان کو آگاہ کر سکتا ہے۔ گو کہ اس کو ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے اور کامیابیوں کا جائزہ لینے کا ذمہ سونپا گیا تھا لیکن سرکشی، حکم عدولی اور امیر کی نافرمانی کی عادت سے مجبور یہ شخص ماضی میں جانے کی بجائے مستقبل کی طرف رخت سفر باندھ لیتا ہے۔

اس ٹائم مشین کی خاصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ ماضی کا سفر مستقبل کے مقابلے میں جلدی طے کر لیتا ہے۔ امیر صاحب گمان کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ ‘کارکن’ کامیابیوں سے مطمئن ہو کر دنوں کی بجائے گھنٹوں میں ہی ماضی کے جھروکوں سے واپس پہنچ جائے گا لیکن نافرمان شخص کی مستقبل میں دلچسپی ہونے کی وجہ سے کافی دیر تک نہ پہنچنے پہ امیر صاحب کو اپنا کام جاری و ساری رکھنے کا سوجھتا ہے۔

وہ اس کی نافرمانی کو لے کے اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے ‘کام، کام اور بس کام’ کا سبق سناتے ہوئے کارکنان کو ‘سبحانک اللھم و بحمدک ونشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک ونتوب الیک’ کے ساتھ رخصت کر دیتے ہیں۔ اگلے دن کارکنان منصورہ کے آڈیٹوریم کے باہر دھرنا دینے پہنچ جاتے ہیں۔ پہلے کی نسبت تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے چونکہ پورے پاکستان کی مقامی جماعتیں اس کارکن کے بارے میں سن کر حیرانی کے باعث وہاں پہنچنے لگتی ہیں۔ سب کو اشتیاق ہوتا ہے کہ ماضی میں طویل کامیابیوں کی داستان اس ‘کارکن’ سے وہ خود سنیں۔

ہفتے عشرے گزر جاتے ہیں لیکن وہ کارکن اور ٹائم مشین ‘وکان من الغائبین’ کی عملی تصویر بن جاتا ہے۔ دن بدن تعداد میں مزید اضافہ ہونے لگتا ہے۔ امیر صاحب شوری کا اجلاس بلاتے ہیں اور طے پاتا ہے کہ شوری میں موجود سب سے بزرگ اور قرون اولی سے کوئی بندہ اس ذمہ داری کو اٹھائے اور کارکنان کو ماضی کی کامیابوں کے بارے آگاہ کرے۔ ایک بزرگ کو ذمہ داری دی جاتی ہے۔ اگلے روز بعد از نمازِ فجر سب کارکنان کو ‘ہال’ میں ناشتے کے لیے بلایا جاتا ہے۔ ناشتے کے بعد جامع مسجد کے باہر ‘لان’ میں سب لوگ جمع ہوتے ہیں۔ یہ بزرگ بہت پہنچی ہوئی شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور اندر ہی اندر فیصلہ کرتے ہیں کہ کچھ ایسا بتلایا جائے گا جو ‘جوامع الکلم’ ہو گا یعنی کم الفاظ میں اطمینان بخش گفت و شنید ہی ان کا واحد سہارا تھی۔

بات کا آغاز انھوں نے اس آیت سے کیا کہ ‘فاستقم کما امرت’ یعنی جو حکم دیا جائے اس میں ڈٹ جانا ہی مومن کا مقصود ہونا چاہیے اور کہتے ہیں اگر تو کارکنان میں پہاڑ سے بلند استقامت پائی جاتی ہے تو ماضی و مستقبل ٹٹولنا فضول ہے کیونکہ اصل کامیابی اس آیت کی ‘حال’ میں عملداری پہ منحصر ہے۔

اطمینان میں مزید پختگی کے خاطر وہ کہتے ہیں کہ زمین اور بندے اللہ تعالیٰ کے ہیں لہذا نظام بھی اللہ ہی کا ہونا چاہیے اور پھر کارکنان سے سوال کرتے ہیں کہ سرزمین پاکستان میں وہ کونسی جماعت ہے جو عملاً اقامت دین کی کاوش اور حقیقتاً رضائے الٰہی کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ یکبار ملی جلی آواز آتی ہے کہ ‘جماعت اسلامی۔’ بزرگ رکن شوریٰ کہتے ہیں کہ اگر واقعی ایسا سمجھتے ہیں اور عملاً مصروف عمل ہیں تو اس سے بڑی کامیابی نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں۔ اس کے ساتھ ہی آیت پڑھتے ہیں کہ ‘لست علیھم بمصیطر۔’ پڑھے لکھے کارکنان سمجھ جاتے ہیں کہ وہ ٹھیکے دار نہیں ہیں بلکہ ان کا کام محنت ہے۔ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ مکہ کی فتح کے وہ ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ غزوہ بدر و احد و حنین میں استقامت کے حوالے سے خدا کو جوابدہ ہیں۔

ہشاش بشاش مطمئن اور ایک نئی روح کے ساتھ کام کی لگن لیے کارکنان عملی میدان میں قدم رکھنے کا ارادہ باندھتے ہوئے اپنا بستر بوریا اٹھانے لگتے ہیں۔ بزرگ مقرر وہاں موجود امراء و قیمین اور ذمہ داران کی خصوصاً اور عام کارکنان کی عمومی توجہ حاصل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دراصل کارکنان و ارکان کو موٹیویشن کی ضرورت ہے اور انھیں ‘فان الذکری تنفع المومنین’ کی رو سے یاد دلانا قیادت کی ذمہ داری و فرض ہے۔ جب تک ان کو موٹیویشن ملتی رہے وہ کام کرتے رہتے ہیں اور اگر کارکنان سستی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو ذمہ داران کا بھی قصور ہے۔

ان چیدہ چیدہ ضروری باتوں کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے جماعت کی خصوصیات یعنی منتخب حضرات کا کرپشن فری ہونا، اجلا کردار، موروثییت و فرقہ واریت سے پاک اجتماعیت، شارٹ کٹس کی بجائے ‘ان اللہ مع الصابرین’ کو مقصد زندگی بنانا، داعیانہ مزاج، طاغوت کے سامنے کوہ ہمالیہ، یزیدیت کے سامنے ڈھٹائی، متقی و پرہیز گار حضرات کی طویل فہرست، آئین کا تحفہ، کشمیر کی ضمانت، سپر پاورز سے ٹکر لینا، قیادت کی فراہمی، پڑوسی ممالک کو بچانے کے لیے نوجوان نسل کی قربانیاں، 71 کی داستان، اب تک پھانسیاں، حقیقی و عملی اپوزیشن، کسانوں کی بات، طلباء کی جمعیت، خواتین کی جماعت، ڈاکٹرز اور پڑھے لکھوں کی کھیپ، باہمت کارکنان اور دیگر حکومتی و اپوزیشن جماعتوں میں چلڈرن آف مودودی رح کی موجودگی، اقامت دین کی کوشش، الخدمت فاؤنڈیشن، اور دیگر کامیابیوں کے بارے بتاتے ہوئے اطمینان دلایا۔ سب کی زبان پہ نعرہ تکبیر کی صدائیں تھیں۔

سب لوگ ‘دیکھنا تم ایک دن انقلاب آئے گا’ کے نعرے لگا رہے تھے۔ ایک شخص نے کہا کہ ‘وقل جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔’ بزرگ نے سٹیج پہ بلایا اور اس کا ماتھا چوما۔ ان آیات کے ساتھ اجازت مانگی کہ ‘وامرھم شوری بینھم’ اور یہ کہ ‘إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَن نَّقُولَ لَهُ کُن فَیکُونُ/ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَیْئًا أَنْ یَقُولَ لَهُ کُنْ فَیَکُونُ’ یعنی وہ جب ارادہ کرتا ہے تو کامیابی ملتی ہے اور یہ کہ جماعت اسلامی کا ہر قدم اقامت دین کی کوشش ہے، محض انتخابات کا جیتنا ہی انقلاب نہیں کہلاتا۔ وہ جب کن کہے گا تو ہوگا اور ہم نے صرف کوشش کرنی ہے کیونکہ ہم سے وہی پوچھا جانا ہے جس کے ہم مکلف ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے ‘لا یکلف اللہ نفسا آلا وسعھا’ اور ‘لا یکلف اللہ نفسا آلا ما اتاھا۔’

سب لوگ رفتہ رفتہ رخصت ہونے لگے۔ الخدمت والے خدمت کرنے لگے۔ جمعیت والے حقوق طلبا مارچ کی قیادت کرنے لگے۔ کسان بورڈ والے کھیتوں میں چلتے بنے اور کسانوں سے مشاورت کرنے لگے۔ طالبات کا ذمہ جمعیت طالبات نے اٹھایا۔ جے آئی یوتھ نے نوجوانوں کا بیڑا اٹھایا۔ ہر طبقہ اپنی اپنی حیثیت و بساط کے مطابق رضائے ربانی کے لیے عملاً اقامت دین کے لیے کوشاں ہو گیا۔

چند مہینوں کے بعد وہ کارکن بھی نمودار ہوا۔ ٹائم مشین کی حالت دگر گوں ہو چلی تھی۔ امیر صاحب نے ٹھیک ٹھاک سرزنش فرمائی۔ اس کو آئندہ تین سالوں کے لیے تربیت کے لیے آنے والے تمام کارکنان کی خوراک کا بندوبست کرنے کی سزا سنائی گئی۔ سب نے اتفاق کیا۔ چند سالوں بعد اس نے خود ہی بتا دیا تھا کہ مربین اور امراء نے اس سزا کے کاٹنے میں بھرپور ساتھ دیا تھا اور اس پہ بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ اس نے یہ بات امیر صاحب تک پہنچنے کا سختی سے منع کیا تھا۔ اسے نہیں معلوم لیکن امیر صاحب جانتے تھے کہ صدیقین و رفقاء نے اس کی ہر طرح سے امداد کی تھی۔ امیر صاحب نے بغیر بتائے خود بھی اس کی غیبی مدد امداد کی تھی جس کا صرف اللہ اور ان کے فرشتوں کو علم تھا۔

اس کارکن کو امیر صاحب نے شوری کے اجلاس میں خصوصی دعوت دی۔ وہ آیا اور سفر کی داستان سنائی۔ اس نے ماضی میں نہ جانے کی معذرت کر لی اور اسے معاف بھی کر دیا گیا۔ مستقبل کے حوالے سے اس نے یہ بتایا کہ وہ چند سالوں سے آگے نہیں جا پایا کیونکہ مستقبل قریب ہی میں ‘موت’ نے کاروائی جو کر ڈالی تھی۔ شوری ہنسنے لگی تو امیر صاحب نے یہ کہہ کر سرزنش کی کہ ‘اذا اصابتھم مصیبة قالوا ان للہ و ان الیہ راجعون۔’ امیر صاحب نے یہ بھی کہا کہ ٹائم مشین سے مستقبل میں جانے کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ ‘کل نفس ذائقہ الموت’ والی حقیقت ذہنوں میں دوبارہ نقش ہو گئی۔

سب نے فیصلہ کیا کہ چونکہ اقامت دین کی کوشش محض ایوانوں میں جگہ بنانا نہیں ہے بلکہ اصل کام بھٹی میں اینٹوں کا پکانا ہے تاکہ امام مہدی کی فوج میں بھرتی ہونے والے صلاحیت و صالحیت دونوں ہی میں اپنی مثال آپ ہوں۔ کارکن نے بتایا کہ مودودی رح نے ٹھیک کہا تھا کہ انھیں طلوع اسلام کا اسی طرح یقین تھا جیسے روز سورج طلوع ہوتا ہے۔

اس نے بتایا کہ اسے اسلامی انقلاب کے سورج کے آثار نظر آئے ہیں۔ اس نے بتایا کہ آنے والا دور پر فتن ہے۔ اس نے مستقبل قریب میں ہونے والی چند کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ دراصل جماعت کے ماضی کا پیش خیمہ ہے۔ اگر جماعت ‘اصل’ کے ساتھ متصل رہی تو کامیاب مستقبل اس کا بے چینی سے منتظر ہے۔ اگر جماعت ڈٹی رہی اور شارٹ کٹس نہ لیے تو مستقبل نوجوانوں کا ہے۔

اس نے یہ بھی بتایا کہ مستقبل قریب میں انقلاب لانے والوں میں وہ سب شامل ہیں جن میں کوئی بھی خیر کسی بھی شکل میں اب تک باقی ہے۔ اس نے سفر کے تجربات کی روشنی میں تجویز پیش کی کہ دینی و غیر دینی جماعتوں کی تفریق مٹا کر تمام مسلمانوں کو ساتھ لیا جانا ضروری ہے کیونکہ ایمان محض ڈاڑھی والوں کی میراث نہیں ہے بلکہ منڈھوانے والوں میں بھی ایمان ممکنات میں سے ہے۔

اس نے یہ بھی بتایا کہ ایمان اندر و باہر کی ملی جلی سجاوٹ و پاکیزگی کا نام ہے۔ ایک باریش گناہ گار ہے تو خیر کا امکان بھی اسی سے ہے اور ایک بے ریش کے گناہ زیادہ ہونے کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ اس میں خیر نہیں ہے۔ اس نے یکدم رکنیت کا حلف لیا اور امیر صاحب کے سامنے خدا کو حاضر و ناظر جان کر عہد لیا کہ اس کے چند برس اب صرف اقامت دین کی کوشش کے لیے صرف ہوں گے۔ چند برس بعد وہ فوت ہو گیا۔ اس کا جنازہ منصورہ مسجد میں پڑھایا گیا۔ اس کے چند برسوں نے اس کی آخرت سنوار دی اور اس نے جو کھیپ تیار کی تھی وہ اب اگلی کھیپ کی تیاری میں مصروف عمل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

حسان عالمگیر عباسی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply