عہد نبی ﷺ میں مکہ کی تاریخی مساجد ( حصہ دوئم)۔۔منصور ندیم

مسجد الرایہ :

مکہ کی قدیم مساجد میں مسجد الرایہ مسجد بھی ان مساجد میں سے ایک ہے جس سے رسول اللہ کی زندگی کا ایک اہم واقعہ جڑا ہوا ہے۔ یہ مسجد بازار “سوق المعلاة” میں مکہ کے بالائی علاقے میں واقع ہے۔ مسجد الرایہ کے محل وقوع کے سلسلے میں تاریخ میں اختلاف ملتا ہے۔ بعض لوگ شارع عام پر واقع مسجد کو مسجد الرایہ کہتے ہیں۔ یہ یہاں موجود المدرسہ السعودیہ سے پہلے المعلاة جانے والے راستے کے دائیں جانب پڑتی ہے۔ اس کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہی مسجد الرایہ ہے، یہ چونکہ مشہور عوامی رائے ہے، جبکہ سعودی مورخین کا کہنا ہے کہ حقیقت سے اسکا کوئی تعلق نہیں۔ اصلا مسجد الرایہ وہ مسجد ہے جو جبیر بن مطعم بن عدی بن نوفل کے کنویں کے قریب واقع ہے۔ قدیم زمانے میں لوگ اس کنویں کے آگے رہائش سے گریز کرتے تھے۔ اسکے بعد والا حصہ غیر آباد تھا، اور یہ کنواں الجودریہ میں واقع ہے۔ یہ مسجد تنگ گلی کے درمیان ہے۔

یہ مسجد اس جگہ تعمیر کی گئی ہے جہاں رسول اللہ نے فتح مکہ کے دن اپنا پرچم بلند کیا تھا۔ علامہ ازرقی ؒ کے مطابق مسجد الرایہ مکہ مکرمہ کے بالائی حصے میں واقع ہے۔ روایت ہے کہ اس جگہ فتح مکہ سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی تھی، جب قریش اور مسلمانوں نے صلح حدیبیہ کی تھی۔ مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ قبیلہ تھا اور قریش صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تھے۔ دراصل قبیلہ خزاعہ کے لوگ مسلمان ہوگئے تھے اور بنو بکر نے جو قریش کے حلیف تھے ، بنو خزاعہ کے 20 افراد قتل کر دیئے تھے۔ عمر بن سالم الخزاعی مدینہ منورہ پہنچے انہوں نے بنو بکر کی جانب سے عہد شکنی کی تفصیلات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائیں۔ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فیصلہ کیا کہ عہد شکنی کا جواب فتح مکہ سے دیا جائیگا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 10 ہزار افراد پر مشتمل لشکر جرار تیار کیا اور مکہ کی طرف یلغار کا اعلان کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کو کئی دستوں میں تقسیم کردیا تھا۔ ہر ایک کو حکم تھا کہ وہ مختلف جہتوں سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ جب تک انہیں مجبور نہ کیا جائے لڑائی نہ کریں۔ مسلمانوں کا لشکر کسی جنگ کے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہوا تھا، رسول کریم خانہ کعبہ پہنچے ۔ وہاں آپ نے 360 بتوں کو توڑا۔ اس موقع پر مکہ والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، اور اسی جگہ مسجد الرایہ قائم کی گئی۔

علامہ الازرقی کہتے ہیں کہ الرایہ مسجد عبداللہ بن عبید اللہ بن العباس بن محمد بن علی بن عبداللہ بن العباسی نے تعمیر کروائی۔ اس کے پاس ایک حوض بھی بنوایا تھا جس سے لوگ پیاس بجھایا کرتے تھے۔ یہ مسجد تیسری صدی ہجری میں تعمیر ہوئی تھی۔ مسجد کی تعمیر اور اصلاح و مرمت ہوتی رہی۔ اسکا ثبوت اس پتھر سے ملتا ہے جس پر کوفی رسم الخط میں تحریر ہے کہ یہ مسجد المعتصم العباسی نے 640 ہجری کے ماہ شعبان میں تعمیر کرائی۔ امیر قطلبک الحسامی نے 801 ہجری میں اس کی تعمیر نو کروائی تھی جو نویں صدی ہجری کے آخر تک قائم رہی، اور جو مسجد الرایہ الجودریہ میں واقع تھی پھر اسے منہدم کردیا گیا اور حرم سے منیٰ جانے والے راستے پر دائیں جانب شعب عامر میں تعمیر کی گئی۔ موجودہ عمارت 1394ہجری کی ہے۔

1361ہجری کے اوائل میں بانی سعودی عرب شاہ عبدالعزیز آل سعودؒ نے اس مسجد کی نئی عمارت بنوائی تھی۔ مشرقی جانب سے اسے کشادہ کیا گیا تھا۔ اس کی بنیادیں کھودتے و قت دو پتھر ملے تھے جن پر مرتسم تحریر سے ثابت ہوا کہ یہی مسجد الرایہ ہے۔ ان میں سے ایک تو 898 ہجری کی لوح تھی اور دوسری 1000 ہجری کی لوح تھی۔ یہ دونوں پتھر موجودہ مسجد الرایہ میں تاریخی ثبوت کے طور پر چسپاں کردیئے گئے ہیں۔ آگے چل کر 1404ہجری کے ماہ شعبان کے اوائل میں آل سعود کے سعودی حکمران شاہ فہد بن عبدالعزیز کے عہد میں اسے ازسر نو تعمیر کیا گیا تھا، اب اس پر مسجد الرایہ کا پتھر نصب ہے۔ یہ بھی ایک تاریخی نسبت رکھنے والی مسجد ہے۔

مسجد الجعرانہ :

مکہ مکرمہ کے مقدس مقامات میں ایک اور تاریخی مسجد “مسجد الجِعرانہ” بھی ہے۔ مکہ مکرمہ کے شمال مشرق میں پچیس کلومیٹر کی مسافت پر یہ مسجد حرم مکی کا حصہ اور مشرق کی سمت ‘میقات’ میں سے ایک اہم جگہ ہے جہاں حجاج و معتمرین احرام باندھ کر مسجد حرام عمرہ و حج ادا کرنے جاتے ہیں۔الجعرانہ، دراصل مکہ معظمہ کے نواح میں ایک قصبے کا نام ہے۔ اسی قصبے کی نسبت سے یہاں تعمیر ہونے والی مسجد کو الجعرانہ سے موسوم کیا گیا تھا، لیکن مسجد کی تعمیر کی اصل نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہاں آمد اور اس مقام پر قیام ہی ہے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین سے واپسی پر یہاں قیام فرمایا، اور ھوازن قبیلے سے جنگ میں حاصل ہونے والا مال غنیمت بھی یہیں تقسیم کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے اسی مقام پر غسل فرمایا اور پھر تیسرے عمرہ کی ادائیگی کے لیے اپنے جانثار صحابہ کرام کے ہمراہ اسی مقام سے احرام باندھ کر بیت اللہ روانہ ہوئے۔ یہیں جعرانہ کنواں بھی واقع ہے۔ جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر گاڑھا تھا اس جگہ سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا تھا۔یہی پھر جعرانہ کنویں کے نام سے مشہور ہوا۔

مسجد الجعرانہ کے بارے میں تاریخ سے زیادہ تفصیلات نہیں ملتی، تاہم غالب امکان یہی ہے کہ دوسری صدی ہجری میں یہ مسجد پہلی مرتبہ تعمیر کی گئی کیونکہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں قیام کیا تب یہاں پانی کا ایک چشمہ تھا، جس کے پانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے وقت اور اس کے کئی سال بعد تک یہاں کوئی مسجد نہیں بنائی گئی۔ سنہ دو سو ہجری کو پہلی بار تعمیر ہونے والی جامع مسجد الجعرانہ کی ایک ہزار سال بعد تعمیر نو کی گئی۔ آل سعود کی حکومت کے قیام کے بعد اس مسجد کی دوبارہ تعمیر و مرمت کی گئی اور اسے جدید اور خوبصورت ڈیزائن میں تعمیر کیا گیا۔

اس وقت اس مسجد کا رقبہ ایک ہزار مربع میٹر پر پھیلا ہوا ہے، جس میں چھ سو نمازی با آسانی نماز باجماعت ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد کا سفید رنگ ‘میقات’ اور احرام کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ یہاں سے عازمین حج و عمرہ احرام باندھ کر بیت اللہ کے طواف کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ ویسے آج کل یہ علاقہ رات میں ایک بڑے بازار اور خصوصا قہوہ خانوں او رحقے کی دکانوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے، ہم سردیوں میں رات کے وقت یہاں گئے تھے اس وقت اس مسجد کے راستے پر قہوہ خانے اور حقے کی دکانیں کثیر تعداد میں کھلی ہوئی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply