چین پاک سفارتی تعلقات کے 70 سال۔۔زبیر بشیر

پاک چین دوستی کی داستان بھی شاہراہ ریشم کی طرح طویل ہے۔ دنوں ممالک  اس خطے کی قدیم تہذیب کو اپنے دامن میں سموئے ترقی کی راہ پر آگے بڑھ رہے ہیں۔عہد ِ حاضر میں یہ دوستی اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ دونوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے لئے کوئی اجنبیت محسوس نہیں کرتے ۔ چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ نے سن 2015 میں پاکستانی پارلیمنٹ سے اپنے خطاب کے دوران اپنے ان جذبات کو بیان کرتے ہوئے کہا “اگرچہ یہ پاکستان کا میرا پہلا دورہ ہے ، لیکن پاکستان میرے لئے اجنبی نہیں ہے۔ ایک قدیم چینی قول ہے “آپ سے پہلی ملاقات ہے ، لیکن ہم اجنبی نہیں ہیں۔” جب میں پاکستان پہنچا تو میں نے ایسا ہی محسوس کیا۔”

چین اور پاکستان کے عوام کے دل آپس میں باہم جڑے ہوئے ہیں۔ یہ محبت اور چاہت کے سچے جذبے    کی وجہ سے تھا کہ قیام پاکستان اور عوامی جمہوریہ چین کے قیام سے برسوں قبل مصور پاکستان، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنے کلام میں چین کے مشرق کے قائد کے طور پر ابھرنے کی پیش گوئی کی۔
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ہیں
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے ہیں

چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ نے اپنے خطاب میں علامہ اقبال کو ان الفاظ میں ہدیہ تبریک پیش کیا،” 1930 کی دہائی کے آغاز میں ، عظیم پاکستانی شاعر علامہ محمد اقبال نے ایک شعر کہا تھا کہ “گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ہیں، ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے ہیں” ،انہوں نے اس شعر سے قومی آزادی اور بیرونی ممالک کی مزاحمت کے خلاف اپنی جدوجہد میں چینی عوام کی تعریف اور حمایت کی۔ایک جیسے  تاریخی تجربات اور مشترکہ جدوجہد نے چین اور پاکستان کے عوام کو دل سے ایک دوسرے  سے  مربوط کیا ہے۔”

چین اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات کے 70 برسوں میں دنیا کے منظر نامے پر بہت سے اتار چڑھاؤ آئے ہیں،وقت گزرتا رہا، تاریخ کے اوراق پر نت نئی کہانیاں رقم ہوتی رہیں، زمانے کے انداز بدلتے رہے، اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ پاک چین دوستی ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد استعماری اور سرمایہ دارانہ قوتیں چین کی ترقی سے خائف تھیں، وہ جانتی تھیں کہ چین میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد بیداری کی وہ لہر پیدا ہو چکی ہے جو مشرق کی اس ابھرتی قوم کو اس  دنیا میں ممتاز بنا دے گی۔ لہذا چین کا راستہ روکنے کے لئے منفی حربے آزمائے جانے لگے۔ یہ سن 1965 کی بات ہے جب پاکستان کے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے بانگ دہل اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ انہوں نے چین کے بغیر نظام عالم کو کھوکھلا قرارد یا۔

پاکستانی  قائدین نے اپنی  کوششیں اس وقت تک ترک نہ کیں جب تک عوامی جمہوریہ چین کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں اس  کا حق نہ مل گیا۔ پاکستان سے چینی قائدین کی محبت کے والہانہ پن کا یہ عالم تھا کہ چیئرمین ماؤزے تنگ اپنی زندگی کے آخری ایام میں خرابی صحت کے باوجود   آخری غیر ملکی وفد سے ملے ،وہ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں آنے والا پاکستان کا سرکاری وفد تھا۔ چینی سرزمین نے ہمیشہ پاکستانیوں کو لازوال محبت دی ہے۔ محبت کی یہ بانہیں چینیوں کے لئے بھی پاکستان میں ہمیشہ کھلی رہی ہیں۔

یہ دوست ایک دوسرے کی ترقی کے لئے اپنی جانوں کی قربانی سے بھی دریغ نہیں ۔ دنیوب میں شاہراہ قراقرم کے شہیدوں کا قبرستان اس بات کی دلیل ہے کہ چین اور پاکستان کی ترقی سانجھی ہے۔
چین پاک دوستی ایک ایسی زندہ و جاوید حقیقت ہے جو رسمی معاہدوں اور اتحادوں سے بالا تر ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ میں پاکستان اور چین کے روابط بے مثال ہیں جو ایک تسلسل کے ساتھ ہم آہنگی اور مضبوط ساکھ کے حامل ہیں۔ دنوں ممالک اس نوعیت کے تعلقات کے رشتے میں منسلک ہیں جو دونوں ملکوں کے عوام کے دلوں تک پہنچتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ تعلقات مثبت انداز میں پر اوان چڑھ رہے ہیں اور اپنا فطری رنگ برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ سچے ، مخلص اور آہنی دوست کے طور چین اور پاکستان ہمیشہ ایک دوسرے کی ترقی و کامیابی پر خوش اور مسرور ہوتے ہیں۔

پاکستان اور چین دونوں ممالک میں جب نوجوانوں میں شعور آنکھیں کھول رہا ہوتا ہے تو انہیں چین پاک دوستی کی مثالیں سننے کو ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دوستی ہر آنے والی نسل میں پہلے سے زیادہ گہری ہوتی چلی جا رہی ہے۔

20 اپریل سن 2015 کو چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ کا دستخط شدہ ایک مضمون پاکستانی اخبارات کی زینت بنا جس میں وہ راقم طراز ہیں کہ ” جب میں جوان تھا ۔ میں اکثر پاکستان اور چین کی دوستی کے حوالے سے داستانیں سنا کرتا تھا ۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان نے چین کو دنیا کے ساتھ رابطے کے لئے فضائی راستے دئیے اور اقوام متحدہ میں چین کے مقام کی بحالی کے لئے اس کی بھرپور حمایت کی وغیرہ۔ انہوں نے اپنے دورہ پاکستان کے بارے میں کہا کہ مجھے یوں لگتا ہے کہ میں اپنے بھائی کے گھر آرہا ہوں۔”

پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو یا پاکستان میں کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوں، ان کے آپس میں کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں۔ وہ سب ایک بات پر متفق ہیں اور وہ پاک چین دوستی کی صداقت ہے۔

پاکستان کے مشکل ترین دنوں میں چین ایک آہنی دوست اور مضبوط سہارے کی طرح پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ چینی نے اقتصادی، سماجی، تعلیمی، صحت اور دفاعی ترقی کے شعبوں میں پاکستان کی بھر پور مدد کی ہے۔

عہد حاضر میں جب کورونا وائرس کی وبا نے سر اٹھانا شروع کیا اور چین کے شہر ووہان میں اس وبا نے اپنے پنجے گاڑے تو پاکستان نے اپنے تمام ہسپتالوں میں موجود انسداد وبا کا سامان چین روانہ کردیا۔ اس مشکل وقت میں سینٹ آف پاکستان نے انسداد وبا کی کوششوں کے حق میں قرار داد پیش کی گئی۔

پاکستان کی تمام  اعلیٰ شخصیات نے انسداد وبا میں صدر شی جن پھنگ کی ولولہ انگیز اور انتھک قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ۔پاکستان کے صدر جناب عارف علوی وہ پہلی غیر ملکی شخصیت تھے جو وبا کے دوران چین تشریف لائے اور چینی قوم کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

چین نے وبا پر قابو پانے کے بعد سب سے پہلے اپنے طبی عملے کو پاکستان بھیجا، طبی عملے کے ساتھ ساتھ پاکستان نے انسداد وبا کی کئی کھیپیں  پاکستان بھیجیں۔ چین نے جب ویکسین تیار کی تو پاکستان وہ پہلا ملک تھا جسے ویکسین بطور تحفہ دی گئی اور پاکستانی فوج وہ پہلی فوج تھی جسے چین نے ویکسین فراہم کی۔

دونوں ممالک کی دوستی نسلوں کی محنت اور آبیاری سے آج ایک ایسا تناور درخت بن چکی ہے جس کی شاخیں سی پیک کی صورت پورے پاکستان میں پھیل چکی ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب ان شاخوں پر خوشحالی کے پھل لگیں گے، جب ان شاخیں  ،ہماری نسلیں خوشحالی کے جھولے جھولیں گی۔ اس درخت کی چھاؤں خطے کے لوگ احساس تحفظ، احساس کامیابی اور احساس ترقی کے ساتھ امن و چین کی نیند سوئیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایفائے عہد دوستی اور باہمی اعتماد کا رشتہ!

Facebook Comments

Zubair Bashir
چوہدری محمد زبیر بشیر(سینئر پروڈیوسر ریڈیو پاکستان) مصنف ریڈیو پاکستان لاہور میں سینئر پروڈیوسر ہیں۔ ان دنوں ڈیپوٹیشن پر بیجنگ میں چائنا میڈیا گروپ کی اردو سروس سے وابستہ ہیں۔ اسے قبل ڈوئچے ویلے بون جرمنی کی اردو سروس سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ چین میں اپنے قیام کے دوران رپورٹنگ کے شعبے میں سن 2019 اور سن 2020 میں دو ایوارڈ جیت چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply