چہرہ فروغ مئے سے گلستاں(قسط11)۔۔فاخرہ نورین

بیلجئم کے ایک بیڈ اینڈ بریک فاسٹ پر دو دن قیام کرنا پڑا ۔زبیر نے کنٹینر لوڈ کروانے تھے سو میرے پاس وافر وقت میسر تھا ۔قصباتی ہوٹل تھا سو رش نہیں تھا اور صرف ایک اور جوڑا ہمارے علاوہ مقیم تھا ۔
بیڈروم میں ساری ڈیکوریشن فطری مواد سے کی گئی تھی مثلاً میز کرسی بیڈ تک جیسے گھر آنگن کی لکڑیوں سے بنے ہوئے ۔
جنگلی پھول سکھا کر رنگ کر، ایک پرانی چائے دانی میں رکھے تھے، دیوار پر لٹکی سینری بٹنوں، سیپیوں اور کنچوں کو چپکا کر بنائی گئی تھی ۔ نیچے لاؤنج میں سب ٹیبل کلاتھ کروشیے سے بنے تھے ایک بڑے سے تھال میں دار چینی، بادیان کے پھول، پائن کے چھوٹے چھوٹے کارن، لکڑی کی گھنگھریالی سنہری چھال اور جانے کون کون سی سبزیوں پھلوں اور پھولوں کے بیج بہت فنکاری سے ترتیب دیے گئے کہ وہ سنٹرل شوپیس لگ رہے تھے ۔ دیواروں پر، کونے کھدروں میں، صحن میں ہر طرف گھر کے پرانے سامان کو بہت سلیقے سے استعمال کیا گیا تھا ۔ میں حیران ہی نہیں پریشان بھی ہو گئی ۔ ان بے چاروں نے شاید گلوبلائزیشن کے بارے ميں کچھ نہیں سنا۔آتشدان کے سامنے رکھے رسالے میں صرف دیکھ سکتی تھی پڑھنا ممکن نہیں تھا سو دیکھا کی۔

کچھ دیر بعد مالک خاتون آ گئی اور میری سہولت کا دریافت کرنے لگی۔اس کا شوہر گروسری کے لئے گیا تھا ۔میں کیسے رہ سکتی تھی اس کے بزنس اور گھر کے انٹیریر ڈیکوریشن کا راز پوچھنا بہت ضروری تھا ۔خوش قسمتی سے وہ بس اتنی ہی انگریزی بول سکتی تھی کہ میری نالائقی پر مسکرا نہ سکے۔

تم نے یہ کہاں سے خریدے؟ یہ سب بہت اچھے ہیں ۔
یہ تو میں نے بنائے ہیں، لکڑیوں سے فرنیچر میرے شوہر نے بنایا اور میں نے اسے ہیلپ کیا لیکن ڈیکوریشن ساری میری ہے ۔
پرانے سامان وغیرہ سے ۔
تم یہ بھی خود بناتی ہو؟ میں نے کروشیے کی بنائی پر حیرت سے آنکھیں پھیلا کر دیکھا ۔
(پینٹ شرٹ پہنے بال کٹائے، ہیل پہنے انگریزی بولتی عورت کے ساتھ ایسی کارروائیوں کی نسبت تھوڑی ہو سکتی ہے )
ہاں تو فارغ وقت میں کیا کروں؟

وہ جو میرے اٹھنے کے بعد بستر کی چادر بدل، کمرہ ازسر نو ترتیب دینے سے پہلے اپنے گھر کو بھی سمیٹ کر آئی تھی، فراغت کا تذکرہ کر رہی تھی ۔
تو ٹی وی دیکھ بہن، کسی ہمسائی کے چلن پر نظر رکھ، ماں کو فون لگا ساس نندوں کی برائیاں کر، شوہر کی شکایتیں لگا، بچے نہیں ہیں تو بیٹھ کر روپیٹ، محلے میں تانکا جھانکی کراور کچھ بھی نہیں ہے تو شوہر کو قابو میں رکھنے کا وظیفہ کر۔ کیا تیرا دل نہیں چاہتا کہ سٹار پلس پر سوپ سیریل دیکھے؟ تجھے جیتو پاکستان دیکھنے کی کوئی اِچھا نہیں؟ تو ڈسکو کیوں نہیں چلی جاتی اور اگر تو لبرل ہے تو سگریٹ پیتے ہوئے، مردوں کے خلاف تقریریں کیوں نہیں کرتی؟

بیلجئم میں رہتے ہوئے تو نے کوئی ملازم نہیں رکھا بلکہ مل کر کام کرتے ہو، کیوں کیوں کیوں ۔ میں اس سے کہنا چاہتی تھی کہ وہ ہماری گھریلو عورتوں یا ملازمت پیشہ خواتین میں سے کسی ایک کے جیسی مصروفیات تو رکھے۔ لیکن میں اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹاتی تو خود ہی ننگی ہوتی اور پراٹھے کھا کھا کر بڑھایا بے ڈھب پیٹ تو خود میرے اپنے لیے کوئی اچھا نظارہ نہیں تھا، کجا کہ دیار غیر میں اس جاذب نظر خاتون کو دکھاتی ۔

وہ میرے سامنے آن بیٹھی اور یورپی یونین سے انگلینڈ کے انخلاء پر افسوس کرنے لگی۔ اسے میل ملاپ میں آنے والی رکاوٹوں کا دکھ تھا، لوگ اپنے پیاروں سے بے دھڑک اور بے جھجک نہیں مل پائیں گے اس کا افسوس تھا ۔ (یہ عورتیں ملکی سطح کے معاملات پر بھی رائے زنی فرماتی ہیں؟ ہمارے ہاں تو جب بھی کسی عورت سے ملکی سیاسی سربراہان سے متعلق پوچھا تو کچھ ایسا سننے کو ملا۔
میں سیاست تو نہیں جانتی لیکن مشرف کی سفید کنپٹیاں مجھے بہت پسند ہیں ۔
نوازشریف تو گنجا ہے ۔
بے نظیر کی انگوٹھی اور ٹاپس دیکھے تھے، میں بھی ویسے ہی بنواؤں گی۔
زرداری بہت کرپٹ ہے، اتنی پیاری عورت رول دی ہے ۔اور یا پھر مجھے عمران خان کی سیاست بہت پسند ہے وہ اب تک کسرت کرتا ہے ۔)

Advertisements
julia rana solicitors

خیر خاتون سے گپ شپ بہت اچھی رہی ۔
زبیر واپس آیا تو میں حسب معمول شروع ہو گئی ۔
یارا ہمارے ہاں کوئی یقین کرے گا کہ بیلجئم میں بیٹھی عورت میری نانی اور امی کے جیسے ہنر کی مالک ہے؟ ہمیں ان عورتوں کے بارے میں تو نہ سلیبس نے بتایا نہ میڈیا نے، خود جا کر کتنے دیکھ سکتے ہیں اور کتنے لوگ گوری چمڑی کے فسوں سے باہر نکل کر ان کے سلیقے اور طرز زندگی کا ہر پہلو دیکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply