• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سیاست میرا شوق ہے،اور وکالت میرا پیشہ۔۔اسد مفتی

سیاست میرا شوق ہے،اور وکالت میرا پیشہ۔۔اسد مفتی

شیکسپئر کی کہی ہوئی صدیوں پرانی بات ہے کہ گلاب کو کسی بھی نام سے پکاریں،وہ گلاب ہی رہے گا۔ایک باسی کہاوت بن گئی ہے۔میرے حساب سے تو اس گھسے پٹے فارمولا یا کہاوت کو اب دفن کردینا چاہیے،کہ شیکسپئر کے عہد کی انگریزی بھی اب دم توڑ چکی ہے،لیکن لوگ ابھی بھی گئے زمانے کے روگوں کو پالنے پوسنے میں لگے ہوئے ہیں۔اب محض نام پکارنا ہی مطلوب نہیں ہے،بلکہ نام رکھنا،نام دینا،نام لینا،نام لکھنا وغیرہ وغیرہ کا بھی اپنا ایک مقام ہے۔
اب یہی دیکھ لیجیے کہ مرحوم چوہدری ظہور الٰہی کو کسی مداح نے “اللہ کا سپاہی”کہہ کر پکارا،تو یہی انکی عزت بن گیا،ان کانام پڑ گیا۔۔
1970کے انتخابات کا واقعہ ہے۔۔لاہور کے ایک حلقے میں چوہدری ظہور الٰہی کی کنوینسنگ ہورہی تھی،راتوں رات دیواروں پر بڑے بڑے اور جلی حروف میں اُن کے لیے یہ انتخابی نعرہ تحریر کیا گیا۔”چوہدری ظہور الٰہی،اللہ کا سپاہی”۔۔ظاہر ہے یہ محض سیاسی و انتخابی درفطنی تھی اور ووٹروں کو صحیح یا غلط طور پر متاثر کرنے ے لیے اللہ کے سپاہی کے حوالے سے چوہدری صاحب کا قد کاٹھ بلند کیا گیا تھا،لیکن ہوا یوں کہ اگلی رات کو کسی ستم ظریف نے ہر جگہ جہاں بھی اللہ کا سپاہی لکھا ہوا تھا،اُس سے آگے بریکٹ میں (ریٹائرڈ)لکھ دیا۔اور یہ تبدیلی لاہوریوں کی تفریح طبع کا سامان بن گئی۔چوہدری ظہور الہی۔اللہ کا سپاہی(ریٹائرڈ)۔۔۔
ابراہیم جلیسی مرحوم ایک بار لاہور آئے تو اداکارہ عالیہ نے انہیں دعوت دی،جس میں بہت سے شاعر،ادیب،اور فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگ شریک ہوئے۔۔جب کھانے پینے کا دور چلا،تو معروف نغمہ نگار،ریاض الرحمان ساغر نے ابراہیم جلیس سے کہا، “چلیں صاحب”ذرا وہاں سے ایک چمچی تو عنائیت کردیجیے۔۔
جلیس نے کہا،ہاں ہاں لیجیے صاحب یہ چمچی لیجیے،اور اس کے ساتھ ایک انڈی بھی لیجیے۔۔
مجھے یقین ہے،اس کے بعد ریاض الرحمان ساغر نے عمر بھر دوبارہ چمچ کو چمچی نہیں پکارا ہوگا۔
اب ہمارے ہمسائے کے بارے میں ایک واقعہ سُنیے۔۔
سابق صدر جمہوریہ ہند گیانی اپنے آپریشن کے لیے امریکہ گئے،وہاں وہ ٹیکساس کے ہسپتال میں تھے،جس میں کے پیش رو سینچو اریڈی بھی زیرِ علاج رہ چکے تھے،جب وہ آپریشن تھیٹر میں لے گئے تو چیف سرجن نے موصوف سے پوچھا،are u ready?
کیا آپ تیار ہیں؟
No,i am not ready
I am zail singh.
میں ریڈی نہیں ہوں،ذیل سنگھ ہوں۔۔
ایک بار علما میں بحچ چل رہی تھی،کہ اجمیرشریف،تونسہ شریف،بغداد شریف وغیرہ لکھنا جائز ہے،یاناجائز۔۔بعض علما اس کے مخلاف تھے اور بعض موافق۔۔بات جب بہت بڑھ گئی اور فیصلے کی کوئی صورت باقی نہ رہی تو،یہ مسئلہ مولوی نذیر احمد کے سامنے رکھا گیا۔۔اور اس سلسلے میں ان کی رائے دریافت کی گئی،انہوں نے جواب دیا کہ اگر مزاج شریف کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں تو پھر اجمیر شریف یا بغداد شریف کہنا بھی درست ہے۔۔قیام پاکستان سے قبل کا واقعہ ہے۔۔کانگریس کے مشہور لیڈر جو بعد میں ہندوستان کے مشہور لیڈر،اور کانگریس کے صدر بھی رہے،شری سیتا رام تھے۔۔موصوف یوپی کے کسی شہر میں مشاعرے کی صدارت کررہے تھے،اسی مشاعرے میں معروف ظرافت نگار ظریف لکھنوی بھی شاعروں میں شامل تھے۔جب اُن کی شعر سنانے کی باری آئی تو،انہوں نے یہ شعر پڑھا،
نر ہے یا مادہ،عجب ترتیب ہے اس نام کی
کچھ حقیقت ہی نہیں کُھلتی سیتا رام کی
سامعین کی کیا حالت ہوئی،یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔البتہ آئندہ صدر مشاعرہ نے کسی مشاعرے میں شرکت سے توبہ کرلی۔۔
کہتے ہیں کہ ایوب خان کے دور ِ حکومت میں جب ایک کم پڑھے لکھے شوفر نے صدر ایوب خان کو خط لکھا اور لفافے پر ان کا نام “عیوب خان” صدر پاکستان لکھ دیا تو یہ خط جن کے ہاتھ لگا انہوں نے یہ خط فوراً خفیہ ایجنسی والوں کے حوالے کردیا،اور اس بات کی تحقیقات ہوتی رہی کہ ایوب خان کو عیوب خان لکھنے والے کے پیچھے کون تخریب کار یا دہشت گرد ہیں،اور ان کا مقصد کیا ہے۔۔
اب ایک واقعہ نام کی اہمیت اور ہم نام ہونے کے بارے میں سُنیے۔۔
اس کے راوی معروف صحافی حمید اختر موحوم تھے۔۔وہ بتاتے ہیں 1981 کا واقعہ ہے کہ کوٹ لکھ پت جیل میں ہم تقریباٍ ً ستر نظر بندوں کے ساتھ اداکار حبیب بھی نظر بند تھے۔۔ان کی گرفتاری کی وجہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔اس لیے کہ تمام ترفتار شدگان کو جن کا تعلق زیادہ تر پیپلز پارٹی کے عہدیداروں یا ہمدردوں سے مخالفت کی وجہ سے پابند سلاسل کیا گیا تھا،ادااکار حبیب کا تعلق پارٹی چکے مخالفوں سے تھا اور وہ چوہدری ظہور الٰہی اللہ کا سپاہی کے امیدوار کی حیثیت سے پیپلز پارٹی کے خلاف انتخاب بھی لڑ چکے تھے،بہر حال بیس روز کے بعد ایک دن انہیں جیل سے مارشل لا کے دفتر بلایا گیا، اور بتایا گیا کہ حبیب الرحمان ولد عبدالرحمان ناجی ایک شخص کی جگہ جو گوجرانوالہ میں پیپلز پارٹی کا کارکن سے اداکار حبیب کو غلطی سے گرفتار کر لیا گیا،اور بتایا گیا تھا،کیونکہ اس کا نام حبیب ہونے ے علاوہ اس کے والد کا نام بھی عبدالرحمان ہے۔۔چنانچہ انہیں تین ہفتوں کے بعد رہا کردیا گیا،پیارے قارئین تو کیا اب آپ بھی شیکسپئر کی یہ بات کہ نام میں کیا رکھا ہے،گلاب کو کسی نام سے بھی پکاریں وہ گلاب۔۔۔
دل کو کعبہ کہہ رہا ہوں بات سمجھا کیجیے
میرا مطلب ہے کسی کادل نہ توڑا کیجیے

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply