مسجد اقصی کا دروازہ “باب الرحمہ”۔۔منصور ندیم

باب الرحمہ بیت المقدس کے مسجد اقصی کے 15 دروازوں میں سے ایک تاریخی دروازہ ہے جو مرکزی ہال سے بیرونی صحنوں کی طرف کھلتا ہے۔ یہ دروازہ اسرائیلی افواج نے اسے 2003 میں بند کردیا تھا جسے 17 برس بعد پچھلے سال سنہء 2019 کے اوائل میں فلسطینی نمازیوں نے کھول کر وہاں نماز ادا کرنا شروع کی تھی۔

تاریخی حوالوں کے مطابق باب الرحمہ کی تعمیر اموی خلافت کے دور میں ہوئی تھی، مسلمانوں کے ہاں اس دروازے کی اہمیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اسے مجازی طور پر جنت کا دروازہ کہا جاتا ہے کیونکہ کئی مفسرین کرام کا کہنا ہے کہ سورہ الحدید کی آیات 13 میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ تاریخ کے مطابو بیشتر اسلامی ادوار میں باب الرحمہ کو بند بھی رکھا گیا ہے، اس کی وجہ سورہ الحدید کا حوالہ ہے جس میں بند دروازے کا ذکر ہے جس میں آیت کے مطابق دروازے کے باہر عذاب اور اندر رحمت ہے۔

 

تاریخی اعتبار سے سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس فتح کرنے کے بعد مسجد اقصی کا باب الرحمہ بند کرنے کا حکم صادر کیا تھا، عثمانی سلطنت کے دور میں بھی باب الرحمہ سیکیورٹی وجوہ کی بنا پر بند کردیا گیا تھا۔ بیت المقدس میں ہونے والی کئی جنگوں کے دوران حملہ آور افواج نے اس دروازے کو نشانہ بنایا۔ کئی مرتبہ اسے منہدم کیا گیا اور بار بار اسے تعمیر کیا گیا

باب الرحمہ نہ صرف مسلمانوں کے ہاں مقدس مقام تصور کیا جاتا ہے بلکہ مسیحیوں کے نزدیک بھی اس کی اہمیت ہے۔ مسیحیوں کا خیال ہے کہ آخر زمانے میں جب حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول ہوگا تو وہ باب الرحمہ سے ہیکل میں داخل ہوں گے۔ اور یہودیوں کے عقیدت کے مطابق بھی 586 قبل مسیح تعمیر کردہ ہیکل کا یہی دروازہ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ جگہ آج کل اسرائیل کے زیر تسلط علاقوں میں ہی شمار ہوتی ہے، پچھلے سال جب فلسطینی مسل۔سنوں نے یہاں نماز کی ادائیگی شروع کی تب بیت المقدس کی مقامی اسرائیلی عدالت نے باب الرحمہ کو دوبارہ بند کرنے کا حکم جاری کیا تھا جسے بیت المقدس کے اوقاف کونسل نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مسجد اقصی اور بیت المقدس میں اسلامی آثار پر اسرائیل کا اختیار نہیں، کیونکہ مقبوضہ علاقو ں کے احاطے میں موجود تمام اسلامی آثار پر اردن کی نگرانی پوری دنیا میں مسلم ہے۔ اسرائیلی ریاست اسلامی آثار کے متعلق کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ اب بھی اکثر یہاں فلسطینی مسلمان جمعہ کی ادائیگی کرتے ہیں

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply