بڑے میاں دیوانے۔۔شکور پٹھان

شیکسپئر  کہتا ہے۔۔ویسے زیادہ تر شیکسپئر ہی کہتا ہے۔ جو کچھ کوئی اور نہیں کہتا وہ شیکسپئر ہی کہتا ہے۔ کسی کی بات اگر کوئی نہیں سنتا تو وہ اسے شیکسپئر کے منہ سےکہلوا دیتا ہے پھر ہر کوئی اس بات کو سنتا ہے۔ حالانکہ میں نے شیکسپئر کے بارے میں بھی کچھ ایسی ویسی باتیں ہی سنی ہیں۔ کہنے والوں کی زبان تو نہیں پکڑ سکتے۔ اور وہ بد خواہ یہ کہتے ہیں کہ شیکسپئر ویکسپئر نرا فراڈ ہے۔ ایسا کوئی بندہ تھا ہی نہیں۔ اب یہ اللہ جانے اور کہنے والے جانیں ، ہم نے تو یہ شیکسپئر کے حوالے سے ہی سنا ہے۔
اور شیکسپئر کا وہ کہنا یہ ہے کہ یہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہم سب مرد وزن اس اسٹیج کے اداکار ہیں۔

اب چاہے شیکسپئر  کہتا ہے یا کوئی اور لیکن بات میں دم تو ہے۔ اس دنیا میں ہر شخص ایک کردار ہے۔ بہت سے کردار عام سے ہیں جن کا کوئی نوٹس نہیں لیتا لیکن کچھ کردار اوروں سے ذرا ہٹ کر ہوتے ہیں اور کسی خاص وجہ سے ، کسی غیر معمولی بات سے، کسی عجیب حرکت سے دوسروں سے الگ نظر آتے ہیں۔کچھ لوگ ہر طرح سے اچھے بھلے ہوتے ہیں لیکن ایک آدھ چیز ان میں کچھ ایسی ہوتی ہے جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔

مثلاً ہمارے ایک دوست کے ابا تھے۔ نہایت شریف، نستعلیق،اعلیٰ تعلیم یافتہ ، بلکہ علی گڑھ کے پڑھے ہوئے، جو ہمارے محلے کے لحاظ سے بہت بڑی بات تھی۔ ان کا سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔ لیکن برا ہو محلے کے لونڈوں کا۔ دوست کے ابا جب سامنے سے گذرتے تو لڑکے بڑے احترام سے انہیں سلام کرتے اور وہ بڑی شفقت سے جواب دیتے۔سلام کرنے والا ان سے کچھ آگے گذر جانے کے بعد ایک محفوظ فاصلے سے ایک معصومانہ سا سوال کرتا اور جیسے ہی یہ سوال ان تک پہنچتا ، ہمارے دوست کے علیگ ابا اور لونڈے لپاڑیوں کا فرق مٹ جاتا۔ بازاری زبان میں وہ وہ مغلظات سننے  و ملتیں کہ لوگ کانوں کو ہاتھ لگالیتے۔ لوگ باگ ان لڑکوں کو ڈانٹتے، مگر اس سے پہلے ہی وہ لونڈے رفع چکر ہوچکے ہوتے۔
شاید شخصیت اور کردار کا یہ عدم توازن ہی لوگوں کی پہچان بن جاتا ہے۔

خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ درمیان میں آگیا۔ بات کرداروں کی ہورہی تھی اور ایسے کرداروں کی جو عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ سنیما اور ڈرامے کی دنیا میں ایسے کرداروں کو “ کیریکٹر ایکٹر” کہا جاتا ہے۔ اکثر اداکار ان مخصوص کرداروں کی اداکاری، مکالموں اور اداؤں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ عموماً یہ کردار بہت سینئر اور تجربہ کار فن کار ادا کرتے ہیں کہ آسان کردار نہیں ہوتا اور بہت سے کیریکٹر ایکٹر فلم کے مرکزی کردار یا ہیرو ، ہیروئن سے بھی زیادہ مشہور ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر فلم مغل اعظم میں دلیپ کمار جیسے منجھے ہوئے اداکار اور مدھو بالا جیسی  حسین ترین ہیروئن کے ہونے کے باوجود فلم اگر کسی کو یاد رہتی ہے تو وہ مغل اعظم یعنی پرتھوی راج کے کردار کی وجہ سے۔ یا امیتابھ بچن، دھرمیندر، سنجیو کمار، جیا بھادری اور ہیما مالنی جیسے بڑے ناموں والی فلم “ شعلے” اگر کسی کو یاد رہتی ہے اس کردار کے باعث جو آدھی فلم کے بعد کہانی میں آتا ہے اور جسے ادا کرنے والے کی یہ پہلی فلم تھی۔ جی ہاں میں بات کررہا ہوں گبر سنگھ کی جو ساری زندگی امجد خان کی پہچان بنا رہا۔

عام طور پر یہ کردار باپ کے رول کے لیے مخصوص ہے۔ اور مختلف اداکاروں کا نام سن کر ہی ذہن میں ایک مخصوص کردار گردش کرنے لگتا ہے۔ برصغیر میں عموماً امیر باپ ظالم سماج کا نمائندہ ہوتا ہے، دوسری طرف غریب باپ اکثر بے کس اور مجبور نظر آتا ہے۔ کچھ اداکار چند کرداروں کے لیے مخصوص ہیں جیسے بھارتی اداکار مراد زیادہ تر جج کے کردار میں نظر آئیں گے تو پولیس کمشنر کے لئے پورے ہندوستان میں صرف افتخار کا انتخاب ہوتا ہے۔ پولیس انسپکٹر کے فرائض جگدیش راج کو سونپے گئے ہیں اور سالہا سال اپنے  فرائض تندہی سے انجام دینے کے باوجود اس غریب کی ترقی نہیں ہوئی اور وہ انسپکٹر سے آگے نہیں بڑھ پایا۔ اگر شاطر منشی یا ساہوکار کا کردار ہو تو کنہیا لال کے علاوہ یہ کردار کسی اور کو نہیں دیا جاسکتا اور شرابی ہو تو صرف کیشٹو مکرجی۔اور بات یہ بھی ہے کہ تماشائی بھی ان مخصوص اداکاروں کے علاوہ دوسرے اداکار کو ایسے کرداروں میں پسند نہیں کرتے۔

اکثر ہیرو ، ہیروئن عمر گذرنے کے بعد کیریکٹر ایکٹنگ کی جانب مائل ہوتے ہیں جیسے اشوک کمار، پران، دلیپ کمار، کامنی کوشل یا پاکستان میں صبیحہ خانم اور نئیر سلطانہ وغیرہ لیکن بطور فنکار ان کی پہچان ہیرو اور ہیروئن کے طور پر ہی رہتی ہے چنانچہ ہم ان کی بات نہیں کرینگے۔
ہوش سنبھالنے کے بعد جو دوسری فلم میں نے دیکھی وہ تھی “ تین پھول” اوراس کے ہیرو علاؤالدین تھے۔ فلم کی کہانی وغیرہ تو کچھ یاد نہیں البتہ اس کی ہیروئن شمیم آرا اور علاؤالدین کے نام یاد رہے۔ علاؤالدین کا نام اس زمانے میں تقریباً ہر دوسری پاکستانی فلم میں ہوتا تھا۔ پاکستان میں اگر کیریکٹر ایکٹنگ کی بات کی جائے تو علاؤالدین کا نام سرفہرست ہے۔ اخبار میں فلم کے اشتہار میں علاؤالدین کے ساتھ “ عوامی اداکار” کا سابقہ ضرور لگایا جاتا تھا ۔ علاؤالدین نے بہت ہی متنوع کردار ادا کئے ۔ وہ ہیرو، کامیڈین، ولن، کیریکٹر ایکٹر ہر طرح کے کرداروں میں نظر آتے تھے۔ ان کی اداکاری شاید آج کے مروجہ معیار سے مختلف ہو کہ اس میں بہت زیادہ تصنع اور اوور ایکٹنگ نظر آتی تھی لیکن اس زمانے میں یہی سکہ رائج الوقت تھا۔ کئی فلمیں صرف علاؤالدین کی وجہ سے ہی مشہور ہوئیں۔ فلم بدنام کے ہیرو اعجاز کا نام شاید کسی کو نہ یاد ہو لیکن “ کہاں سے آئے یہ جھمکے، کس نے دئیے ہیں یہ جھمکے، کیا کہہ رہے ہیں یہ جھمکے” یہ مکالمے انہیں بھی یاد ہیں جنہوں نے یہ فلم نہیں دیکھی ( میں بھی ان میں سے ایک ہوں)۔ “ کرتار سنگھ”، تیس مار خان”، “مہتاب” اور ایسی کئی فلمیں ہیں جن کے نام کے ساتھ ہی علاؤالدین کی تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ “ گول گپے والا آیا گول گپے لایا، آج بھی کئی ٹھیلے والے یہ بول گنگنا کر گول گپے بیچ رہے ہوتے ہیں۔ اور مزے کی بات کہ اس قدر عوامی کردار ادا کرنے والے پر مہدی حسن کے چند مقبول ترین گیت اور غزلیں فلمائی گئی ہیں جن میں فیض کی “گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے”کے علاوہ” شکوہ نہ کر گلہ نہ کر”اور “ کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آجاتے ہیں “ اور “ جس نے میرے دل کو درد دیا “ جیسے مقبول گیت شامل ہیں۔

علاؤالدین کے ساتھ ہی اور اکثر ان کے مقابل دوسرے مقبول ترین اداکار “ آغا طالش” تھے۔ آغا صاحب بھاری بھرکم شخصیت کے مالک تھے اور ان کی وضع قطع، آواز اور مکالموں کی ادائیگی کا انداز انہیں فلمسازوں اور ہدایتکاروں کا اولین انتخاب بناتی تھی۔ طالش زیادہ تر ایک امیر باپ، نواب صاحب، جاگیردار وغیرہ کے کردار میں نظر آتے ۔ ان کے مکالموں میں ایک مخصوص گھن گرج ہوتی اور یہ شوکت اور تمکنت بہت کم اداکاروں کے کردار میں پائی جاتی تھی۔ “ ہم گھوڑا خریدیں یا کتا، اس کی نسل دیکھتے ہیں، ذات دیکھتے ہیں، خاندان دیکھتے ہیں ، قسم کے جملے صرف آغا طالش پر ہی سجتے تھے۔ فلم والوں میں ایک یہ رواج بہت برا ہے کہ جو جس کردار میں مشہور و مقبول ہوجائے اسے پھر ویسے ہی کردار دیتے ہیں۔ طالش ایک زمانے میں بڑے ور سٹائل اداکار تھے۔ فلم “ سات لاکھ” کا مقبول نغمہ “ یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں” طالش پر فلمایا گیا تھا۔ فلم “رہ گذر” میں ان کا کردار بہت مختلف طرح کا تھا۔ اسی طرح” نیلا پربت” میں ان کی اداکاری لاجواب تھی۔ ، فرنگی” اور “ شہید” میں انگریز افسر اور امراؤ جان ادا، تہذیب، انجمن ، کنیز میں نواب صاحب کے کرداروں میں طالش کے علاوہ کسی اور کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

کیریکٹر ایکٹر وں میں ایک بڑا نام ، ساقی” کا تھا۔ ساقی ایک منفرد قسم کے اداکار تھے اور وہ روایتی فلمی یا تھیٹریکل اداکاری کے بجائے نیچرل ایکٹنگ کیا کرتے تھے۔ ساقی میرے پسندیدہ اداکار تھے لیکن میں نے ان کی فلمیں بہت کم دیکھیں۔ ساقی کئی زبانیں بول سکتے تھے اسی لئے وہ مختلف زبانوں کا لہجہ بہت قدرتی انداز میں پیش کرتے تھے۔ ساقی نے انگریزی فلم ، بھوانی جنکشن، میں بھی کام کیا تھا۔ م “ لاکھوں میں ایک “ کا گیت “ ہمارا نام دلبر خان، تم پر جان بھی قربان، کسی زمانے میں میرا پسندیدہ گیت تھا۔ فلم “ آگ کا دریا” میں بھی ان کا کردار بہت زوردار تھا۔
ایک کیریکٹر ایکٹر جو فلموں سے زیادہ ٹی وی پر مقبول ہوئے وہ تھے قوی خان۔ قوی کی فلموں کے بارے میں مجھے بہت زیادہ یاد نہیں لیکن مجھے یاد ہے کہ قوی کی ابتدائی فلموں میں ایک مقبول فلم بہو رانی میں جب کہ وہ خود نوجوان تھے انہوں نے بوڑھے کا ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا۔ میں نے وہ فلم دیکھی بھی نہیں ہے لیکن مجھے یاد ہے کہ اس فلم کے ایک منظر کا بہت شہرہ تھا جس میں بوڑھا قوی اپنی ہی تصویر کو سر پر لئے بازار سے گذر رہا تھا۔

علاؤالدین، طالش اور ساقی کے علاوہ کمال ایرانی، آزاد، ریحان، حمید وائن وغیرہ بھی پاکستانی فلموں کے مخصوص کیریکٹر ایکٹر تھے۔ اور بھی ہونگے لیکن جو رنگ آغا طالش اور علاؤالدین نے جمایا تھا اس کے سامنے باقی سب رنگ پھیکے تھے۔

ہندوستان میں تو ایک طویل قطار ہے ان ناموں کی جو بطور کیریکٹر ایکٹر مقبول اور مشہور ہیں۔ کچھ ناموں کا تو اوپر ذکر ہوگیا۔ پرتھوی راج سے پہلے کسی زمانے میں سہراب مودی کا بھی بڑا نام تھا لیکن میں ان کا ذکر ہرگز نہیں کروں گا ورنہ آپ مجھے زمانئہ قدیم کی کوئی چیز سمجھیں گے نہ ہی موتی لال کی بات کروں گا۔ البتہ “ بلراج ساہی” کا ذکر ضرور کروں گا۔ بلراج اور پرتھوی راج دونوں اپنے زمانے کے مقبول اداکار تھے۔ پرتھوی راج فلم سے زیادہ تھیٹر میں مشہور ہوئے اور بلراج ساہنی فلموں سے پہلے ریڈیو سے متعلق تھے اور ذوالفقار علی بخاری کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ بلراج بہت پڑھے لکھے اور غیر متعصب فنکار تھے جبکہ پرتھوی راج ایک زمانے میں ہندو مہاسبھا کے افکار کی ترویج میں پیش پیش تھے۔ بلراج ساہنی کی مقبول فلموں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں دوبیگھے زمین، سٹہ بازار، کابلی والا،بھابی، ایک پھول دو مالی، نیل کمل، ہمراز، وقت وہ چند ایک فلمیں ہیں جو میں نے دیکھیں یا جن کے نام مجھے یاد ہیں۔ لیکن بلراج ساہنی کی جس فلم کی وجہ سے میں انہیں بہت بڑے فنکار کا درجہ دیتا ہوں اور جو ان کی نمائندہ فلم ہے وہ ہے “ گرم ہوا”۔ تقسیم کے موضوع پر عصمت چغتائی کی کہانی پر مبنی یہ فلم کبھی بھی دوبارہ دیکھی جاسکتی ہے۔

باپ کے کردار میں ایک اور اداکار کبھی ہندوستانی فلموں میں لازم وملزوم ہوتے تھے اور وہ تھے نذیر حسین۔ گھنی مونچھوں اور بھاری بھرکم شخصیت کے مالک نذیر حسین کی “ رام اور شیام”، امر اکبر انتھونی، مسافر، دیوداس، گنگا جمنا، کٹی پتنگ اور بے شمار فلمیں ہیں۔

ہندوستانی فلموں کے ایک بہت شریف، سیدھے سادھے، نیک سیرت اور اکثر مظلوم باپ “ اے کے ہنگل” تھے۔ شعلے، گرم ہوا، گڈی، چت چور، شوقین ، پریچے والے اے کے ہنگل صاحب کو دیکھ کر مجھے اپنے نرم خو، دھیمی آواز والے اور سیدھے سادے ابا کی یاد آتی ہے۔ فلم “ باورچی” میں ان کا کردار مجھے ہیرو سے زیادہ پسند ہے۔

ایک اور ایسے ہی پیارے سے بڑے صاحب، یہودی النسل “ڈیوڈ “تھے۔ بوٹ پالش، ابھیمان، شری چارسو بیس، چلتے چلتے، گول مال، خوبصورت جیسی فلموں والے ڈیوڈ انکل سے کوئی نفرت کر ہی نہیں سکتا۔

ڈاکٹر شری رام لاگو بھی ایسے ہی ایک خوش شکل اور اچھے سے باپ تھے۔ مراٹھی فلموں اور اسٹیج کے اس ہردلعزیز اداکار کی میں نے کم فلمیں دیکھی ہیں۔ مراٹھی فلموں کے ایک اور اداکار “نیلو فولے” کو شاید میرے پاکستانی دوست کم ہی جانتے ہوں لیکن وہ بڑے غضب کے اداکار تھے۔ ان کی فلم “ وہ سات دن” شاید بہت سے دوستوں نے دیکھ رکھی ہو۔ مراٹھی فلموں سے ہندی فلموں میں ایک اور کیریکٹر اداکار بھی مشہور ہوئے لیکن “ دادا کونڈکے” کے کردار اس قابل نہیں کہ شرفاء میں ان کا ذکر کیا جائے۔ البتہ مراٹھی اور ہندی فلموں کے ایک بہت بڑے اور غضب کے اداکار “ نانا پلسیکر” تھے۔ جنہوں نے ان کی فلمیں دیکھی ہیں وہ جانتے ہیں کہ نانا پالسیکر کس پائے کے اداکار تھے۔

اور اب آئیے میرے دو پسندیدہ ترین “بابوں” کی طرف۔ جی ہاں یہ ہیں اتپل دت اور اوم پرکاش۔
بنگالی فلموں سے ہندی فلموں میں شہرت پانے والے اتپل دت بے حد ورسٹائل اداکار تھے۔ انہوں نے ولن، کامیڈین اور سنجیدہ ہر طرح کی اداکاری میں حقیقت کا رنگ بھرا۔ان کا مکالموں کا ایک مخصوص انداز تھا اور جب وہ حیرت سے “ ہئئئئ” کرتے تو پورا ہال ان کی نقل کرتا۔ اتپل دت کی مشہور فلموں کی ایک طویل قطار ہے جن میں امانش، گول مال، نرم گرم، رنگ برنگی، شوقین اور صاحب وغیرہ تو صرف چند ایک نام ہیں۔

اے کےہنگل کی طرح اوم پرکاش بھی ایسے اداکار تھے کہ چاہے کتنے برے شخص کا بھی کردار ادا کریں، ان پر پیار ہی آتا تھا،۔ معمولی سا مکالمہ بھی جب وہ اپنے مخصوص ڈھیلے ڈھالے سے، عجیب لٹکے ہوئے سے لہجے میں ادا کرتے تو سننے والوں کو لطف ہی آجاتا۔ چپکے چپکے، آندھی، جولی، زنجیر، شرابی، خاندان، چنبیلی کی شادی، پڑوسن، گڈی، گوپی تو ان کی “آج کل” کی فلمیں ہیں۔ اوم پرکاش جی تو پچاس برس سے فلموں میں تھے اور ان کی مقبول فلموں کا کوئی حساب ہی نہیں۔

یہ سب کردار ہماری زندگیوں سے جڑے ہوئے کردار ہیں، ان میں ہمیں اپنی اور اپنے پیاروں کی صورت نظر آتی ہے۔ ہم میں سے کچھ اچھے تو کچھ برے اور کچھ بہت اچھے اور کچھ بہت برے لوگ ہوتے ہیں۔ یہی کردار فلموں اور ڈراموں میں ہوتے ہی۔ میں نے بہت زیادہ فلمیں نہیں دیکھی ہیں نہ فلموں پر میری کوئی تحقیق ہے۔ بہت سے مشہور اداکاروں کا تذکرہ یہاں رہ گیا ہوگا۔ بہت سی فلموں کا ذکر نہیں ہوا ہوگا۔ بس آج یونہی کچھ ایسے کردار یاد آئے جو ہمارے آس پاس ہوتے ہیں لیکن ہم کبھی انہیں غور سے نہیں دیکھتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

زندگی میں بھی ایسے کئی کردار ہمارے آس پاس بکھرے ہوئے ہیں۔ بھائی شیکسپئر، اگر وہ واقعی تھے ، تو انہوں نے کچھ غلط نہیں کہا تھا ۔
All the world’s a stage,
And all the men and women merely players;
They have their exits and their entrances,
And one man in his time plays many parts,

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply