قرآن اور سائنس۔۔۔قیصر حسین

قرآن مجید کا مطالعہ کریں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ قرآن اور جدید سائنس میں مطابقت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے یا نہیں۔ قرآن سائنس کی کتاب نہیں  ہے بلکہ یہ نشانیوں یعنی آیات کی کتاب ہے۔ قرآن مجید میں 6636 آیات ہیں، جن میں ایک ہزار سے زیادہ سائنس کے متعلق ہیں، (یعنی ان میں سائنسی معلومات موجود ہیں)۔

مشہور ماہر طبیعیات اور نوبل انعام یافتہ البرٹ آئن سٹائن (Albert Einstein) کے مطابق:

” “سائنس مذہب کے بغیر لنگڑی ہے اور مذہب سائنس کے بغیر اندھا ہے۔” “

ارشادِ ربانی  ہے۔۔

”وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ O فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَO [5]

ترجمہ: ’’اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں مبتلا ہو ،جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور (اس کام کے لیے بیشک) اللہ کے سوا اپنے (سب) حمائتیوں کو بلا لو اگر تم (اپنے شک اور انکار میں) سچے ہوo پھر اگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘۔

لیکن پوری دنیا کے انسان مل کر بھی اس جیسی ایک سورت تو کیا ایک آیت نہیں بنا سکے اور نہ بنا سکیں  گے کیونکہ قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے تا ہم ایک جدید سوچ کا معقول آدمی بھی اس جیسی ایک آیات نہیں بنا سکتا ۔

چلیں اب آپکو قرآن کے کچھ سائنسی حقائق بتاتے ہیں

١۔ فلکیات
کائنات کی تخلیق :بگ بینگ
بیگ بینگ تھیوری کے بارے میں تو سب جانتے ہوں گے جس کے مطابق کائنات مطلب یہ دنیا اس طرح شکل میں ظاہر ہوئی کہ  پہلے یہ سب   ایک بڑی کمیت کی شکل میں تھا  پھر ایک عظیم دھماکا یعنی بگ بینگ ہوا، جس کا نتیجہ کہکشاؤں کی شکل میں ظاہر ہوا۔ پھر یہ کہکشائیں تقسیم ہو کر ستاروں، سیاروں، سورج، چاند وغیرہ کی صورت میں آئیں اور اس بات کو فلکی طبیعیات کے ماہرین وسیع طور پر قبول بھی کرتے ہیں۔

قرآن پاک کی درج ذیل آیات میں ابتدائے کائنات کے متعلق بتایا گیا ہے:

”أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ [6]

ترجمہ: ’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا‘‘

٢۔ پھیلتی ہوئی کائنات
1925ء میں امریکی ماہر طبیعیات ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے اس امر کا مشاہداتی ثبوت فراہم کیا کہ تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہو ا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ یہ بات آج مسلمہ سائنسی حقائق میں شامل ہے۔ ملاحظہ فرمائیے کہ قرآن پاک میں کائنات کی فطرت اور خاصیت کے حوالے سے کیا ارشاد ہوتاہے:

” وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ[7]
ترجمہ: ’’اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘

یہ آیات پڑھ کر آپکو حیرت تو ہوئی ہوگئی کہ  ایک کتاب جو آج سے تقریباً ۱۴۰۰ سال پہلے عرب کے ریگستانوں میں نازل ہوئی اپنے اندر اس قدر سائنسی حقیقت لیے ہوئے ہے یہ تو بس قرآن کا سائنس کے مطلق  ایک  نمونہ ہے ۔۔اس بارے میں مزید جانیے

۳۔ریاضیات
کیا آپ نے کبھی قرآن پڑھتے ہوئے توجہ دی کہ قرآن مجید میں لفظ بحر (یعنی سمندر) کا لفظ 32 مرتبہ آیا ہے اور البر (یعنی خشکی) کا لفظ 13 مرتبہ آیا ہے آئیے ایک ریاضی اور سائنسی ایکویشن کے ذریعے چیک کرتے ہیں۔ اس میں پہلے ہم دونوں کو جمع کریں  گے پھر ایک ایک (یعنی 13 اور 32) کو ٹوٹل (یعنی 45) پہ تقسیم کریں گے اور پرسنٹیج نکالنے کے لیے 100 سے ضرب (ملٹی پلائی) دیں گے۔
البر: 13 مرتبہ
البحر: 32 مرتبہ
دونوں: 13+32= 45
آئیے پہلے البحر یعنی سمندر یا پانی کا موازنہ کرتے ہیں:
=(32/45) 100
=71.1%
اب البر یعنی خشکی کا موازنہ کرتے ہیں۔ البر کا استعمال 13 مرتبہ ہوا ہے:
=(13/45) 100
= 28.9%

کیا اپنے دیکھا کہ  جیسے ہم جانتے ہیں کہ  دنیا میں ۶۰ فیصد پانی اور ۳۰ فیصد خشکی ہے لیکن یہ بات قرآن کی نشانیوں نے ہمیں پہلی بتائی ہے۔

اب میں آپکو قرآن کا ایک ایسا سائنسی کرشمہ بتاتا ہوں جس نے ایک غیر مسلم کو مسلمان کردیا

۴۔ طب
شہد : نوع انسانی کے لیے شفا
جیسا کہ  آپ جانتے ہیں کہ شہد کی مکھی کئی طرح کے پھلوں اور پھولوں کا رس چوستی ہے اور اسے اپنے ہی جسم کے اندر شہد میں تبدیل کرتی ہے اور اس کو اپنے چھتے میں بنے خانوں میں جمع کرتی ہے انسان کو پہلے یہ معلوم نہیں تھا کہ شہد اصل میں شہد کی مکھی کے پیٹ سے نکلتا ہے مگر یہ حقیقت قرآن پاک نے ١٤٠٠ سال پہلے درج ذیل آیات مبارکہ میں بیان کر دی تھی۔

یَخْرُجُ مِنْ بَطُوْنِھَا شَرَا بُ مُّخْتَلِفُ اَ لْوَ انُہ فِیْہِ شِفَاآ ئُ لِّلنَّا سِ ط [18]
: اس مکھی کے (پیٹ کے ) اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے ۔

اس کے علاوہ سائنس نے حال میں ہی اس بات کا پتا لگایا ہے کہ  شہد میں زخم کوٹھیک کرنے کی شفا بخش خصوصیات پائی جاتی ہیں اور یہ نرم(مرہم جیسی) جراثیم کش دوا کا کام بھی کرتا ہے.
دوسری جنگ عظیم میں رو سیوں نے بھی اپنے زخمی فوجیوں کے زخم ڈھانپنے کے لیے شہد کا استعمال کیا تھا۔
سسٹر کیرول (Carole) نامی ایک مسیحی راہبہ (Nun) نے برطانوی شفا خانوں میں سینے اور الزائیمر نام کی  بیماریوں میں مبتلابائیس ٢٢ ناقابل علاج مریضوں کا علاج پرپولس نامی مادے سے کیا.
اس کے ساتھ ساتھ شہد میں وٹامن۔کے ، فرکٹوز ، زخم کو ٹھیک کرنے کی طاقت ، زخم کو پھپھوندی نہیں لگنے دیتا ، زخم کے نشان ختم کرتا ہے اس کے علاوہ بہت کچھ۔
لیکن قرآن میں شہد اس کی تشکیل اور خصوصیا ت کے بارے میں جو علم دیا گیا ہے اسے انسان نے نزول قرآن کے صدیوں بعد اپنے تجربے اور مشاہدے سے دریافت کیا ہے۔

۵۔جلد میں درد کے آخذے
پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ درد کو محسوس کرنا صرف اور صرف دماغ پر  منحصر  ہے مگر سائنس نے جب ترقی کی اور اس پر دریافت کی تو معلوم ہوا کہ  جلد میں درد کو محسوس کرنے والے آخذے ہوتے ہیں اگریہ خلیات نہ ہوں  تو انسان درد کو محسوس کرنے کے قابل نہیں رہتا۔۔ درج ذیل آیت مبارکہ میں قرآن پاک نے بہت واضح الفاظ میں درد کے آخذوں کی موجودگی کے بارے میں بیان فرمایاہے:
اِنَّ الَّزِیْنَ کَفَرُوْ ا بِاٰ یٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْھِمْ نَا رًا ط کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّ لْنٰھُمْ جُلُوْ دًا غَیْرَھَا لِیَذُ وْ قُوا الْعَذَابَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَا نَ عَزِیزً ا حَکِیْمًا ہ[20]
جن لوگوں نے ہماری آیات ما ننے سے انکار کر دیا ہے انہیں بالیقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب اس کے بدن کی کھال گَل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں۔ اللہ بڑی قدرت رکھتاہے اوراپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت کو خوب جانتاہے۔

اب آپکو ایک ایمان تازہ کرنے والا واقعہ بتاتا ہوں۔تھائی لینڈ میں چانگ مائی یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اناٹونی کے سربراہ پروفیسر تیگاتات تیجاشان درد کے آخذوں پر تحقیق کر رہے تھے اور بہت وقت سے اس پر ریسرچ کر رہے تھے جب انکو قرآن کا یہ سائنسی کرشمے کا پتا چلا تو پہلے تو انکو اس پر یقین نہیں ہوا کہ  آج سے ۱۴۰۰ سال پہلے اس بات کو قرآن کس طرح بیان کر سکتا ہے مگر جب انہو ں نے اس قرآنی آیت  کی تحقیق کی تو انکو ان  آیات پر یقین ہو گیا اور وہ اس قرانی آیات سے اس قدر متاثر ہوئے کہ سعودی عرب کے شہرریاض میں منعقدہ آٹھویں سعودی طبی کانفرنس کے موقع پر جس کا موضوع ‘قرآن پاک اور سنت میں سائنسی نشانیاں’ تھا،میں  انہوں نے بھرے مجمعے میں فخرکے ساتھ کہا۔
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ الرَّسُوْلُ اللّٰہ۔
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں محمدۖ اللہَّ کے رسول ہے.
اَللّٰهُُ اَكْبَر
اسکے علاوہ قرآن کی بہت ساری آیتیں سائنس پر بات کرتی ہیں مگر ان سب کو بیان کرنے میں تحریر بہت لمبی ہو جائے گی سائنس نے جتنی بھی ترقی کی ہے اسکا قرآن نے ۱۴۰۰ سال پہلے بتا دیا ہے اور آگے سائنس جو بھی ترقی کرے گی، بیشک اسکا بھی قرآن میں بتا دیا ہے بس ہم کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ قرآن ہمارے لیے ہی نازل کیا گیا تھا۔ ہمارے رب نے اسے انسانی زندگی کا مکمل ضابطہ حیات قرار دے کر ہم سے کہا تھا کہ اس ( قرآن ) میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

میری تو دعا ہے کے اللہ  ہمیں  قرآن سے مدد لے کر سائنس میں ترقی کرنے والا بناۓ اور علم و تحقیق کی دنیا میں ایسے ایسے کام کرجائیں کہ دنیا قرآن کا مطالعہ کرکے ایک دوسرے سے کہے  کہ دیکھو مسلمانوں کو ان کے رب نے جو نشانی قرآن میں بتائی تھی وہ انہوں نے دریافت کر ڈالی ہے ۔آمین

Advertisements
julia rana solicitors

آج کی دنیا علم و فن کی دنیا ہے سائنس تیز رفتار ی سے ترقی کرتی جا رہی ہے اور غیر مسلم اس ترقی میں قرآن سے مدد حاصل کر رہے ہیں اب ہمیں بھی قرآن پر غور اور فکر کر کے اس میدان میں آنا ہوگا اور دنیا کو بتانا ہوگا کہ  بیشک اسلام ہی سچا مذہب ہے۔
جزاك اللّٰه خيرًا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply