قاسم امین (1863ء تا 1878ء) مسلمانوں کی تاریخ کا پہلا شخص تھا، جس نے پردے کے خلاف مہم چلائی قاسم امین کرد نزاد تھے، منصب کے اعتبار سے جج تھے، عرب دنیا میں جدیدیت کے بانی شیخ محمد عبدہ کے شاگرد تھے، زندگی کے ایام قاہرہ میں گزارنے والے قاسم امین فرانسیسی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ان کا ربط و ضبط عیسائی مشنریوں سے بھی رہا، انہیں وہیں سے یہ تحریک ملی کہ اسلام میں پردہ، کثرت ازدواج، اور طلاق جیسے موضوعات نے اسلام کی بنیادی اساس و مسلمانوں کو کمزور اور انہیں ترقی سے محروم کررکھا ہے ۔
اس سے پہلے مرقص قبطی نے 1894 میں اپنی کتاب ’’المرأۃ فی الشرق‘‘ یعنی مشرقی عورت کے ذریعے پردہ کے انکار کی دعوت دی یہی سلسلہ قاسم امین نے آگے بڑھایا ۔ فرانسیسی تعلیم نے قاسم امین کے خیالات میں مغرب کی جدید ثقافتی اثرات کے بارے میں برتری کا احساس فروغ دیا تھا، اور اسی رفتار سے اپنی روایات کے بارے میں کمتری کا احساس بھی نمو پارہا تھا، اپنی پہلی کتاب “المرأة الجدیدة” (جدید عورت) The New Women میں لکھا تھا کہ کامل تہذیب وہ ہے جس کی بنیاد سائنس پر رکھی جاتی ہے، ان کا ماننا تھا کہ مسلمانوں کی تہذیب اپنے عروج پر اس وقت پہنچی تھی جب سائنسی اصول دریافت نہ ہوئے تھے۔ اور خواتین کی آزادی بھی مغرب میں کسی روایات یا احساس پر مبنی نہیں بلکہ وہاں خواتین کی آزادی بھی عقلیت پسندی اور سائنسی اصولوں کے معیارات پر مبنی ہے، یورپ کی سائنس کو اس کے اخلاقی معیارات کے بغیر قبول کرنا بے مقصد ہے، کیونکہ یورپ کی سائنس اور اس کے اخلاقی معیارات آپس میں لازم و ملزوم ہیں اور ہمیں ان تمام تصورات کو اپنی زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کرنے اور قبول کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیئے۔ ان تصورات نے قاسم امین کی فکر کو مرتب کرنے میں اساسی کردار ادا کیا، کتاب کا موضوع مسلمان خواتین میں پردے کی پابندی کرنے کی مخالفت تھا۔
1901ء میں شائع ہونے والی یہ کتاب “المرأة الجدیدة” (جدید عورت) The New Women مسلمانوں کی گھریلو زندگی کو انتہائی تاریک انداز میں یوں پیش کرتی ہے۔ جہاں مرد کی زندگی کو ہر شعبے میں کامل اختیار اور عورت کی حیثیت غلام کی ہے۔ عورت مرد کی جنسی خواہشات کی تسکین کی ذمے دار ہے، علم تک رسائی مرد کا حق اور جہل خواتین کے لئے ہے۔ جتنی روشنی موجود ہے مرد کے مرہون منت اور جتنا اندھیرا ہے وہ عورت کی وجہ سے ہے۔ مرد حکم دینے کا اختیار رکھتا ہے اور عورت پابند حکم ہے۔
قاسم امین پہلے شخص تھے جس نے مسلمان گھرانوں کی اصلاح کو مغربی گھرانوں کی وضح سے مشروط کیا۔ یہی مسلمان دنیا کے سماجی وسائل کے لئے ترقی کا زینہ بتایا ۔ مشرقی ممالک میں خواتین غلاموں کی صورت دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے برعکس مغربی ممالک میں حکومت آزادی سے کی جاتی ہے، دوسروں کے حقوق کا احترام کیا جاتا ہے جس کے باعث خواتین کا معیار زندگی بہتر ہے۔ قاسم امین مسلمانوں کی تنزلی کی وجہ یہ دریافت کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں سماجی اقدار کے زوال کی وجہ جہالت ہے، جہالت کا آغاز گھر سے ہوتا ہے ، قاسم امین عورتوں کے حالت بہتر بنانے کے لئے لکھتے ہیں کہ جدید مغربی تعلیم نہ صرف مسلمان عورتوں کی گھریلو زندگی کو بہتر بنا سکتی ہے بلکہ عورتوں کو اس درجے خود انحصار بھی بنا سکتی ہے کہ وہ اپنی معاشی ضروریات بھی پوری کرسکیں، صرف اسی صورت ان کا استحصال ختم ہوسکے گا اور وہ پردے کی پابندی سے آزاد ہوجائیں گی۔ خواتین کو زندگی کے معاملات سے الگ رکھنا ضرر رساں ہے جس کا مطلب ہے کہ ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، مرد ان کا احترام اس لئے نہیں کرتے کہ وہ عورتوں کو مکمل انسان تصور نہیں کرتے۔
قاسم امین کے مطابق کثرت ازدواج کی اساس بھی عورت کا فقط جنسی تسکین کا کھلونا سمجھا جانا ہے۔ ان کے مطابق کوئی عورت یہ نہیں چاہتی کہ اس کا شوہر کسی اور عورت کے پاس جائے ، قاسم امین طلاق کے تصور کو بھی قابل نفرت بتاتے ہیں ان کے مطابق خواتین کو بھی مردوں کے مساوی حقوق ملنے چاہیئے۔
المرأة الجدیدة (جدید عورت) The New Women کتاب دراصل جدیدیت اور تصور انسانیت پرستی کے human ideals پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتی ہے۔
چونکہ اسلامی ممالک میں آزادی نسواں کی صداے بازگشت سب سے پہلے مصر میں ہی شروع ہوئی ، پھر کہیں جا کر اس کا رخ ترکی، ایران اور افغانستان تک پہنچا۔ مصر میں خصوصی طور پر تحریک ِآزادی نسواں نے خدیو اسماعیل پاشا کے عہد ِحکومت (1863ء تا 1878ء) میں زور پکڑا اور عورتوں کے لئے جدید مغربی طرز کے سکول کھلنے لگے۔ آزادی کی اس تحریک میں جو بعد میں مزید پھیلی، قاسم امین کو عرب دنیا میں تحریک آزادی نسواں کی بنیاد پر مُحرِّرالمرأة (عورت کو آزادی دلانے والا) کا خطاب دیا گیا تھا.
قاسم امین نے آزادی نسواں کی تائیدو حمایت میں دو کتابیں تحریر المرأة (عورت کی آزادی) اور المرأة الجدیدة (جدید عورت) The New Women تصنیف کیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں