ت یا ٹ (17)۔۔وہارا امباکر

ایک عربی “ت” اور “ٹ” کی آواز کو “ت” سمجھتا ہے۔ ایک انگریز ان دونوں آوازوں کو “ٹ”۔ انہیں اپنے ماحول سے خواہ ہر قسم کی آوازیں ملتی رہیں، یہ ویسا ہی رہتا ہے۔ اس بظاہر سادہ سی لگنے والی صلاحیت میں یہ فرق کیوں ہے؟

کیا کبھی ایسا تجربہ ہوا کہ احساس ہوا ہو کہ جیب میں پڑے موبائل فون پر وائبریشن ہوئی ہے اور چیک کرنے پر پتا لگا ہو کہ موبائل تو جیب میں ہی نہیں۔ جسم کا دیا گیا یہ دھوکا اکیسویں صدی سے پہلے تھا ہی نہیں۔ ٹانگ میں spasm یا ارتعاش محسوس ہونے کو دماغ ترجمہ کر کے فیصلہ کرتا ہے کہ موبائل فون پر کوئی آپ کو رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بیسویں صدی میں اگر ایسا ہوتا تو شاید ایسا لگتا کہ کیڑا ٹانگ پر بیٹھا ہے یا کسی شخص نے چلتے ہوئے آپ کو غلطی سے چھوا ہے۔ ایک نسل سے اگلی میں یہ تبدیل کیوں ہو گیا؟ کیونکہ ایک احساس کی ایک اور وضاحت ذخیرے میں آ گئی جو زیادہ معقول لگتی تھی۔
اس کو سمجھنے کے لئے دماغ کو ایک پہاڑی زمین کی طرح کا تصور کر لیں۔ ایک بارش کے قطرے نے جھیل تک پہنچنا ہے۔ اس کے لئے اس قطرے کو عین جھیل کے اندر گرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ پہاڑی میں کہیں پر بھی گر سکتا ہے۔ یہ پہاڑی میں جہاں پر بھی گرے، پھسلتا ہوا جھیل تک پہنچ جائے گا۔ اسی طرح ران پر ہونے والے احساس کو عین موبائل فون کی وائبریشن کی طرح ہونے کی ضرورت نہیں۔ پتلون کا سرکنا، صوفے سے مس ہونا، ران کے پٹھے کا پھڑکنا ۔۔ یہ سبھی احساس کی اس جھیل تک لے جا سکتے ہیں کہ موبائل پر پیغام آیا ہے۔ جو زندگی میں اہم ہے، وہ اس پہاڑی علاقے کے نشیب و فراز تراشتا ہے۔
اس کی ایک مثال کے لئے اس پر غور کریں کہ آپ بولی کو کس طرح سمجھتے ہیں۔ آپ مانوس زبان سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن غیرمانوس کی آوازیں بھی الگ نہیں کر پاتے۔ لیکن کیوں؟ اس لئے کہ یہ زبانیں بولنے والوں کے دماغ کے نقش آپ سے مختلف ہیں۔
لیکن نہ ہی وہ اپنے نقش لے کر پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اور نہ ہی آپ اپنے نقش لے کر پیدا ہوئے تھے۔
انسان اپنے منہ سے کیسی آوازیں نکال سکتے ہیں؟ یہ تو بے شمار ہیں اور ایک تسلسل میں ہیں۔ لیکن آپ اپنے تجربے سے سیکھتے ہیں کہ ایک خاص آواز کا وہی مطلب ہے، خواہ وہ آپ کے والد ادا کریں یا آپ کا دوست یا آپ کے استاد۔ کھینچ کر کہی جانے والی “ی” ہو یا جلدی میں ادا کی جانے والے “ی”۔ لکھنوٗ کا لہجہ ہو یا پشاور کا۔ بولے جانے والے لہجوں کے فرق آوازوں کے فرق ہیں لیکن یہ ہمیں کنفیوز نہیں کرتے۔ قسم قسم کے تلفظ رکھنے والوں کی بات سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ نیورل نیٹورک میں وہ نشیب و فراز تراشے جا چکے ہیں کہ ان پر پڑنے والے قطرے لڑھک کر جھیل تک پہنچ جاتے ہیں اور ہم ان کے معنی وہی اخذ کر لیتے ہیں۔
وقت کے ساتھ، آپ کے نشیب و فراز اس سے بہت مختلف ہوں گے، جس نے زندگی میں کوئی اور بولی سیکھی ہے۔
فرض کیجئے کہ ہاباشی جاپان میں پیدا ہوا ہے، سعید پاکستان میں۔ ہاباشی “ر” اور “ل” میں تفریق نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں رہنے والے کے لئے یہ دونوں آوازیں مختلف ہیں اور مختلف معنی رکھتی ہیں۔ سعید کے دماغ کے نشیب و فراز میں “ر” اور “ل” کے درمیان پہاڑی بن گئی ہے۔ ہاباشی کے لئے یہ دونوں آوازیں ایک ہی معنی رکھتی ہیں اور وہ ان کے درمیان تفریق نہیں کر پاتا۔
ظاہر ہے کہ بچے یہ دماغ پیدائشی طور پر لے کر پیدا نہیں ہوئے ہوتے۔ بولی کی یہ تراش خراش عمر کے ابتدائی حصے میں ہونے لگتی ہے۔ اس وقت جب انہوں نے بولنا بھی نہیں سیکھا ہوتا۔ بچوں پر تجربات یہ بتاتے ہیں کہ چھ ماہ کا بچہ “ر” اور “ل” میں تفریق کر سکتا ہے۔ بارہ ماہ کی عمر میں ہاباشی یہ صلاحیت کھو دے گا۔ اس کا دماغ ان دونوں کو ایک ہی آواز کے طور پر سننے لگے گا۔ سعید کا دماغ اپنے ماحول سے ہزاروں الفاظ سنے گا جس میں یہ دونوں الگ الگ ہیں اور وہ ان کے درمیان تفریق کرنے لگے گا۔ جبکہ دوسری طرف ہاباشی کئی دوسری طرح کے فرق پہچانتا ہو گا جو سعید کو ایک ہی جیسے لگتے ہیں۔ سننے کے سسٹم نے اپنا آغاز ایک ہی طریقے سے کیا تھا اور اپنی وائرنگ اس طریقے سے بنا لی کہ وہ اپنے گرد بولے جانے والی آوازوں کو پہچاننے کے لئے ڈھل جائے۔
اسی طرح آپ موبائل فون کے وائبریشن کو ڈیٹکٹ کرنے کی صلاحیت پیدائشی نہیں رکھتے تھے بلکہ نیورل لینڈ سکیپ میں اس کی اہمیت اس کو پکڑنے لگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا بار بار دہرایا جانا اور مسلسل کی جانے والی پریکٹس اس بات کی اصل کنجی ہے کہ دماغ کا سرکٹ کیسا ڈھلے گا؟
نہیں، اس کے پیچھے کارفرما اصول اس سے زیادہ گہرا ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments