میرا ایک دوست ہے۔ حال ہی میں اُس کو سرکاری ملازمت ملی ہے۔ کچھ دن پہلے وہ گاوں چھٹی پر آیا ہوا تھا۔ رات کو بیٹھے باتوں باتوں میں شادی کے بارے میں بات ہونا شروع ہوگئی تو میں نے پوچھا کہ تم بتاؤ تمہارا کب شادی کا ارادہ ہے اور کیا ڈیمانڈز ہیں جناب کی۔ اُس نے کہا کہ ڈیمانڈ کیا ہونی ہیں بس اتنا ہے کہ گاڑی نہیں تو بڑا موٹر سائیکل (125CC) تو ہونا چاہیے، گھر کا جو سامان ہے (فرنیچر،برتن وغیرہ) وہ تو اپنی بیٹی کو دینا ہی ہے، سب دیتے ہیں۔
اچھا تو یہ بتاؤ زیورات کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔کچھ خاص نہیں بس اتنا ہے کہ راڈو کی گھڑی ہو جائےاور ایک انگوٹھی۔ امی کو سونے کی چوڑیاں اور ابو کو انگوٹھی، باقی جو دینا ہے اپنی بیٹی کو دیں ہمیں اُس سے کوئی غرض نہیں۔اس سے زیادہ مجھے اور نہ گھر والوں کو کچھ چاہیے۔
میں نے پوچھا کہ حق مہر کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟۔۔کہنے لگا وہ لڑکی کا حق ہوتا ہے مذہب نے خود اس کے بارے میں بات کی ہے۔
اپنا حق تو تم نےبڑی شدومد سے بتا دیا جو کہیں بھی نہیں لکھا۔
موصوف نے بڑے شاہانہ انداز میں کہا کہ حق مہر وہی جو شریعت نے مقرر کیا ،یہی کوئی بتیس یاں چھتیس روپے بنتے ہیں(قرآن نے اور شریعت نے کہیں بھی اس کو مقرر نہیں کیا اسلام نے حق مہر کو وقت اور فرد کے حالات پر چھوڑ دیاہے) وہ دیں گے، کیوں نہیں دینے۔
میں نے کہا،حق مہر کی باری تو آپ کو شریعت یاد آگئی ہے۔ پہلے جو آپ نے اتنی تمہید باندھی ہے وہ کس شریعت میں لکھا ہوا ہے۔
کونسی غلط بات کی ہے میں نے جو کچھ بولا ہے اتنا تو آج کل عام ہے ہرکوئی دے رہا ہے۔ میں نے کہا کہ پھر شراب پینا، بدکاری کرنا، رشوت لینا وغیرہ یہ بھی آج کل عام ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ سب کچھ بھی درست ہے(اُس نے نفی میں سر ہلایا)۔
جو چیز عام ہو اس کامطلب یہ نہیں کہ وہ درست بھی ہے۔جناب کی طبیت کو اگر برا نہ لگے تو کچھ عرض کروں، یہ جو جہیز ہے در اصل مرد کی مردانگی کے خلاف ہے ویسے تو ہم بہت مردانہ وار گفتگو کرتے ہیں۔ میں نے مختلف لوگوں کو کہتے ہوئے بھی سنا ہے اور بہت جگہوں پہ پڑھا بھی ہے کہ جہیز ایک لعنت ہے اس کو ختم ہونا چاہیےاور اس کے خاتمے کے مختلف طریقے بھی بیان کیئے جاتے ہیں۔میرے نزدیک اس کا ایک ہی حل ہے کہ مرد حضرات , جنہوں نے شادی کرنی ہے وہ اس کے خلاف ہوجائیں اس کو اپنے لیے باعثِ توہین سمجھیں اس طرح یہ جہیز اس معاشرے میں ختم ہوسکتاہے۔مرد اپنا گھر بسا رہا ہے عورت کو اپنے گھر میں لے کے آرہاہے۔ اس لئے مرد کو چاہیے کہ پہلے چاردیواری کا اہتمام کرے اور گھر میں ضروریاتِ زندگی کی جو چیزیں ہے اُن کا بندوبست کرے پھر شادی کرے کیونکہ یہ اسلام نے چادر چاردیواری اور نان نقہ کی ذمہ داری مرد پہ ڈالی ہے نہ کہ عورت پر۔ ایک اور چیز جو دیکھنے میں آئی ہے لوگ لڑکی لینے کے لیے نہیں بلکہ فتح کرنے کے لئے جاتے ہیں سینکڑوں کی تعداد میں براتیوں کو ساتھ لے جاتے ہیں اسطرح لڑکی والوں کا کھانے کاخرچہ ہی لاکھوں میں چلاجاتاہے۔ یہ درست ہے کہ آپکے رشتہ دار کثیر تعداد میں ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ لڑکی والوں کا عرق نکال دیں اگر لڑکی والوں کے حالات اجازت دیتے ہیں تو ٹھیک ہے نہیں تو آپ اُن کو ولیمہ پر بھی راضی کر سکتےہیں۔چلیں یہ تو میرے خیالات ہیں اگر آپ کو برے لگے ہیں تو معذرت، آپ یہ بتاؤکہ اور کتنے دن کی چھٹی باقی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں