پاکستان میں گیس کا بحران۔۔فیصل ولی خان

میں نے پنجاب یونیورسٹی سے کیمیکل انجینئرنگ کی ہوئی ہے اور میرے بہت سے دوست انجینئرنگ کے بعد تیل اور گیس کی کمپنیوں میں کام کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ مختلف ذرائع  سے  رابطہ رہتا ہے۔ ماشااللہ  وہ ہمیشہ رہنمائی فرماتے ہیں اور میرے  احمقانہ  سوالات کو برداشت بھی کرتے ہیں اور ان کا جواب بھی ارسال کرتے رہتے ہیں۔ اس آرٹیکل کیلئے بھی کچھ دوستوں نے مدد کی ہے ان کا شکر گذار ہوں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آجکل میڈیا پر گیس کے بحران پر ایک بحث چل رہی ہے اور کچھ اینکرز صاحبان یہ ثابت کرنے میں لگے ہیں کہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے اربوں کا نقصان ہو گیا ہے۔

اس طرح کی بحث اس حکومت کے شروع کے دنوں میں بھی دیکھنے کو ملی تھی جب “عجب کرپشن کی غضب کہانی” سنانے والوں نے شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی ٹرمینل میں اربوں کا نقصان پہنچانے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ یہ کہانیاں سنانے والے اپنے ناظرین کو اتنا اچھا “محصور” کرتے ہیں کہ میرے یونیورسٹی کے ایک سینئر ہیں اور ان سے بہت احترام کا رشتہ ہے۔ وہ دنیا کی ایک بڑی تیل کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے وہ ویڈیو مجھے بھیج دی کہ “دیکھو پٹواریو تمہارے چور لیڈروں نے اس ملک کو کیسے لوٹا ہے”۔ انتہائی ادب سے انکی خدمت میں عرض کی کہ موصوف اینکر کو تو اس بات کا معلوم ہی نہیں کہ ایل این جی ٹرمینل کا مقصد کیا ہوتا  ہے اور اس پر کون سی مشینری نصب ہوتی ہے۔ وہاں کا سٹاف کتنا کوالیفائی ہونا چاہیے اور اس سب کو چلانے کے لیے جو “Operations and Maintinance cost” چاہیے ہوتی ہے۔ جس کا  اس تمام تجزیے میں ذکر ہی نہیں تھا! اب آپ یہ سوچیں میرے بھائی جو اس سے ملتی  جلتی  فیلڈ میں کام کرتے ہیں اور وہ ایسے اینکرز کی شیریں زباں میں آ کر “ڈاکو ڈاکو” کے نعرے لگانا شروع کر دیں تو عام آدمی کا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔

ایسا ہی کچھ معاملہ آجکل بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایک اینکر ہر روز ہمیں یہ بتانے میں مشغول ہیں کہ حکومت نے “ بہت دیر” سے گیس منگوائی ہے۔ جس کی وجہ سے ہمیں اربوں کا نقصان ہوا ہے۔ اگر آپ اس تھیوری کو ایک منٹ کے لیے درست بھی مان لیں تو پھر بھی صحیح وقت کا تعین  کرنا ضروری ہے۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ خان صاحب نے اپریل ۲۰۱۹ میں اس وقت کے وزیر چودھری غلام سرور کو دسمبر ۲۰۱۸ سے مارچ ۲۰۱۹ تک کے گیس بحران کا ذمہ دار ٹھہرا کر فارغ کیا تھا۔ اگر اس وقت نئے وزیر صاحب گیس کی ترسیل کو یقینی بنانے کے لیے طویل مدتی معاہدہ (پانچ سال) کرتے تو وہ اس وقت کی گیس قیمت پر ہونا تھا۔ اب اندازہ کریں کہ پھر آج ہمیں کتنا نقصان ہونا تھا؟ کیونکہ اپریل ۲۰۱۹ میں ایل این جی کی قیمت تقریباً 6$/MMBtu اور کوڈ کی وجہ سے 4$/MMBtu تک بھی آگئی تھی۔ اپریل ۲۰۱۹ میں کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ گیس کی قیمت کم بھی ہو سکتی ہے اور اسی طرح جولائی ۲۰۲۰ میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ گیس کی قیمت اگلے کچھ ماہ میں بڑھے گی یا کم ہو گی۔ لہذا اگر حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ گیس کی عالمی دنیا میں اترتی چڑھتی قیمتوں کی وجہ سے کسی لمبے عرصہ کے معاہدے میں جانے کی بجائے اپنی ضرورت کے مطابق ایل این جی دنیا میں کسی سے بھی کم قیمت پر خرید سکتے ہیں تو اس میں کیا غلط ہے؟ خاص طور پر جب اس سے پچھلی حکومت نے لمبے عرصہ کا معاہدہ کیا اور کروڈ آئل کی قیمتیں گرنے سے اپوزیشن کی شدید ترین تنقید کا نشانہ بنے۔ دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ جرنلزم پڑھے یہ صحافی صاحبان جب بھی سائنس اور انجینئرنگ سے متعلق رپوٹنگ کرتے ہیں تو مجموعی طور پر جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔ ابھی تک ہم سب کو یاد ہے کہ کیسے ہم نے پانی سے گاڑی چلا کر پوری دنیا کو “حیران” کر دیا تھا۔ مگر ہم حکومت سے اپنی محبت یا نفرت میں ان باتوں کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے اس پر فوراً  یقین کر لیتے ہیں۔

ایک اور بات جو آپ اکثر سنتے ہیں کہ ہم اگر فلاں ملک سے گیس لیں تو وہ سستی ہوگی۔ تو برائے مہربانی اس نقطہ کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اہم درآمدات جن پر آپ کے ملک کی معیشت کا دارومدار ہوتا ہے انکی ترسیل کو ہمہ تن یقینی بنانے کیلئے ملک اپنی خارجہ پالیسی کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں۔ اس لیے کچھ معامالات پر حکومت کھل کر اپنا موقف دینے سے قاصر ہوتی ہیں اور اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ ایسے معاملات کو ملک کے وسیع تر مفادات میں دیکھتے ہوئے نہ اچھالا جائے۔ ماضی میں تو یہ ہی ہوتا رہا ہے لیکن کم از کم مستقبل میں بہتر حکمت عملی اختیار کی جائے۔

اب آئیے گیس کی قیمت سے متعلق خدشات کا ذکر بھی کر لیتے ہیں۔ کچھ دیر کیلئے آپ اسد عمر کی ۲۰۱۷ کی مشہور بجٹ تقریر کو بھول جائیے جس میں انہوں نے قوم کو بتایا تھا کہ نواز حکومت سستی گیس مہیا نہ کر کے ظلم کر رہی ہے۔ خیر انہوں نے وزیر بنتے ہی گیس کی قیمتیں بڑھا کر اپنی غلط بیانی کی تلافی تو کر ہی دی تھی۔ لیکن آج بھی حکومت گھریلو صارفین کو گیس پر تقریباً ۲۸ بلین روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔ اب جب سردیوں میں گیس کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے تو حکومت کو سبسڈی کی مد میں ایک اچھی خاصی اضافی رقم کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف پہلے ہی حکومت کو گھریلو صارفین سے اصل قیمت وصول کرنے کا کہہ رہی ہے۔ آج ایک گھریلو صارف اوسطً ۷۰۰ روپے ماہانہ گیس بل کی مد میں ادا کرتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق صارفین کو اس سے دوگنا بل ادا کرنے ہوں گے۔ تاہم حکومت کو اس سمت میں کوئی ٹھوس اقدام لینے سے پہلے گیس چوری کو بہرحال سختی سے روکنا ہو گا۔ اکثر صنعتی صارفین گیس چوری کے معاملات میں ملوث ہیں اور میری معلومات کے مطابق اس پر ابھی تک پی ٹی آئی کی حکومت نے کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں آپ کو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ ممالک جو تیل اور گیس میں خودکفیل ہیں وہ بھی تیزی سے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کی جانب گامزن ہیں۔ وہاں بڑے پیمانے پر شمسی توانائی کے استعمال سے بجلی کے منصوبے اور اس بجلی سے پانی کے مالیکیول کو توڑ کر ہائیڈروجن حاصل کیے جانے کے منصوبے لگائے جا رہے ہیں۔ ہائیڈروجن کو مستقبل میں توانائی کا اہم جزو سمجھا جا رہا ہے۔ آپ نے ہائیڈروجن سے چلنے والی کاریں تو دیکھ ہی لی ہوں گی۔ اس بات پر تحقیق کی جا رہی ہے کہ ہم ہائیڈروجن کو امونیا کے ساتھ ملا کر کیسے بذریعہ سمندر اسکی سستی ترسیل ممکن بنا کر اپنی برآمدات میں اضافہ کر سکتے ہیں! اس کے برعکس ہمارے میڈیا میں لوگوں کو بتایا جا رہا ہے کہ آپ “کرپشن” کی انتہا دیکھیں کہ ہمارا قائداعظم سولر پارک رات کو بجلی ہی پیدا نہیں کرتا ہے تو پھر ایسے منصوبوں کا کیا فائدہ ہے؟ پچھلے دنوں اپنے تئیں عقل کُل بنے ایک اینکر بتا رہے تھے کہ پاکستان میں نئے شمسی منصوبے پہلے کے مقابلے میں اب آدھی قیمت پر لگ سکیں گے اور آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ پہلے حکمرانوں نے کتنی کرپشن کی ہے؟ موصوف کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ پوری دنیا میں پچھلے دس سال میں شمسی توانائی کی قیمت میں ۸۰ فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ جس کی بڑی وجہ ٹیکنالوجی کی جدت، پینل کا معیار اور لیولایزڈ کاسٹ (پراڈکٹ کی لائف کے مطابق قیمت) کا انعقاد ہے۔ لہذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے ارباب اختیار مل بیٹھ کر ایک واضح توانائی پالیسی تشکیل دیں جس میں طویل المعیاد جدید منصوبے بھی شامل کیے جائیں۔اس کے ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کو اپنے تھینک ٹینک تشکیل دینے چاہیے ہیں۔ جن میں انجینئرنگ اور سائنس سے متعلق نئی تحقیقات پر نظر رکھی جائے اور اُن کی روشنی میں پارٹی منشور تشکیل دئیے جائیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply