مشن۔۔اے وسیم خٹک

غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے شہر کے پوش علاقے میں قائم ایک بڑے ہوٹل میں سیمینار ہورہا تھا۔ جس کا عنوان تھا” غیرت پر خاتون ہی قتل کیوں؟۔ مرد کیوں نہیں” ۔ مقرر ملک کا جانا مانا ایکٹیویسٹ تھا۔ وہ جس غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خاتون کے کیس کو چوکوں اور چوراہوں پر لاتا، لوگ حیران رہ جاتے۔ اور وہ خاندان کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ ریپ کیسز کے حوالے سے بھی اُس نے بہت زیادہ کام کیا تھا۔ ملک کے بہت سے کیسز کو اس ایکٹیویسٹ کی وجہ سے پذیرائی ملی اور وہ میڈیا میں بہت دیر تک ان رہا ۔ جس کے بعد حکومت کو بھی اس حوالے سے قوانین بنانے پڑے۔ وہ خواتین کے حوالے سے کوئی بھی فنکشن ہوتا، اُس کے فیکٹ اینڈ فگرز میڈیا کی  خبر بن جاتے۔ وہ کوئی نہ کوئی معلومات اپنی  تقریروں میں اس طرح دے دیتا، کہ وہ بریکنگ نیوز بن جاتی ۔

اُس دن بھی وہ اسی موضوع پر ملک بھر سے آئے ہوئے مہمانوں کو خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کے حوالے سے معلومات دے رہا تھا، کہ صوبہ خیبر پختونخوا  میں ہر سال سات ہزار کے قریب خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوجاتی ہیں ۔ یہ وہ ریکارڈ ہے جو کہ مختلف ذرائع سے اکٹھا کیا گیا ہے ۔ جبکہ تعدا د اس کے برعکس ہے ۔ کیونکہ ہزاروں واقعات رجسٹرڈ نہیں ہوتے۔ لوگ تالیاں بجا کر اُسے داد دے رہے تھے۔کیا غیرت صرف خواتین تک ہی محدود ہے جس پر ہم آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور انسانیت کاجنازہ نکال دیتے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ جو حرکت ہم سے سرزد  ہورہی ہے ۔ اس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ جنگل میں کوئی قا نون نہیں ہوتا ۔ وہاں اس طرح ہوتا رہتا ہے ، کمزور کو طاقتور شکنجے میں کس لیتا ہے ، مگر جہاں پر قانون ہو، وہاں اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا اور اسے اپنی پگڑی اور غیرت کا نام دینا، میرے خیال میں تو سب سے بڑی بے غیرتی ہے ۔اور یہ اب کی بات نہیں ،زمانہ جاہلیت سے یہ کچھ ہوتا آرہا ہے ۔ جب بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔

وہ کہہ رہا تھا کہ ملک بھر میں خواتین ہی غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں، کبھی کسی نے یہ خبر سنی ہے کہ غیرت کے نام پر بھائی قتل ہوگیا ہے ۔ کیا صرف خاتون ہی غیرت کے نام پر قتل کے لئے پیدا ہوئی ہے ۔ کوئی ایک مثال دو میں تقریر کرنا چھوڑدوں گا اور اپنا پیشہ چھوڑ دوں گا۔ سارے لوگ خاموش تھے میڈیا والے اُس کی خبر کو شہ سرخیوں میں چلا رہے تھے ۔ اس دوران اُسے کال موصول ہوتی ہے وہ تھوڑی دیر کے لئے تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے اور پانی پینے لگتا ہے ۔ تالیوں کی گونج میں وہ فون نکال کر کسی سے بات کر لیتا ہے ۔اور دوبارہ تقریر شرو ع کردیتا ہے ۔ جب وہ ڈائس چھوڑتا ہے تو اس دوران اس کے موبائیل پر پیغام آتا ہے جس پراُس کے چہرے پر طمانیت آجاتی ہے اور وہ تقریر کا خاتمہ اس شعر پر کرتا ہے کہ

بہن ہی قتل ہوتی ہے غیرت کے نام پر،

بھائی کسی نے قتل کیا ہو کوئی مثال دو!

Advertisements
julia rana solicitors

اورہال ایک دفعہ پھر تالیوں سے گونج  اٹھتا  ہے۔ہوٹل سے روانگی کے وقت اس نمبر پر کال کردیتا ہے ۔ جس سے پیغام آتا ہے کہ کام ہوگیا ہے ۔ وہ کال ملادیتا ہے کہ بولیں کیا اپڈیٹ ہے، میں سیمینار میں تھا۔ سر آپ کی بہن کو اُس بندے کے ساتھ ہی قتل کردیا ہے ،فکر کی کوئی بات نہیں ہے ۔ لاش اب ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کے لئے لیجائی   جارہی ہے۔ اس دوران اسے گھر سے کال آتی ہے کہ تمھاری بہن کو کسی نے قتل کردیا ہے جلدی ہسپتال پہنچو ۔ہسپتال میں میڈیا والے اُس سے سوال کرتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے کہ میں نے کتنے لوگوں سے دشمنیاں پالی تھیں ۔ لازم تھا کہ میں اس میں اپنی بہن یا کوئی اور عزیز کو کھودیتا۔ اور آج میں نے اپنی جان سے پیاری بہن کو کھودیا ہے مگر وہ عناصر سن لیں کہ کوئی بھی طاقت مجھے خواتین کے حقوق اور غیرت کے نام پر قتل کرنے کرانے والے عناصر ،مجھے اپنے مشن سے نہیں ہٹا سکتے۔۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply