اِک معجزہ میری زندگی کا ۔۔سلمیٰ اعوان

ہاتھ کی لکیریں دیکھنے کا عشق کب شروع ہوا؟ماضی کو کھنگالنے اور اس میں اوپر نیچے دبی یادوں کی گٹھڑیوں میں پھولا پھرولی سے وہ صبح آنکھوں کے سامنے آ گئی تھی، جب ہم نصف درجن لفنگی دوستوں کا ٹولہ کالج گراؤنڈ میں بیٹھا تھا۔
مجھے یاد نہیں۔ شاید کسی بات پر ہاتھ لہرایا ہو گا۔صوفیہ نے یکدم میرے دائیں ہاتھ کو پکڑ کر آنکھوں کے سامنے کیا اور صرف چند لمحے اُسے بغور دیکھنے کے بعد گویا ہوئی۔
”کمبخت یہ توُ آئن سٹائن کی ماں کہاں سے پیدا ہو گئی ہے؟“
اُس کے چہرے کی سنجیدگی اور اُس کے انداز اس درجہ ڈرامائی سے تھے کہ پورا ٹولہ بشمول میرے سنجیدہ ہو کر اُس کا چہرہ تکنے لگا۔ ”دیکھو! دیکھو! اس کی دماغ کی لکیر۔“ اُس نے میری ہتھیلی اُن سب کے سامنے پوری طرح کھول دی۔ صاف ستھری،گہری اور سُرخی سے بھری ہوئی اُوپر کی انتہا سے شروع ہو کر نیچے کی انتہا میں گھُس گئی ہے۔
”ارے گھُنّی کہیں کی؟ تمہیں ہاتھ دیکھنا آتا ہے۔ بتایا کیوں نہیں اب تک؟
بھئی میرا چھوٹا چچا اس علم کا بڑا ماہر ہے۔ ایک ہی گھر میں رہنے کی وجہ سے اکثر و بیشتر مجھے اُن سے تھوڑی بہت جانکاری ملتی رہتی ہے۔
”تم سٹوڈنٹ تو کوئی غیر معمولی نہیں ہو۔ پر ایسی لکیر تو جینئیس 1.25 ملین سیل کے حامل لوگوں کے ہاتھوں پر ہی ہوتی ہے۔“

سچی بات ہے اُس نے مجھے میری ذات کے ایک پوشیدہ پہلو سے متعلق تحیّر بھرے انکشاف سے دوچار کر دیا تھا۔ اور یہ کیسی عجیب سی بات تھی کہ جب میں اُٹھی مجھے خود میں ایک انفرادیت نما بڑے پن کا احساس ہوا تھا۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے اس علم کو سیکھنے کا فیصلہ کیا۔
ایک جوانی،شوریدہ سر جذبوں کی فراوانی، اوپر سے کسی خصوصی ٹیلنٹ کی دریافت،آسمان کو تو تُگلی لگانے کو جی چاہتاتھا۔
اب کتابوں کی تلاش تھی۔ اللہ مارے مُنشی عالم اور مُنشی فاضل کی سان پر چڑھے میرے گھرانے میں کتابوں کی یقیناً کوئی کمی نہ تھی۔ اس موضوع پر ایک آدھ نسخے کا مل جانا کوئی مشکل امر نہ تھا۔ ملا۔ پڑھا۔ پیاس بڑھی۔اس مخفی علم کے تھوڑے سے اسرار کُھلنے پر ہل من مزید کا مطالبہ ہوا۔
کیرو کی Language of the Hand کے بعد اس علم کی Lover نوئل جیکوئن کی Palmistry Practical تلاش کی۔ کومٹ کو پڑھا۔ مطالعہ نے مجھے بتا دیا تھا کہ میرا ہاتھ قطعی غیر معمولی نہیں۔ فطین لوگوں کی دماغی لکیر کے ساتھ ساتھ بے شمار دیگر علامات کا ہونا ضروری ہے۔
پر اِس انکشاف نے مجھ پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ مجھے چسکہ لگ گیا تھا۔ٹکا ٹکا سنبھالتی اور اس شوق کی بھینٹ چڑھاتی۔

پھر ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے مجھے دہلا دیا۔
یہ جاتی بہاروں کی ہی ایک شام تھی۔ ہم سب کزنز اپنے آنگن میں آگ پر ہولیں (کچے چنے کے پودے) بھونتے تھے۔ جب ہماری اماں گھر میں داخل ہوئیں۔ بلند آہنگ آواز میں ”سبحان اللہ، سبحان اللہ“ کہتے ہوئے وہ گویا ہوئیں۔
”مولوی صاحب چترال اپنے گاؤں سے دُلہن بیاہ کر لائے ہیں۔ مانو جیسے سُلفے کی لاٹ ہے۔ کمرے میں بیٹھی جگمگ جگمگ کرتی ہے۔“
ہمارے محلے کی مسجد کے ادھیڑ عمر مولوی، صاحب علم، صاحب ایمان اور صاحب کردار انسان تھے۔
میں نے کالک میں لُتھڑے اپنے ہاتھ منہ صاف کیے اور اُنکے حجرے کی طرف بھاگی۔ سُرخ اوڑھنی میں اُس کے سنہری بالوں میں جیسے آگ سی لگی ہوئی تھی۔ ایسی نشیلی، ہری کچور شفاف بولتی آنکھیں کہ جن میں ڈوب جانے کو جی چاہے۔ رعب حُسن سے میری بولتی کو سانپ سونگھ گیا تھا۔
تھوڑی سی اور شناسائی ہونے پر میں نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ عام سا ہاتھ تھا کوئی خاص بات مجھے محسوس نہیں ہوئی تھی۔ جلد ہی اُس کی اُردو خاصی بہتر ہو گئی۔ محلے کی عورتوں سے ہر دم رابطے میں رہتی تھی۔ ایک دن ایک خوبصورت جوان لڑکا وہاں بیٹھے دیکھا جو اُس کا کزن تھا۔ ”ا سکا ہاتھ دیکھو۔“
جونہی میں چٹائی پر بیٹھی اُس نے لڑکے کا ہاتھ میرے آگے کر دیا۔ میں اُسوقت بائیس تئیس (22-23)کے ہیر پھیر میں تھی اورمیرا پامسٹری کا شوق جنون میں بدل کر مجھے ہمہ وقت پاگل کیے رکھتا تھا۔
میں نے ہاتھ پکڑا۔ زندگی کی لکیر تو ٹھیک ٹھاک تھی۔ پر حادثاتی موت کی ایک علامت جسے تھوڑے دن پیشتر میں نے کہیں پڑھا تھا وہاں موجود تھی۔
میں اتنی احمق تو نہیں تھی۔ تو پھر کیا وجہ تھی کہ میں نے چھوٹتے ہی کہہ دیا تھا کہ اسکی عمر تھوڑی ہے۔ یقیناً اسوقت میں نیم ملا خطرہ ایمان اور نیم حکیم خطرہ جان کی تفسیر بنی ہوئی تھی اور اپنے اُس محدود سے علم کی خود نمائی کے اظہار کے لیے بے قرار تھی۔ پامسٹری کے بنیادی اُصولوں کو بھول گئی تھی۔

پھر میرا ڈھاکہ یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا اور میں وہاں چلی گئی۔ اس شوق کا اظہار وہاں بھی کھُل کر ہوا۔جب واپس آئی تو اس پری وش سے ملنے گئی۔ باتیں کرتے کرتے دفعتاً وہ رُکی اور بولی۔
تمہیں یاد ہے میرا وہ بھائی جس کا تم نے ہاتھ دیکھا تھا،مر گیا ہے۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میرا سانس رُک گیا ہے۔ ”کیسے“۔ میں ہکلائی۔
گاڑی چلا رہا تھا۔ پہاڑوں کے ساتھ تنگ کچے راستے پر نیچے گہری گھاٹیاں تھیں۔ گاڑی سمیت لڑھک گیا۔ جیسے کہیں بم پھٹ جائے اور انسان کی دھجیاں اُڑ جائیں۔ میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ وہاں سے اُٹھی گھر آئی پر کیسے؟ سارے میں ہا ہا کار مچی ہوئی تھی۔ وجود جیسے ملامتی فرقہ بن گیا تھا اور ضمیر نے طعن و تشنیع کے تیر و تفنگ کے مورچے سنبھال لیے تھے۔ اس اس انداز میں گولہ باری ہوئی کہ میں دنوں کیا ہفتوں نڈھال رہی۔ میرے شوق و جنوں کے سارے منہ زور جذبوں کو جیسے کسی نے لگام سی ڈال دی۔

پھر انہی دنوں زندگی میں بڑی دلچسپ سی تبدیلی آ گئی۔ شادی کے ہنگاموں نے اس حادثے کی تلخی کو کم کر دیا۔ ایک عجیب سی بات کہ میں نے اپنے شوہر کا ہاتھ دیکھنے کی بالکل کوشش نہیں کی۔ عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کبھی اگر خواہش مچلتی بھی تو لڑکے کی صورت آنکھوں کے سامنے آ کر اُسے گیلا سا کر دیتی۔

میرے ہاں دوسرے مہمان کی آمد آمد تھی جب ملک کے نامور دست شناس جناب ایم۔اے ملک کی کتاب ”ہاتھ کی زبان“ مارکیٹ میں آئی۔ ملک صاحب سے میرا
عقیدت و محبت اور احترام کا رشتہ تھا۔ ہاتھ ہمارے درمیان مشترکہ دلچسپی کا موجب تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ اور اردو ڈائجسٹ کے دفتر میں میری اُن سے لمبی نشستیں جمتی تھیں۔ کتاب انہوں نے اپنے دستخطوں کے ساتھ مجھے بھجوائی۔ اب بھلا مطالعہ کیسے نہ ہوتا؟تفصیلی ہوا۔
اور ایک خوفناک انکشاف نے مجھے لرزا کر رکھ دیا۔

ملک صاحب نے کتاب میں غیر طبعی موت کی آٹھ یا غالباً دس علامات کا ذکر کیا تھا۔ کافی کا مجھے علم تھا پر دو میں نئی دیکھ رہی تھی۔ یونہی میں نے اپنے ہاتھ پر نگاہ ڈالی۔ پل بھر کے لیے مجھے محسوس ہوا جیسے میرے پاؤں مائینز بچھی کسی زمین پر پڑ گئے ہیں اور زبردست قسم کے ایک جان لیوا دھماکے نے مجھے اُٹھا کر منہ کے بل پھینک دیا ہو۔
میں نے آنکھیں ملیں۔ہاتھ کو دوبارہ دیکھا۔ میرے ہاتھوں پر اُن میں سے ایک علامت بڑے واضح انداز میں جگمگا رہی تھی۔ میں باہر تیز روشنی میں بھاگی۔ پھر ہاتھ پر نظریں جمائیں۔ کتاب پر نظریں دوڑائیں۔ پھر بھاگی۔ آٹے کے کنستر میں ہاتھ ڈالے۔ پھونک سے فالتو خشک آٹا اُڑا یااور ہتھیلیوں کو پوری توانائی سے کھول دیا۔ لکیر اور نمایاں ہو گئی تھی۔

یہ صحت کی لکیر تھی۔ پامسٹری کے مطابق صحت کی لکیر اگر دل، دماغ اور قسمت کی لکیروں کو کاٹتی ہوئی زندگی کی لکیر کو چھوتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے تو جس مقام پر یہ زندگی کی لکیر کو کاٹے گی وہی ڈیتھ پوائنٹ ہو گا۔ بے شک لائف لائن کتنی ہی لمبی، صاف سُتھری، گہری اور شوخ کیوں نہ ہو۔
میرے ہاتھ پر میری صحت کی صاف، گہری، شوخ اور لمبی لکیر جس مقام پر میری لائف لائن کو کاٹ رہی تھی پامسٹری کے تعین کردہ وقت کے مطابق وہ پینتیس چالیس سال کا دورانیہ تھا۔
کتابوں کے انبار میں دبی پڑی کیرو اور نوئل جیکوئن کی Secrets of Hand Reading نکالیں۔ یہ علامت اُن میں موجود تھی اور یہ
میرے ہاتھ پر بھی موجود تھی۔

میں حیران تھی یہ علامت اس سے پہلے میری نظروں سے کیوں نہیں گزری؟ مجھے اپنی قابلیت کا کوئی دعویٰ نہیں تھا۔ پر اب میں اس میں اتنی کمزور بھی نہیں تھی۔ مجھے یاد تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے وی سی ابو سعید چودھری اور حسینہ واجد دونوں کے ہاتھ دیکھنے کا بھی مجھے موقع  ملا تھا دونوں کو جوکچھ بتایا تھا وہ آنے والے وقتوں نے درست ثابت کیا۔

اب ذرا پل بھر کے لیے اس صورت حال کے قلب میں جھانک کر سوچیے تو سہی۔ بلندیوں پر کمندیں ڈالنے کے عزائم رکھنے والے کو ایکا ایکی احسا س ہو کہ زندگی کا پٹاخہ چل گیا ہے اور سارے منصوبوں اور ارادوں کی ہوا سے بھرا ہوا غبارہ موت کی نوکیلی سُول کے ایک ہی ہلےّ سے پچک کر لجلجی شکل میں باقی ہے۔

دو سالہ پیاری سی بیٹی میرے سامنے تھی۔ پیٹ میں ایک نیا وجود کد کڑے لگاتا تھا۔ میرے سامنے نہ شوہر تھا نہ گھر۔ میرے بچے،ماں کے بغیر بچے، جیسے میرا کلیجہ پھٹا اور آنسو یوں بہے جیسے صحت مند بکرے کی گردن پر پوری طاقت سے چھُری چل جائے اور خون کے فوارے اُبل پڑیں۔
دل کا موسم ہی باہر کے سارے موسموں کی جان ہے اس کا صحیح ادراک ہی اب ہوا تھا۔ آسمان کی نیلاہٹیں، درختوں کے ہرے کچور رنگ، پھولوں کی خوشبوئیں، خلقت کی ہماہمی اور نفسا نفسی سب جیسے گھنیری اُداسیوں میں لپٹ گئے تھے۔
سوچا۔ ایم۔اے ملک کے پاس جاؤں۔ شاید کہیں کوئی نقطہ، کوئی مربع نما نشان، کوئی مدھم سی مثلث، کوئی ستارہ،کوئی مچھلی کا نشان، کوئی تقویت دیتی لائن جو میری نظر سے اوجھل ہو۔پر جیسے میرا اندر کسی ایسی موہوم امید پر یقین کرنے کو تیار نہ تھاکہ طاقتور مائیکروسکوپ نے ہاتھ کے چہرے کا ایک ایک نقش اُجاگر کر رکھا تھا۔
بایں ہمہ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ”شاید“ آس کی ننھی منی کرن کی صورت میں بھی موجود تھا۔
اُن دنوں ایم۔ اے ملک صاحب نے گڑھی شاہو میو روڈ پر ایک کمرشل بلڈنگ خریدی تھی اور وہ شام کو وہیں بیٹھا کرتے تھے۔ آنسو بھل بھل کرتے میری آنکھوں سے بہنے
لگے تھے جب میں نے اُنہیں تفصیل سنائی۔
”ارے ارے محبت بھرا دلاسہ تھا۔ چلو دیکھتے ہیں۔ گھبراتی کیوں ہو؟“

انہوں نے ہاتھ کا پرنٹ لیا اور تین دن بعد اپنے یونیورسٹی والے گھر میں ہی آنے کا کہا۔مقررہ دن جب میں انکے گیٹ پر کھڑی بیل پر ہاتھ رکھنے ہی والی تھی، کہیں میرے اندر سے آواز آئی۔
اور اگر انہوں نے تمہارے اس خدشے کی تصدیق کر دی تو کیا کرو گی؟، تمہیں خدا پر بھروسہ نہیں کہ وہ تقدیروں کو بدلنے پر قادر ہے۔میرے اندر جیسے طوفان سا آگیا۔ گھنٹی بجانے کی بجائے میں یونیورسٹی کی طرف مُڑ گئی۔ پاؤں میں جیسے پہیے سے لگ گئے۔ کسی تنہا گوشے کی تلاش مجھے اُڑائے لیے جا رہی تھی۔ اُن دنوں یہاں ویرانی اور سناٹا تھا۔ رہائشی گھروں اور یونیورسٹی کے درمیان ایک سنسان جگہ پر میں ڈھیر ہو گئی تھی۔ کتنی دیر سجدے کی یہ صورت رہی۔ کتنا آہوں اور آنسوؤں کا طوفان بہا۔ یہ سب یاد نہیں۔ ہاں کچھ اگر یاد ہے تو بس اتناکہ جب ہوش آیا اور سجدے سے سر اُٹھایا تو سرمئی سا اندھیرا فضا پر چھا رہاتھا۔

تین سال تک میں کانٹوں بھری صلیب پر چڑھی رہی۔
تقدیر اٹل ہے۔ لکھا ہوا نہیں ٹلتا۔ ہونی ہو کر رہتی ہے۔ جیسے الفاظ کہیں پڑھتی یا سُنتی تو جیسے وحشت یوں طاری ہوتی کہ آگ لگ جاتی۔ کوٹھے کے بنیروں کو چھُوتے شعلے جیسے سب کچھ جلا کر خاکستر کرنے پر مائل ہو جاتے۔ گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا۔ باہر نکل جاتی۔ گھر سے دور کسی ویران سے پارک کے کسی کنج میں بیٹھ جاتی۔ نگاہیں فضائے بسیط کی لا محدود وسعتوں کی جانب اُٹھتیں اور میں شکست خوردہ آواز میں اُس سے مخاطب ہوتی۔
”ٹُنڈا ہے تو۔ لنگا لولا ہے۔ قلم ٹوٹ گیا ہے تیرا۔ سیاہی خشک ہو گئی ہے۔ اتنا مجبور اتنا بے بس۔ کیسا رب ہے تو۔ ایسے مجبور اور بے بس رب کو میں تو نہیں مانتی۔
پھر جیسے دریا میں طُغیانی آ جائے۔ میری آواز گلو گیر ہو جاتی۔ سارے جہاں کی چاہت اور محبت لہجے میں اُمڈ آتی۔ ارے میرا رب تو جہانوں کا بادشاہ، کائنات کا مالک،
لوح وقلم کا وارث۔ میں اُس کے دروازے سے خالی ہاتھ جاؤں۔ نہیں نہیں یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟ میرا سارا وجود جیسے مجسم نفی ہو جاتا۔ مُو مُو میں سے نہیں نہیں کی آوازیں اُٹھتیں۔ سسکیوں سے جسم لرزتا تڑپتا۔ گھنٹوں گزر جاتے۔ پھر جب اُٹھتی تو یہ ضرور کہتی۔

تو نے اگر مجھے زندگی دان نہ کی تو یہ تیرے لیے بھی کس قدر شرمندگی کی بات ہو گی؟ پھر دھیرے دھیرے جیسے اُس کا احساس اُس کا خیال میرے اندر کسی وجود کی طرح حلول کرتا گیا۔ میں محفل میں ہوتی اور پل بھر میں غائب ہو جاتی۔ اُس کے پاس پہنچ جاتی۔ یا اُسے اپنے پاس بٹھا لیتی اور اُس سے باتیں شروع ہو جاتیں۔ اُس نے ایک ایسے محبوب کا روپ دھار لیا تھا۔ جو میرے ہر احساس پر حاوی ہو گیا تھا۔

ٹیگور کے گیت۔ حافظ اوراقبال کی شاعری۔ فلمی گانے سبھوں میں میں اُسے فوکس کر لیتی۔ روٹھے ہو کیوں؟ تم کو کیسے مناؤں پیا؟ بولو نا۔ ٹپ ٹپ آنسو گرتے اور کپکپاتے ہونٹ دُہراتے۔ بولو نا۔ بولونا۔
باغوں کے ویران کُنجوں سے اُٹھ کر میں وطن کے دور دراز دشوار گزار حصوں کی طرف دوڑنے لگی تھی۔ لکھنا بھی مقصود تھا اور اُسے دیکھنا بھی۔ جی بھر کر اُسے دیکھا، سراہا، نئی جگہوں پر ماتھا زمین پر رکھا۔
اور وقت دھیرے دھیرے گزرتا گیا۔ میرے بچے بڑے ہوتے گئے۔ میں زندگی کی طرف پوری توانائی سے لوٹی تھی۔ پامسٹری سے متعلق ساری کتابیں میں نے تلف کر دی تھیں۔ ہاتھ دیکھنا بند تھا اور اس تابوت میں آخری کیل میں نے اُس دن ٹھونکی جب میں ایک تقریب میں جناب ایم۔اے ملک سے ملی۔ وہ آنکھوں کی ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہو کر مہینوں زیر علاج رہے۔ میں نے اُن سے پوچھا تھا۔
”ملک صاحب اس بیماری سے متعلق کبھی کوئی لکیر آپ نے اپنے ہاتھوں پر دیکھی ہو۔“
وہ کچھ دیر خاموش رہے۔ سوچتے رہے پھر جیسے مدھم سی آواز میں بولے۔
”کچھ ایسی خاص مجھے نظر نہیں آئی تھی۔ ہاں البتہ آشوٹوش پنڈت اوجہاکی کتاب پر ایک جگہ میں نے نشان دہی کی تھی کہ مجھے اپنے ہاتھ پر ایسی مدھم سی لکیر کا شائبہ پڑتا ہے۔
میرے پاس پنڈت آشوٹوش کی Palmistry for all تھی اور میں نے اُسے پڑھا تھا۔

دُنیا کی شہرہ آفاق عبادت گاہوں میں جا کر مجھے احساس ہوا کہ رب کو اپنی دنیا کے مختلف النوع مذاہب اور نسلوں کی رنگا رنگی بہت محبوب ہے۔ اس کی مخلوق اپنے اپنے دُکھوں اور پریشانیوں کی گٹھڑیاں اپنے مونڈھوں پر دھرے واویلا کرتی، اُسے پکارتی، دُکھڑے سناتی اور اپنی اپنی تعمیر کردہ عبادت گاہوں میں کس کس انداز میں اُسے یاد کرنے اور منانے میں سر گرداں ہے۔اور صرف وہی اُن کے بہتے آنسوؤں کو پونچھنے، ان کے رستے زخموں پر پھاہے رکھنے کی قدرت رکھتا ہے کیونکہ وہ سزا وارِ خدائی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور ہاں کہانی کا معجزاتی انجام بھی تو سُن لیجیے کہ میری وہ صاف سیدھی لمبی اور شوخ سی لکیر پہلے درمیان سے ٹوٹی پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں فاصلہ پیدا ہوا۔ آج وہ مجھے بتاتی ہے کہ خدا دعاؤں کا سننے والا ہے اور تقدیر یں بدلنے پر قادر ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply