• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی ریاست ، مذہب اور انسانی حقوق کا عالمی منشور۔۔ارشد بٹ

پاکستانی ریاست ، مذہب اور انسانی حقوق کا عالمی منشور۔۔ارشد بٹ

ہر سال ۱۰۔ دسمبر انسانی حقوق کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان اڑھتالیس ممالک میں شامل ہے جنہوں نے ۱۰۔ دسمبر ۱۹۴۸ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انسانی حقوق کے عالمی ڈیکلیریشن کی حمائت میں ووٹ دیا تھا۔

انسانی حقوق کے عالمی منشور کے مطابق!’’تمام انسان حقوق اور وقار کے اعتبار سے آزاد اور برابر پیدا ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق اور آزادیوں پر رنگ، نسل، زبان، جینڈڑ، مذہب و عقیدہ، سیاسی نظریہ، خاندانی حیثیت اورقوم کی بنا پر امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائےگا‘‘۔ ’’ہر انسان کو آزادی فکر، آزادی ضمیر اور آزادی مذہب کا پورا حق حاصل ہے۔ اس حق میں مذہب یا عقیدے کو تبدیل کرنے اور پبلک میں یا نجی طور پر، تنہا یا دوسروں کے ساتھ مل جل کر عقیدے کی تبلیغ، عمل، عبادت اور مذہبی رسمیں پوری کرنے کی آزادی بھی شامل ہے‘‘۔

’’ہر شخص کو تعلیم کا حق حاصل ہے۔ کم از کم ابتدائی اور بنیادی درجوں تک تعلیم مفت ہو۔تعلیم کا مقصد انسانی شخصیت کی نشو و نما ہو گا۔ تعلیم انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام میں اضافہ کرنےکا ذریعہ ہو گی۔ تعلیم تمام قوموں اور نسلی یا مذہبی گروہوں کے درمیان باہمی مفاہمت، رواداری اور دوستی کو ترقی دے گی۔‘‘

انسانی حقوق کےعالمی منشور کےتیس آرٹیکلوں میں  کرہ ارض پر انسانوں کے بنیادی انسانی حقوق کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ دیگر انسانی حقوق کے علاوہ اظہار رائے کی آزادی، مذہبی اقلیتوں کے حقوق، مرضی کی حکومت منتخب کرنے، روزگار ، تعلیم اور طبی امداد کی فراہمی کو بنیادی انسانی حقوق قرار دیا گیا ہے۔

غیر مسلم یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں آبادمسلمان، انسانی حقوق کے عالمی منشور کی روشنی میں ریاست سے مذہب کی علیحدگی کی وجہ سے مذہبی آزادی کے فوائد سے بخوبی آگاہ ہیں اور ان سے بھر پور استفادہ بھی حاصل کرتے ہیں۔ ان ممالک میں ہر فرقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی مساجد، عبادات اور مذہبی تقریبات سے آباد رہتی ہیں۔مساجد میں نماز پنجگانہ ، نماز جمعہ و عیدین اور دیگر مذہبی اجتماعات بڑے اہتمام سے منعقد کئے جاتے ہیں۔ مسلم ممالک سے علما اور مشائخ مذہبی تقریبات میں شمولیت کے لئے مدعو کئے جاتے ہیں اور اکثر مساجد میں مسلم بچوں کے لئے اسلامی تعلیم کا شعبہ بھی قائم ہوتا ہے۔ مغربی ممالک میں آبادی کی واضع اکثریت پیدائشی اور روائتی طور پر مسیحی مذہب سے تعلق رکھتی ہے ۔ نہ ہی ان ریاستوں کا کوئی مذہبی نظریہ ہے اور نہ ہی کسی خاص مذہب سے تعلق۔ مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ قرار دیا جا چکاہے اور ریاست مذہبی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں رکھتی۔ ہر فرد کسی بھی مذہب اور عقیدے سے تعلق رکھنے ، تبدیل کرنے یا مذہب سے لاتعلقی ا ختیار کرنے میں آزاد ہے۔ سیاسی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں میں مذہب کی مداخلت سے پرہیزکیا جاتا ہے تاکہ اکثریتی مذہبی گروہ کو اقلیتی مذہبی گروہوں پر مسلط ہونے کا سدباب ہو سکے۔ جس کا ایک بنیادی مقصد سب مذہبی گروہوں کو اپنے اپنےمذہبی عقائد پر عمل پیرا ہونے کے لئے آزاد ماحول اور تحفظ فراہم کیا جانا ہے۔ اکثر مغربی ممالک میں ذاتی مذہب کو واحد سچا مذہب سمجھتے ہوئے دوسرے مذاہب اور انکے پیروکاروں کو نفرت کا نشانہ بنانا قابل تعزیر سمجھاجاتا ہے۔ سب مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہبی عقائد پر آزادی سےعمل پیرا ہونے کے مواقع فراہم کرنے والی ریاست اور معاشرے کو سیکولر ریاست اور معاشرہ کہا جاتا ہے۔ سیکولر ریاست میں مذہب اور سیکولرازم کے مابین دشمنی کا نہیں بلکہ دوستی کا رشتہ ہوتا ہے۔ بلا استثنا اکثریتی یا اقلیتی مذہبی گروہ صرف ایک سیکولر ریاست ہی تمام مذہبی گروہوں کو آزادی سے اپنے مذہبی عقائد پر آزادی سے کاربند رہنے کی گارنٹی دے سکتی ہے۔ مغربی ممالک کے علاوہ ایک مثال انڈیا ہے جہاں سیکولرازم اور سیکولر ریاست کے سب سے بڑے دعویدار انڈیا کے مسلم علما اور مسلمان ہیں۔ ہندوستان کے مسلمان سمجھتے ہیں کہ ہندو اکثریت اور انتہا پسند ہندو نیشنلزم کی موجودگی میں مسلمانوں کے مذہبی، سماجی اور معاشی حقوق کا تحفظ صرف ایک سیکولر ریاست اور معاشرہ میں ہی ممکن ہے۔

پاکستانی ریاست کے کارپردازوں سے یہ سوال پوچھا جانا چاہئے کہ انسانی حقوق کے عالمی منشور پر دستخط کرنے کے بہتر سال بعد اس پر کس قدر عمل کیا گیا یا عملدرآمد کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ حیران کن امرکہ پاکستانی ریاست نے انسانی حقوق کے سیکولر منشور پر بلا حیل و حجت دستخط کر دئیے مگر سیکولر انسانی حقوق کے عالمی منشور کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے مارچ ۱۹۴۹ کو قرار داد مقاصد کے ذریعے پاکستان کو مذہبی ریاست قرار دے دیا۔ ۱۹۷۷ کے بعدجنرل ضیا مار شل لا کے دوران قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا مگر بعد میں آنے والی کسی جمہوری حکومت نے قرارداد مقاصد کو آئین سے خارج کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس وقت پاکستان کے آئین میں ملک کے غیر مسلم شہریوں کو مسلم شہریوں کے برابر حقوق حاصل نہیں ہیں۔

پاکستانی ریاست عوام کو روزگار،تعلیم اور طبی سہولیات جیسے زندہ رہنے کے بنیادی انسانی حقوق دینے سے گریزاں ہے۔ ریاست کے کرتا دھرتا مقتدرہ نے جہاں عوام کو اپنی مرضی سے حکومت منتخب کرنے کے حق سے محروم رکھا، وہاں جمہوری و شہری حقوق، اظہار رائے اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق پر قدغنیں لگا رکھی ہیں۔ پاکستانی ریاست، اشرافیہ اور مذہبی انتہا پسندوں نے ملک کو فرقہ پرستی، مذہبی شدت پسندی، نفرت اور عدم برداشت کا گہوارا بنا ڈالا ہے۔ مذہبی رواداری، عقیدوں کا باہمی احترام، بین الامذاہب مکالمہ اور انسانی اقدار پر یقین روز بروز کمزور پڑتا جا رہا ہے۔
مغربی ممالک میں مسلم اقلیت ہونے کے ناطے پاکستانی پس منظر رکھنے والے افراد اپنے آبائی ملک میں مذہبی اقلیتوں سے ناروا امتیازی سلوک پر مذمت اور ندامت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ مسلم کمیونیٹی کے باشعور افراد مختلف اجلاسوں اور سیمیناروں میں اپنے خیالات کااظہار کرتے رہتے ہیں۔ ہالینڈ میں آرگنائزیشن پروگریسیو پاکستانیز گاہے بگاہے ایسے اجلاس منعقد کرتی رہتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آرگنائزیشن پروگریسیو پاکستانیز کے ویبینار منعقدہ ۲۹ ۔نومبر میں معروف دانشور ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کا عالمی منشور انسانیت کا مستقبل ہے جس پر دنیا کے ہر ملک کو جلد یا بدیر عملدرآمد کرنا ہو گا۔ یہ منزل حاصل کرنے کے لئے سب شہریوں کی شمولیت سے جمہوری عمل کے تسلسل اور ہر فرد کو سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی میں برابر کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ ڈاکٹر ہود بھائی کاکہنا تھا کہ وقت کے دھارے کے ساتھ مذہب کی تاویلیں مختلف ہو جاتی ہیں، رسم و رواج بدل جاتے ہیں، لوگوں کے سماجی رویے تبدیل ہو جاتے ہیں، ثقافتی اور سماجی روایات نئے انداز اپنا لیتی ہیں اور حالات کے مطابق ملکوں کو قوانین بدلنے پڑتے ہیں۔ بقول پرویز ہودبھائی مسلمانوں کے لئے سیکولر معاشرہ کوئی نئی چیز نہیں۔ اندلس کی مسلم سلطنت میں عیسائیوں اور یہودیوں کو مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل تھے۔ ان کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک روانہیں رکھا جاتاتھا۔ حالیہ تاریخ میں اگر عثمانی سلطنت کے بعد ترکی اور ۱۹۷۹ میں خمینی انقلاب سے قبل کا ایران جدید سیکولرمعاشرہ بننے کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں تو ایسا مستقبل میں بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ ’’پاکستان عسکری ریاست’’، ’’پاکستان، گیریژن سٹیٹ’’، ’’پاکستانی ملٹری ان پولیٹکس’’، ’’جناح’’، جیسی متعد کتابوں کے مصنف اور معروف دانشور ڈاکٹر اشتیاق احمد نے ویبینار میں کمنٹس کرتے ہوئے کہا کہ حریت اور انسانی برابری جیسی سیکولر اقدار کا سفر تھمنے والا نہیں۔ رنگ، نسل، جینڈر، مذہب، عقیدہ، قومی اور علاقائی تفریق اور امتیاز ات کے خاتمے سے انسانی آزادی اور برابری جیسی عظیم انسانی اقدار پر استوار معاشرہ قرہ ارض پر انسانیت کے روشن مستقبل کا ضامن ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply