گڑیا۔۔۔ معاذ بن محمود

گڑیا

باجی میری گڑیا کہاں ہے؟ یہیں رکھ کر گئی تھی میں۔ باجی۔۔۔ تم نے دیکھی میری گڑیا؟ بتاؤ ناں۔۔ کس نے چھپائی؟

وہ جانتی تھی کہ باجی وہ آخری شخصیت ہوں گی جو اسے یوں تنگ کر سکتی ہیں۔

آج سب کو بناؤ سنگھار کی تاکید تھی۔ ابا کا حکم جو تھا۔ لڑکے والوں نے آج لڑکی دیکھنے آنا تھا۔ لڑکی اچھی لگی تو شادی ہوگی۔خوب دھوم دھام ہوگی۔ رسمیں ہوں گی۔ خوشیاں ہوں گی۔ شہنائیاں ہوں گی۔ باجے ہوں گے۔ بارات ہوگی۔ اسے لگتا تھا کہ جیسےخوشیوں کی برسات ہوگی۔ ویسی ہی جیسے اس کی سہیلیوں کے درمیان گڈے گڑیا کی شادی میں ہوا کرتی۔

اسے ٹھیک لگتا تھا۔

مجھے نہیں معلوم کہاں ہے تمہاری گڑیا۔ کمرے میں جاؤ امی بلا رہی ہیں

باجی کا لہجہ معمول کے برخلاف آج قدرے درشت تھا۔ ایسا کیوں تھا وہ لاعلم تھی۔ ہاں اتنا یقین ضرور تھا کہ گڑیا کسی اور نےچھپائی ہے۔ بھلا باجی ایسا کیوں کر سکتی تھیں؟

دیکھو۔۔ یہ گڑیا وغیرہ چھوڑ دو اب۔ ابا کے آنے سے پہلے چلی جاؤ ورنہ ابا سے بہت بری ڈانٹ پڑے گی

باجی ٹھیک کہتی تھیں۔ ابا کی ڈانٹ سے پورا گھر خوف کھاتا تھا۔ ابا کا غصے میں ہونا گھر کے ہر فرد کے لیے جاں کنی کا عالم ہواکرتا تھا۔ کب، کہاں، کیوں ابا کو غصہ آجائے کسی کو معلوم نہ ہوتا۔

اماں کی آواز ایک بار پھر سنائی دی۔

میری گڑیا۔۔۔

وہ بڑبڑاتے ہوئے کمرے کی جانب چل دی۔

پتہ نہیں کہاں رکھ دی

باجی نم آنکھوں کے ساتھ اسے کمرے کی جانب چلتا دیکھتی رہ گئیں۔

کمرے میں موجود مہمانوں نے اسے ایسے پرکھا جیسے قربان گاہ میں کھڑی بھیڑ کو جانچا جاتا ہے۔

پیاری ہے!”

ایک خاتون نے دوسری خاتون کے کان میں سرگوشی کی۔

ہاں مگر رنگ سانولا ہے

سب سے پکے رنگ والی خاتون نے جواب دیا۔

قد بھی اچھا ہے

پہلی خاتون نے دوبارہ سرگوشی کی۔

وہ اپنے جسمانی تجزیے سے لاعلم متواتر گڑیا کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اسے یاد ہی نہیں کب اس نے سلام کیا، کب مہمانوں کےسامنے چائے پیش کی اور کب دوبارہ کھڑی ہوگئی۔ وہ عمر کے ایسے حصے میں تھی جب ایک لڑکی مرد ذات کی ٹٹولتی نگاہیں تکمحسوس نہیں کر پاتی۔

گڑیا کہاں ہوگی؟

وہ مسلسل اسی سوچ میں غرق تھی۔

وہ دن گزر گیا۔ اس کے بعد کئی شب و روز گزرتے رہے۔ کتنے؟ اس نے کبھی حساب نہیں رکھا۔ ہاں اتنا ضرور یاد رہا کہ ابا نے اسےاماں کے ذریعے شادی کی خبر ضرور سنوائی تھی۔ وہ اپنی شادی کی خوشی میں چہکتی پھرتی تاہم گڑیا کھو جانے کا دکھ اسے یادرہتا۔

ابا کتنے اچھے ہیں ناں باجی؟ میری کھوئی ہوئی گڑیا کی طرح میری بھی شادی کروا رہے ہیں۔ گھر میں خوشیاں لا رہے ہیں

ہاں یہ بات وہ جب بھی کرتی، باجی کی پرنم آنکھیں اسے ہمیشہ حیران کر دیتیں۔ پریشانی کا البتہ کبھی گماں نہ ہوا۔

اور پھر۔۔ بالآخر ایک دن اس کا بیاہ ہوگیا۔

لڑکے والے پشاور سے بارات لینے آئے تھے۔ بحیثیت ۱۳ سالہ بچی اسے تب بھی پریشانی لاحق نہ ہوئی جب اسے بتایا گیا کہ وہ بیاہکر پشاور جائے گی۔ پشاور سے کراچی کا فاصلہ ۱۹۸۳ میں کتنے ڈاک خانوں کتنے خطوط کی دوری پر تھا وہ اس تلخ حقیقت سےنابلد تھی۔

بیاہ کے بعد اسے پشاور لے جایا گیا۔

پشاور کی وہ شام اس کے بچپنے کی آخری شام تھی۔ رات کسی لمحے اس کی دنیا بدل چکی تھی۔ اس لمحے وہ اپنی گڑیا ہمیشہہمیشہ کے لیے بھول چکی تھی۔

عین اسی لمحے، ۱۶۰۰ کلومیٹر دور، باجی اس کی چھپائی ہوئی گڑیا ہاتھ میں لیے اپنی گڑیا کو یاد کرتے سسکیاں لیتے رو رہی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہی گڑیا جو باجی نے اس دن اس کے کمرے میں کھڑکی کے ساتھ پڑی الماری کے پیچھے پھینکی تھی۔

Facebook Comments