نیا پاکستان پرانی ٹیم کیساتھ نہیں بن پائے گا۔۔مجاہد خٹک

ایک دور تھا جب ہم ہر طرف سے فخریہ انداز میں یہ فقرہ سنا کرتے تھے کہ پاکستان نے روس جیسی سپر پاور کو شکست دے کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ دیوار برلن کا ٹوٹنا ہمارے لیے تفاخر کا ایک آئینہ بن گیا تھا جس میں دن رات بھارت اور امریکہ کے حصے بخرے ہوتے دیکھتے تھے۔ افغانیوں کی خودداری، دلیری اور جرات کی داستانیں ہمارا سینہ گرمائے رکھتی تھیں۔ جدید ٹیکنالوجی سے محروم، چادریں گلے میں ڈالے، شلوار قمیص میں ملبوس ان مقدس روحوں نے جس طرح ایک سپر پاور کے خلاف جدوجہد کی تھی اس میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خوشبو سونگھا کرتے تھے۔ کبھی دل میں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ کھنڈرات کی تصویر بنے اس ملک کے باسیوں کا پتا کیا جائے کہ وہ کن حالات میں رہ رہے ہیں، مجاہدین کے شجاعت بھرے رجز ان تمام نوحوں، مرثیوں اور آہ و زاری کو کھا گئے جو ایک عام افغانی کے دل سے ابھرتے تھے۔

پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ سوچ ابھرنے لگی کہ روس کے زوال سے نہ ہی پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچا اور نہ ہی افغانستان کی حالت بہتر ہوئی۔ اس کے برعکس یہ دونوں ممالک مزید زوال اور انتشار کا شکار ہوتے گئے۔ اعدادوشمار بتاتے تھے کہ ہماری معیشت بھی تباہ ہوئی اور معاشرہ بھی بربادی کا شکار ہو گیا۔ انتہاپسندی کے سیاہ افق سے جب جب طالبان جیسے عفریت قطار در قطار برآمد ہونے لگے تو ملک کے طول و عرض میں دہشت پھیل گئی۔ جانوروں کی طرح انسانوں کے گلے کاٹنے کے مناظر ہر کسی کی دسترس میں آ گئے اور ایک دہائی سے زیادہ عرصہ پوری قوم خوف کے عالم میں رہی۔ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ روس کے ختم ہونے سے مسلمانوں کو دھیلے کا بھی فائدہ ہوا ہو۔

شعور میسر آنے کے دور میں ایک نظر افغانستان پر دوڑائی تو دیکھا کہ یہ ملک کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔ روسیوں نے اتنے افغانی نہیں مارے اور اس قدر تباہی نہیں پھیلائی جتنی افغانستان میں موجود متحارب گروہوں نے پھیلائی ہے۔ پھر امریکہ نے افغانستان میں قدم رکھا تو ایک طبقہ اس ملک کو بڑی طاقتوں کا قبرستان قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر رومانویت کے جھولے میں لیٹ گیا۔ ان کے لیے گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور بموں کے دہلا دینے والے دھماکے  لوری کا کام دینے لگے۔ انہوں نے افغانستان میں ہونے والے انتخابات کو تسلیم نہیں کیا، کابل کی گلیوں بازاروں میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی پر کبھی کھلے عام اور کبھی زیرلب تحسین کے نغمے گائے۔ ایک بار پھر عام افغانی کی حالت زار سے نظریں چرا لی گئیں۔ اس بات پر کسی نے غور نہیں کیا کہ افغان پولیس اور فوج میں شامل نوجوان لڑکوں کے لاشے جب ان کے گھر جاتے ہوں گے ان کے والدین پر کیا گزرتی ہوگی۔ نہ جانے کیوں ہمارے ذہن میں یہ تاثر بیٹھ گیا تھا کہ افغانستان میں انسانوں کے مرنے پر کسی کو دکھ نہیں ہوتا۔ ہاں جب بمباری کے نتیجے میں مدرسے میں قرآن حفظ کرتے معصوم بچوں کے چیتھڑے میدان میں بکھر گئے تب ہم نے وہ آہ و فغان بلند کی کی عرش ہل کر رہ گیا کیونکہ اس بار مارنے والا امریکہ تھا۔

میں نے زندگی میں جو سبق سیکھے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ کسی بھی شخص، ادارے یا قوم کے تباہ ہونے سے ہمارے حالات پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب تک آپ خود کو بہتر نہیں کرتے اس وقت تک باقی سب کی تباہی کسی کام کی نہیں۔ آج امریکہ برباد ہو جائے یا بھارت کے ٹکڑے ہو جائیں تو یقین کریں کہ پاکستان کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہونا۔ الٹا اس کے اثرات بد سے ہم بھی محفوظ نہیں رہ پائیں گے کیونکہ امریکی معیشت سے ہم جڑے ہوئے ہیں اور بھارت سمیت اس خطے میں ہونے والے کسی بھی ملک کی تباہی پاکستان کو لازمی متاثر کرے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی طرح اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دانوں کے بیچ موجود کشاکش پر بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ آج اسٹیبلشمنٹ کمزور پڑ جائے یا ملکی معاملات میں دخل اندازی چھوڑ دے تو اس سے سیاست دانوں اور پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہونا۔ الٹا اس کا نقصان ہو گا کیونکہ پاکستانی ریاست کی عمارت میں سے اسٹیبلشمنٹ کی اینٹیں نکالنے کے بعد اس خلا کو پُر کرنے کی صلاحیت کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس خلا کو یا تو مرکز گریز قوتیں پُر کریں گی اور بلوچستان اور فاٹا میں موجود علیحدگی پسند قوتوں کو تقویت ملے گی یا پھر ملک میں جرائم پیشہ لوگوں کا راج ہو گا۔ پاکستان میں تبدیلی صرف اس وقت آئے گی اور نیا پاکستان فقط اس صورت معرض وجود میں آ سکے گا جب سیاست دان اپنی صلاحیتوں کو بہتر کریں گے، اپنی ٹیم میں باصلاحیت افراد شامل کریں گے اور پوری دیانت داری سے ملک و قوم کی خدمت کریں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply