پاک فضائیہ کے لیے J-10 C کی ضرورت کیوں ہے؟۔۔رانا اظہر کمال

ان دنوں مختلف ذرائع سے خبریں آرہی ہیں کہ پاک فضائیہ چین سے تقریباً چھتیس یا چالیس “J-10” طیارے حاصل کرنے والی ہے اور ان خبروں کے ساتھ ہی ایسے دوست جو ملٹری ہارڈوئیر میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کی جانب سے یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ جے ایف 17 کے بلاک تھری اور پراجیکٹ عزم کے تحت ففتھ جنریشن طیاروں کی متوقع آمد کے باوجود ہمیں ایک “فورتھ جنریشن پلس” طیارے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے۔ ان سطور میں ہم اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔

جے 10 طیارہ کیا ہے اور کیسا ہے، اس کی تفصیل تو آپ کسی بھی مستند ویب سائٹ سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لیے ہم صرف اسی نقطے پر توجہ مرکوز رکھیں گے کہ ایف سولہ بلاک 52 کی موجودگی اور جے ایف 17 کے بلاک تھری کی متوقع آمد کے باوجود پاک فضائیہ جے 10 میں دلچسپی کیوں رکھتی ہے؟

سب سے پہلے تو یہ جان لیجیے کہ کسی بھی ملک کے ملٹری ہارڈوئیر کے متعلق بہت سے حقائق کلاسیفائیڈ ہوتے ہیں اور اس کی سو فیصد معلومات کسی بھی ملٹری میگزین یا ویب سائٹ کی دسترس میں نہیں ہوتیں لہٰذا انہی امور یا معلومات پر بات کی جا سکتی ہے جو کسی نہ کسی طرح پبلک ہو جاتی ہیں۔

پاک فضائیہ کا فی الوقت سب سے قابل اعتماد اور فرنٹ لائن طیارہ ایف سولہ ہے جو 9000 کلو گرام وزن کے ساتھ میڈیم ویٹ ملٹی رول طیاروں میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ جے ایف 17 6500 کلوگرام وزن کے ساتھ لائٹ ویٹ ملٹی رول کلاس میں آتا ہے۔ اس لیے 9000 کلوگرام والے جے 10 طیاروں کا درست موازنہ ایف سولہ اور فرینچ رفال طیاروں کے ساتھ کیا جانا چاہیے، نہ کہ جے ایف 17 تھنڈر کے ساتھ۔

طیاروں کے اپنے وزن اور انجن کی پاور کا براہ راست تعلق ان کی ہتھیار لے جانے صلاحیت سے ہوتا ہے۔
جے ایف سترہ کا اپنا وزن 6500 کلوگرام ہے اور 50 سے 85 کلو نیوٹن کے انجن کے ساتھ فیول کے علاوہ اس پر زیادہ سے زیادہ 3000 کلوگرام کے ہتھیار نصب کیے جا سکتے ہیں۔
ایف سولہ کا وزن 8500 سے 9000 کلوگرام ہے اور یہ 79 سے 129 کلو نیوٹن کے انجن کے ساتھ فیول کے علاوہ زیادہ سے زیادہ 7500 کلوگرام کے ہتھیار اٹھا سکتا ہے۔
جے 10 کا وزن 9000 کلوگرام ہے اور 79 سے 129 کلو کلو نیوٹن والے انجن کے ساتھ یہ بھی زیادہ سے زیادہ 7000 کلوگرام کے ہتھیار لے جا سکتا ہے۔

اس ابتدائی تفصیل ہی سے آپ یہ جان سکتے ہیں کہ پاک فضائیہ بھلے ہی جے ایف 17 کا بلاک تھری بلکہ بلاک فور بھی لے آئے، ایک زیادہ وزنی ہتھیار اٹھانے والے طیارے کی ضرورت بہرحال باقی رہے گی۔ اس کے علاوہ ہتھیاروں کی ڈائمینشنز یعنی سائز بھی ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے جس کی بڑی مثال ہمارا “رعد” ائر لانچڈ کروز میزائل ہے جو اپنے سائز کے باعث فی الحال صرف میراج طیاروں سے فائر کیا جا سکتا ہے۔ اس میزائل کو جے ایف 17 پر نصب نہیں کیا جا سکتا۔ اس میزائل کا وزن تو محض 1100 کلوگرام ہے لیکن اس تقریباً 5 میٹر کی لمبائی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اسے تھنڈر کے سنٹرلائن ہارڈ پوائنٹ پر نصب کیا جا سکے کیونکہ ٹیک آف یا لینڈنگ کے وقت یہ میزائل تھنڈر کے فیوزیلیج سے نیچے ہونے کے باعث زمین سے ٹکرائے گا۔ اس میزائل کو ایف سولہ پر نصب نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایف سولہ کے تمام برقی نظام اور ایویانکس امریکی ساختہ ہیں جو اس رعد کے ساتھ کمپیٹیبل نہیں۔ ان میزائلوں اور مستقبل میں اس سے بھی بڑے اور جدید میزائلوں کے لیے ہمیں کم از کم ایک میڈیم ویٹ طیارے کی ضرورت ہے۔

دوسری بڑی ضرورت جس کے باعث پاک فضائیہ جے 10 میں دلچسپی رکھتی ہے، وہ بھارتی فضائیہ میں رفال طیاروں کی شمولیت ہے۔ رفال کے بنیادی سسٹمز، ایویانکس اور کارکردگی کا مقابلہ تو ایف سولہ سے بخوبی کیا جا سکتا ہے لیکن دو معاملات ایسے ہیں جن کے لیے ہمیں تیاری کرنا ہو گی۔
ایک، رفال کا جدید ایکٹیو الیکٹرونیکلی سکینڈ ایرے ریڈار۔
دو، رفال کا جدید انفرا ریڈ سرچ اینڈ ٹریکنگ سسٹم۔

رفال کے مقابلے میں پاک فضائیہ کے بلاک 52 ایف سولہ طیاروں میں نسبتاً پرانا “پلس ڈوپلر ریڈار” نصب ہے جبکہ انفرا ریڈ سرچ اینڈ ٹریکنگ سسٹم ہے ہی نہیں۔ اس صورت میں رفال طیاروں کے ریڈار ایف سولہ کو پہلے تلاش اور ہٹ کر سکتے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ رفال اپنا ریڈار آف رکھ کر انفرا ریڈ سرچ اینڈ ٹریکنگ سسٹم سے بھی ہمارے طیاروں کو تلاش کر کے ہٹ کر سکتے ہیں جبکہ ہمارے طیارے اس صورت میں بالکل اندھے اور بہرے ہوں گے۔ ایف سولہ کے لیے آئی آر ایس ٹی امریکا پاکستان کو فراہم نہیں کرے گا جبکہ جے ایف 17 کا نیا ریڈار اور آئی آر ایس ٹی ابھی ڈویلپمنٹ کے مرحلے میں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان دونوں مسائل کا حل جے 10 کے جدید ترین “سی ای” ماڈل میں موجود ہے جس میں جدید AESA ریڈار بھی موجود ہے اور IRST بھی جس کی مدد سے رفال کی ممکنہ برتری کو بخوبی کاؤنٹر کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان اگرچہ پراجیکٹ عزم پر بھی کام کر رہا ہے جس میں ففتھ جنریشن طیارہ بھی بنایا جائے گا لیکن ابھی اس پروگرام کی تکمیل میں کم از کم سات برس مزید لگیں گے۔ اس صورتحال میں تقریباً دو سکواڈرن جے 10 نہ صرف “سٹاپ گیپ” کا کام کریں گے بلکہ ایف 16 اور جے ایف 17 کے موجودہ فلیٹ کو الیکٹرونک وارفئیر کے دوران وہ تحفظ فراہم کر سکیں گے جس کی ہمارے فائٹرز کو شدید ضرورت ہو گی۔

Facebook Comments

ژاں سارتر
ہر شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا بہترین تعارف ہوتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply