مقتول، قاتل اور حواری۔۔ذیشان نور خلجی

اس وقت تین کردار ہمارے سامنے ہیں۔ ایک بنک کا مقتول مینجر، دوسرا قاتل سیکورٹی گارڈ اور تیسرے  وہ لوگ جو جلوس کی صورت میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس قاتل کو تھانے لے کر گئے یا وہ مولوی جو پولیس اسٹیشن کی چھت سے شرکاء کو لیڈ کرتے رہے۔ اس کے علاوہ بھی مزید دو کردار یہاں موجود ہیں۔ ایک وہ لوگ جو اس مقتول کے قتل کے خلاف ہیں اور یہ کسی بھی وقت کسی کی عقیدت کا نشانہ بن کر پہلے کردار یعنی مقتول میں ضم ہو سکتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ، جن کے نزدیک مینجر کا قتل اس لئے جائز نہیں کہ اس نے توہین کی ہی نہیں، بلکہ اپنے مسلک کا عقیدہ بیان کیا ہے۔ یعنی ان لوگوں کے نزدیک اگر بنک مینجر واقعی کسی توہین کا مرتکب ہوتا تو پھر اسے یوں سر عام قتل کرنا جائز ہوتا۔ یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بھی وقت یا تو خود قاتل بن سکتے ہیں یا پھر قاتل کو اخلاقی سپورٹ فراہم کر سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ یہاں صرف تین کردار ہی موجود ہیں مقتول، قاتل اور قاتل کو ہیرو ثابت کرنے والے۔

اس سارے پس منظر میں آج جو مسئلہ درپیش ہے وہ توہین یا بلاسفیمی کا نہیں بلکہ صرف قتل اور فساد فی الارض کا ہے اور یہاں فساد برپا کرنے میں قاتل سے کہیں زیادہ یہ تماش بین ہی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کیوں کہ یہاں روزانہ بیسیوں قتل ہوتے ہیں لیکن قاتلوں کو بطور مجرم ہی معاشرے کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کوئی انہیں ہیرو بنا کر پیش نہیں کرتا۔ جب کہ مذہب کی آڑ میں آج جو قاتل سامنے آ رہے ہیں انہیں بطور ہیرو پیش کیا جاتا ہے اور خرابی بھی یہی ہے جس  کے باعث ہر گزرتے دن کے ساتھ ان غازیوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
واضح رہے ہماری بحث مذہب کے غازیوں پر نہیں بلکہ ریاست کے مجرموں اور ان کے حواریوں سے متعلق ہے۔ جب یہ حواری کہتے ہیں کہ قاتل نے چونکہ توہین کے مرتکب کو جہنم واصل کیا ہے اس لئے یہ حق پر ہے تو پھر یہاں ایک سوال اٹھتا ہے۔ فرض کریں کسی دن مقتول کا کوئی قریبی عزیز انتقام کی آگ میں جلتا ہوا قاتل کو بھی شہید کر دے اور مدعا یہ رکھے کہ غازی صاحب بھی دراصل توہین کے مرتکب ہوئے ہیں تو کیا آپ لوگ اس نئے قاتل کو بھی غازی کے مرتبے پر فائز کر دیں گے؟

اسی لئے ریاست ایسے کسی قاتل کو غازی کا درجہ نہیں دیتی کیوں کہ کوئی بھی توہین کی آڑ میں کسی کو بھی قتل کر سکتا ہے۔ اس باب میں ریاست غازیوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر اپنا فرض بخوبی انجام دے رہی ہے لیکن پھر بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ قاتلوں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ دراصل ریاست بیمار کا علاج تو کر رہی ہے لیکن بیماری کا خاتمہ نہیں کر رہی اور بیماری دراصل وہی تیسرا کردار ہے جو کسی بھی قاتل کو ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے جن میں سادہ لوح عوام کے ساتھ ساتھ ہمارے معزز علماء اکرام بھی پیش پیش ہیں۔ ریاست کو چاہیے کہ غازیوں کی خدمت کے ساتھ ساتھ ان حواریوں اور بالخصوص علماء اکرام کی بھی خبر گیری کرے جو ایسے ہر فساد فی الارض کے موقع پر جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔ جب ان پر گھیرا تنگ کیا جائے گا تو خود ہی انہیں عقل آ جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

شنید ہے دوران تفتیش جب غازی ممتاز قادری سے پوچھا گیا کہ آپ نے یہ انتہائی حرکت کیوں کی۔ تو انہوں نے ایک عالم دین کا نام لیا کہ ان کی تعلیمات سے متاثر ہو کر میں نے یہ قدم اٹھایا۔ پھر جب ان عالم دین سے اس بابت پوچھا گیا تو وہ صاف مکر گئے اور اپنا دامن بچا گئے۔ عقل والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں جب کہ بے عقل ہمیشہ سے آگ کا ایندھن ہی بنتے آئے ہیں چاہے پھر آگ اس دنیا کی ہو یا اُس دنیا کی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply