• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پانی کی بچت اور ہمارا غسل فرمانا آج کا۔۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

پانی کی بچت اور ہمارا غسل فرمانا آج کا۔۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

اللہ محفوظ رکھے، ماہرین کی طرف سے یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر مسئلے کے حل پر توجہ نہ دی گئی، تو مستقبل قریب میں وطنِ عزیز کو پانی کے سخت بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس ضمن میں حکومتی کوششوں کی اہمیت تو اپنی جگہ مسلّم ہے، لیکن عوام الناس کی اس مسئلے پر توجہ بھی از بس ضروری ہے۔ ہمارے یہاں پانی کے گھریلو استعمال کے حوالے ہی سے دیکھ لیں لوگوں میں سخت غفلت دیکھنے میں آتی ہے، کپڑے اور برتن دھونے اور نہانے وغیرہ میں یہ چیز عام ہے کہ ٹوٹیاں نلکے کھلے چھوڑ دیے جاتے ہیں یا بے تحاشا پانی ایسے ہی بہتا رہتا ہے۔ ہماری اخلاقی سماجی اور قومی ذمے داری ہے کہ پانی کو ضائع ہونے سے بچائیں۔انسان کی کمزوری ہے کہ اس کو اللہ کی جو نعمت عام دست یاب ہوتی ہے، اس کی اہمیت کا زیادہ احساس نہیں کرتا،جب اس سے محروم ہوتا ہے تو اس کا صحیح صحیح اندازہ ہوتا ہے۔

پانی ایسی نعمت کی قدر ان سے پوچھیے جنھیں اس کی دست یابی میں مشقت اٹھانا پڑتی ہے۔ جن کو یہ عام میسر ہے، ان کا حال یہ ہے کہ جہاں ایک آدھ کلو سے کام چل سکتا ہے، وہاں منوں پانی بہا دیتے ہیں۔ ہم مذکورہ اندیشے کے تناظر میں اگرچہ کچھ احتیاط برتنے لگے ہیں، لیکن کوئی اتنے معصوم بھی نہیں کہ قطرے قطرے کی قدر کرتے ہوں ،آج صبح مگر سرگودھا میں اپنی عارضی رہائش گاہ پر نہانے کے پانی کی کم یابی نے ہمیں ایسا سبق سکھایا کہ آپ کو بھی سبق سکھانے کی سوجھ گئی۔

واقعہ یہ ہے کہ ہمارے آبائی علاقے گوجرانوالہ میں تو اللہ کے فضل سے میٹھا اور پینے نہانے کے قابل پانی عام دست یاب ہے ،لیکن سرگودھے کے اکثر علاقوں میں زیرِ زمیں پانی بہت کھارا ہے، وہ پینے تو درکنار نہانے کے بھی قابل نہیں۔ پھر جس کو گوجرانوالے کے پانی کی عادت ہو اس کے لئے اور مسئلہ ہے۔ یہاں جس پانی کو بہت سے لوگ میٹھا پانی کہتے اور پینے کے لئے استعمال کر لیتے ہیں، ہمارے نزدیک وہ نہانے کے لیے بھی اضطراراً ہی استعمال ہو سکتا ہے۔ ہم جس مکان میں یہاں اکیلے رہتے ہیں، وہاں تین طرح کے پانی استعمال کرتے ہیں: زیرِ زمیں پانی واش روم کے لئے، دور کے نلکے سے لایا ہوا قدرے کم کھاری پانی نہانے کے لیے اور یونی ورسٹی آف سرگودھاکا تیار کردہ خوشآب واٹر پینے کے لئے۔ نہانے کا پانی روزانہ باہر سے لانا پڑتا ہے۔اس کے لیے ہم مختلف رضاکاروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(7 ستمبر 2106ء)   کی صبح کوئی رضا کار دستیاب نہ ہو سکا، اور ہمارے پاس ایک کین میں نہانے کے لیے کوئی دو تین کلو پانی تھا۔ پہلے تو سوچا کہ یار! رہنے ہی دیں آج نہاتے ہی نہیں، اس سے تو بال بھی گیلے نہیں ہوں گے ،لیکن پھر سوچا ٹرائی کر لیتے ہیں۔ اب تماشا دیکھیے کہ جس پانی سے بال تک گیلے نہ ہو سکنے کی پیش بینی تھی، اس سے ہم نے پہلے ٹوتھ برش کیا پھر بالوں کو شیمپو کیا اور پھر دوبار صابن لگا کر مکمل غسل فرمایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عام حالات میں ہم جتنے پانی سے ایک بار نہاتے ہیں، اتنے پانی سے بچت کر کے نہائیں تو زیادہ نہیں تو دس دن تو نہا ہی سکتے ہیں۔ مقصد اس رام کہانی کا یہ ہے کہ ہم اپنی آیندہ نسلوں کو آبی بحران سے بچانے کے لیے اپنے حصے کا کردار ادا کرتے ہوئے پانی ضائع کرنے سے اجتناب کریں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply