روشنی کاسفر۔۔محمد اسلم خان کھچی

رب ذوالجلال کی بنائی کائنات میں بزرگوں, ولی اللہ کرام کے فرمان کے مطابق کوئی 18000 عالم ہیں اور تقریبا 18000ً ہی مخلوقات ہیں۔ اس بات کی گواہی 1400 سال پہلے قرآن پاک بھی ان الفاظ میں دے چکا ہے۔
وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ
( کہ ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کے بھیجا ھے)
ان 18000 عالم میں دنیا ایک عالم ہے۔ آپ اسے جہان بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس جہان میں ایک انسان بھی رھتا ھے جسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ھے یعنی انسان ھی وہ ہستی ھے جو اللہ رب العزت کے عالم میں سب سے افضل ھے ۔
محبت و خلوص سے بھرپور , کسی کی تکلیف سے تڑپ اٹھنے کی عادت, کسی کو تکلیف میں دیکھ کے آنسو بہانا, عدل کرنا, محبت کرنا, انسانیت سے محبت کرنا, اللہ کی تمام تخلیقات سے محبت کرنا, ان کے کھانے پینے کا خیال رکھنا۔
یہ انسان کی بنیادی صفات ہیں اور حقیقت میں انسان ایسا ھی ھے۔ انسان کی اوپری صفات چاھے جتنی بھی بری نظر آئیں لیکن انسان اندر سے بہت نفیس اور نیک ھے اور یہ اسکی فطرت کا خاصہ ھے۔
ظالم اور سفاک ترین انسان بھی دن کے کسی لمحے اپنی اصل حالت میں ضرور آتا ھے۔ رات کے کسی پل اسکی آنکھوں سے آنسو بھی امڈ آتے ہیں اور یہی وہ پل ہوتا ھے حب رب العالمین اسے معاف فرما دیتے ہیں۔
راہ چلتے گاڑی روک کے راستے پہ پڑی اینٹ اٹھا کے ایک سائیڈ پہ رکھ دیتا ھے کہ کسی کو چوٹ نہ لگ جائے۔ اتنی معمولی سی نیکی سے وہ اپنے سارے گناہ معاف کروا لیتا ھے۔
گزرتے ہوئے کسی درخت کی ٹہنی کاٹ دیتا ھے کہ کہیں لٹکتی ہوئی ٹہنی کسی کی آنکھ میں نہ چھب جائے۔ اس معمولی سی نیکی سے وہ دنیا و آخرت میں مالدار کر دیا جائے۔
میڈیکل سٹور پہ کھڑے کسی لاغر غریب کو دو سو کی پین کلر لے دیتا ھے۔ غریب بوڑھا رات کو دوائی کھا کے بہت دنوں بعد سکون کی نیند سوتا ھے اور بدلے میں لوح محفوظ میں لکھے آپ کے گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں۔
پارک میں بیٹھے کسی پریشان حال کے پاس بیٹھ جاتے ہیں۔ سلام کرتے ہیں حال احوال پوچھتے ہیں ۔خود داری سے بھرپور شخص اپنے دل کا حال نہیں بتاتا۔ آپ چہرے پہ مسکراہٹ سجائے اس کے دونوں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہیں۔اپنائیت سے بھائی کہتے ہیں تو اسکی آنکھیں چھلک پڑتی ہیں ۔ اپنائیت کی محبت سے مغلوب وہ بتا دیتا ھے کہ بھائی صبح بچوں نے چائے پاپے سے ناشتہ کیا تھا۔ گھر نہیں جا رھا کہ بچوں نے کھانا نہیں کھایا ہو گا۔
آپ کوئی عام سی بریانی کی چار پانچ پلیٹ پیک کرا دیتے ہیں اور اسکا رابطہ نمبر بھی لے لیتے ہیں۔
بچے پیٹ بھر کے بریانی کھاتے ہیں اور خوشی سے اچھل کود کرتے ہیں۔
اوپر بیٹھا پروردگار آپ کی اتنی سی نیکی سے آپ کے بچوں کے نصیب کروڑوں کی دولت لکھ دیتا ھے اور آپ کو اپنا دوست بھی بنا لیتا ھے۔
آپ کے پاس صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس کوئی 18 سالہ جوان آتا ھے۔ آپ سے ہیلپ مانگتا ھے بجائے اسے دھتکارنے کے اسے آپ گاڑی میں بٹھاتے ہیں۔ حالات پوچھنے سے پتہ چلتا ھے کہ ویٹر تھا۔ کورونا کی وجہ سے کام بند ھے۔ آپ اپنی ایئر کنڈیشنڈ گاڑی سے اترتے ہیں جبکہ آپ ایک پل بھی گاڑی سے نہیں اتر سکتے کیونکہ گرمی آپ کو بے حال کر دیتی ھے لیکن نوجوان کی تکلیف کے احساس سے آپ میڈیکل سٹور پہ جاتے ہیں۔ نوجوان کیلئے دس پیکٹ کورونا بچاؤ ماسک کے خریدتے ہیں۔ واپس آتے ہیں۔ نوجوان کو 500 روپے بھی دیتے ہیں کہ گھر والوں کو کھانا کھلائے اور ساتھ میں مشورہ دیتے ہیں کہ کل کسی ہاسپٹل کے باہر ماسک بیچنا شروع کر دے۔
وہ ماسک بیچنا شروع کرتا ھے اور شام تک باعزت طریقے سے 500 کما لیتا ھے اور ساتھ اسے بزنس کی اہمیت کا احساس ہو جاتا ھے ۔آپ کے 1500 روپے خرچ کرنے سے اسکے سارے خاندان کی قسمت بدل گئی۔ کھانا ملا اور عزت بھی بحال رھی۔ ہو سکتا ھے کہ کوئی آٹھ دس سال بعد وہ کورولا گرینڈی سے اترتا ہوا آپ سے ملے اور آنکھوں میں آنسو سموئے عقیدت سے آپ کے ہاتھ چومے کیونکہ بزنس جیسا آئیڈیا آپ نے دیا تھا ورنہ شاید وہ اب تک 12000 سیلری پہ ووٹر ہوتا۔ آپ کے اس عمل سے
آپ کو دنیا میں عزت ملی اور لوح محفوظ کی تحریروں میں آپ کے بارے میں لکھے گئے حروف تبدیل ہوتے گئے۔ اور ایک وقت ایسا آیا کہ آپ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ بیوی بین کر رھی ھے کہ آپ تو 24 ڈگری ٹمپریچر سے اوپر گرمی میں رہ ھی نہیں سکتے تھے۔ اب قبر کی خوفناک گرمی میں کیسے گزارہ کرو گے لیکن اس بیچاری کو کیا پتہ کہ جب آپ اپنی ٹھنڈی ٹھار لینڈ کروزر سے اتر کے نوجوان کیلئے ماسک خریدنے گئے تھے۔ اسی وقت ھی آپکی قبر میں دو ٹن کا ایئر کنڈیشنر لگوا دیا گیا تھا۔
میں مذہب کے بارے میں نہ زیادہ جانتا ہوں۔ نہ ڈسکس کرنے کی ہمت ھے لیکن اتنا جانتا ہوں کہ اس دنیا میں انسان کا بس یہی کام ھے کہ وہ کسی کے درد کو محسوس کرے اور درد کا مداوا کرے۔ یہی اس کی کامیابی ھے۔ دنیا میں بہت درد ہیں اور آپکو تلاش بھی نہیں کرنے پڑیں گے۔ اگر آپ کے دل میں نیت ہو گی تو درد والا اللہ تعالٰی کے حکم سے خود آپ کے پاس آ جائے گا۔
اپنی تحریروں میں اکثر کچھ ذاتی واقعات بھی لکھ دیتا ہوں لیکن اس کا مطلب خود نمائی نہیں ہوتا۔ مقصد صرف بتانا ہوتا ھے کہ آپ کی بہت ھی معمولی کوشش سے کسی کا درد کم ہو جاتا ھے۔
کچھ ماہ پہلے میں اپنی ایک انڈر کنسٹرکشن سائیٹ پہ بیٹھا تھا کہ دس بارہ کی عمر کا لڑکا میرے پاس آیا۔ میلے کچیلے کپڑے, پاؤں میں ٹوٹی چپل سے کسی غریب گھرانے کا بچہ محسوس ہو رھا تھا۔ بیٹھنے کی اجازت مانگی اور بیٹھ گیا۔
مجھے اللہ رب العالمین نے ایک بہت خوبصورت خوبی سے نوازہ ھے کہ میرے چہرے پہ ہر پل مسکراہٹ سجی رھتی ھے۔ مخمور سی آنکھیں مسکراتی رھتی ہیں اور کسی بچے کو بھی مجھ سے بات میں جھجک محسوس نہیں ہوتی۔
میرے ساتھ سب انجینئر مسٹر گلفام اکبر کام کرتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی اتنا ایماندار ,سچا اور محنتی انسان نہیں دیکھا۔ انہیں کام سے عشق کی حد تک لگاؤ ھے اور عادات بھی مجھ سے اتنی ملتی ھے کہ کبھی کبھی مجھے لگتا ھے کہ اسکی روح مجھ میں سرایت کر گئی ھے۔
میں نے گلفام سے بچے کیلئے چائے کا آرڈر دینے کا کہا تو بچہ کہنے لگا۔۔۔ سر مجھے پہلے ناشتہ کرائیں, بعد میں چائے پیوں گا۔ مجھے بچے کی فرمائش بہت اچھی لگی۔ ناشتے کا آرڈر دیا اور اس سے گپ شپ کرنے لگا۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ بچہ اور اسکے گھر والے کل سے بھوکے ہیں۔ ایک چھوٹا بھائی ھے۔ بزرگ ماں ھے اور معذور باپ ھے۔ ناشتہ آگیا۔ بچے نے ڈٹ کے ناشتہ کیا۔ چائے پی اور خوشی اسکی آنکھوں سے چھلکنے لگی۔
ناشتے کے بعد میں نے مسٹر گلفام اکبر کو بلایا۔ اسے کہا کہ بچے کو ساتھ لے جائیں اور آٹا اور کچھ پیسے انکے گھر دے آئیں ۔بچہ آٹا اٹھا نہیں سکے گا۔ گلفام نے سامان وغیرہ لیا اور بچے کو ساتھ لیکر اس کے گھر چلا گیا۔۔۔
حب واپس آیا تو گلفام کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔پوچھنے پہ بتایا کہ
سر۔۔۔ جب میں نے آٹے کی بوری انکے گھر میں رکھی تو بزرگ خاتون اتنا روئی کہ میں ابھی تک برداشت نہیں کر پا رھا۔ وہ زور زور سے روتی چلی جارھی تھی اور دعائیں بھی دیتی چلی جا رھی تھی۔
دنیا میں ہزاروں ایسے گھرانے آپکی شفقت کے منتظر ہیں اور سچ کہوں کہ آپ کو ڈھونڈنے کی ضرورت بھی نہیں۔
آپ آزما لیجیے کہ آپ صرف نیت کر کے جائیں کہ میں نے کسی مستحق غریب خاندان کی مدد کرنی ھے تو یقین کیجئے وہ مستحق شخص آپ کے پاس خود بخود پہنچ جائے گا اس کیلئے آپ کو تردد کرنے کی ضرورت نہیں۔
جب آپ کسی کچھ کو دے رھے ہوتے ہیں تو آپ دراصل اس کے بدلے میں کئی گنا لے رھے ہوتے ہیں۔ آپ تجربہ کر کے دیکھ لیجیے۔ آپ کو بہت جلد اسکا یقین ہو جائے گا۔
آج میں آپکو امیر ہونے کا نسخہ بتاتا ہوں کہ آپ دس دس روپے کے نوٹوں کی ایک گڈی کار کے ڈیش بورڈ میں رکھ لیجیے۔۔۔ جیب میں رکھ لیجیے ۔اور ساتھ میں یہ دعا بھی کیجئے۔
یہ ہزار روپے کے نوٹ میں حقدار کو دینا چاہتا ہوں۔ بس حقدار ھی میرے پاس آئے۔۔۔
اس کے بعد آپ ہر مانگنے والے کو دس کا نوٹ نکال کے دیتے رھیئے۔ جو بھی آئے ,حقدار ھے, نہیں ھے
بس آپ بغیر دیکھے دیتے رھیئے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے پاس صرف حقدار ھی آئیں گے اور آپ دنوں میں امیر ہوتے چلے جائیں۔ اللہ کریم آپکو مسائل سے آزاد کرتا چلا جائے گا کیونکہ آپ لوگوں کے مسائل حل کرتے چلے جا رھے ہیں۔
پوری کائنات ایک مخصوص دائرے میں گھوم رہی ھے اور اسی طرح دنیا میں ہر چیز کا بھی ایک سرکل ھے۔ حتی کہ دنیا فانی ھے لیکن دنیا میں بنی کوئی چیز فانی نہیں۔ وہ ہمیشہ رھے گئ۔ آم کھا کے گٹھلی سے دوبارہ آم کا بن جانا۔
پانی کا زمیں میں جانا اور پھر واپس آجانا۔۔۔
جو چیز کائنات میں بنا دی گئی ھے وہ تاقیامت رھے گی۔ اسکی مقدار نہ کم ہو گی نہ زیادہ ہو گی۔ پانی پیتے ہیں, زمیں میں جاتا ھے اور ہم اسے واپس نکال لیتے ہیں جو اڑ جاتا ھے وہ بھی واپس آ جاتا ھے۔
حتی کہ سورج کی روشنی بھی ضائع نہیں ہوتی۔ جتنی پیدا ہوتی ھے وہ کسی نہ کسی شکل میں موجود رھتی ھے اور سفر کرتی رھتی ھے۔
اس کی مثال ہم یوں لے لیتے ہیں کہ
مظفر گڑھ کے دور دراز گاؤں لسوڑی کھر کا زمیندار ملک ابراہیم کھر گنا کاشت کرتا ھے۔ گنے کے زمین سے نکلتے ھی سورج کی روشنی اس پہ پڑنا شروع ہو جاتی ھے۔ گنا بڑا ہوتا چلا جاتا ھے۔ اب سورج گھومتے ہوئے اسے ہر طرف سے روشنی فراہم کرتا ھے۔ کبھی سوا نیزے پہ آ کے, کبھی سائیڈ سے گزر کے۔ گنے کو روشنی ملتی رھتی ھے اور سورج کی فراہم کردہ روشنی کو وہ خود میں جمع کرتا رہتا ھے۔ گنا مکمل تیار ہو جاتا ھے۔ اسے کاٹ کے شوگر ملز میں بھیج دیا جاتا ھے۔ کرشنگ ہوتی ھے اور کیمیکل پراسس کے بعد گنا چینی میں تبدیل ہو جاتا ھے۔ چینی کو پولیتھین بیگ میں پیک کر کے مارکیٹ میں بھیج دیا جاتا ھے۔ چینی بکتے بکتے صوبہ سندھ کے قدیم شہر بدین کے دور دراز علاقے میں پہنچ جاتی ھے۔
سولہ سالہ میٹرک کا طالب علم پڑھائی میں تھوڑا کمزور ھے اور اس کمی کو پورا کرنے کیلئے وہ ٹیوشن کا سہارا لیتا ھے۔ ٹیچر کا گھر دور ھے اور ٹیچر شام 5 بجے سے سات بجے کا وقت دیتا ھے۔ روزانہ سائیکل چلائے مقررہ وقت پہ پہنچ جاتا ھے۔
ایک دن کچھ مصروفیت کی وجہ سے دوپہر کا کھانا نہیں کھا پاتا اور شام کو ٹیوشن پہ چلا جاتا ھے۔اس دن ٹیچر سبجیکٹ مکمل کرتا ھے اور 8 بج جاتے ہیں ۔اندھیرا چھا جاتا ھے اور جوان کو بھوک بھی بہت لگ رھی ہوتی ھے ۔
جیسے ہی وہ روڈ پہ آتا ھے تو اسے چائے کا ڈھابہ نظر آتا ھے۔ رکتا ھے, تیز چینی ڈلوا کے چائے کے دو کپ پیتا ھے ۔انرجی بحال ہوتی ھے۔ سائیکل کے ڈائنمو کو ٹائر کے ساتھ فکس کرتا ھے۔ چائے سے حاصل کردہ انرجی سائیکل کے پیڈل پہ منتقل ہوتی ھے۔ سائیکل کا پہیہ گھومتا ھے اور ٹائر کے ساتھ فکس ڈائنمو سے پیدا کردہ روشنی سے پوری سڑک روشن ہو جاتی ھے۔
اور یہ وھی روشنی ھے جو لسوڑی کھر کے کھیت سے سفر کرتی کرتی شوگر مل سے ہوتی ہوئی بدین میں چائے کے ڈھابے پہ پہنچی اور بدین کی سنسان سڑک کو روشن کر دیا۔ ۔۔۔
کسی کی زندگی کو روشن کیجیئے۔ ۔۔۔آپ کی زندگی روشن ہو جائے گی۔
کسی کی شوگر ڈاؤن ہو رھی ہو اور وہ چند ھی منٹ میں مرنے والا ہو تو آپ کے دیئے گئے دس روپے کی ٹافیاں اسکی زندگی بچا لیں گیں۔
اللہ کے نام پہ خود کو قربان کرتے رھیئے۔۔۔۔
دل نرم ہو گا۔ سختی قلب دور ہو گی۔
حب سختی دور ہوگی تو آپکی آنکھوں سے وقت بے وقت آنسو نکلیں گے۔ ۔۔
آنسو آپکو اللہ تعالٰی کا دوست بنا دیں گے۔ولی اللہ بنا دیں گے۔۔۔
بڑا آسان سا راستہ ھے۔۔۔
انسانیت سے محبت اللہ اور رسول اللہ ﷺ سے محبت ھے۔
اللہ کریم آپکو دوسروں کے درد محسوس کرنے کی طاقت عطا فرمائے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply