بولتا آسمان۔۔۔عنبر عابر

“جیسا کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ ملک تباہی کا شکار تھا۔۔۔پھر ہم آئے۔۔۔انسان دوست آئے اور اس ملک کی بہتری کیلئے، انسانیت کی بھلائی کیلئے بھرپور کوششیں شروع ہوئیں۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کوششوں میں کامیاب ہوئے ہیں؟“
میڈیا کا سرخ و سفید کارندہ جو تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا، تباہ شدہ ملک کے ادھیڑ عمر شہری سے لائیو انٹرویو لے رہا تھا۔گو اس شہری کے تن پر موجود کپڑے مناسب تھے لیکن یہ مناسب کپڑے بھی اس کی شخصیت سے میل نہیں کھاتے تھے۔اگر باریک بینی سے دیکھا جاتا تو یہی حقیقتِ حال دریافت ہوتی کہ ان کپڑوں کیلئے اسے بطورِ خاص رضامند کیا گیا ہے۔
“ہاں۔۔۔ہم یقیناً بہت خوش ہیں۔۔۔ہمیں وہ دور یاد ہے جب ہم بموں کے دہشت انگیز دھماکوں میں سوتے تھے اور پھر آنکھ انہی آوازوں کے شور سے کھلتی تھی۔یقیناً یہ ایک خوش کن امر ہے کہ ہمارا ملک آگے بڑھ رہا ہے۔دنیا میں اپنا مقام حاصل کر رہا ہے۔دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ ہوچکا ہے اور اب وہ لوگ نظر نہیں آتے جن سے ہم خوف کھاتے تھے “

Advertisements
julia rana solicitors

ادھیڑ عمر کے الفاظ اور ان لفظوں کی ادائیگی اس تربیت کا ثمر تھی جو اسے دو تین دن سے دی جارہی تھی۔
“کیا آپ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے آنے کے بعد اظہارِ رائے کی آزادی ملی ہے اور وہ صورتحال ختم ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ہر شخص خود کو زنجیروں میں جکڑا محسوس کرتا تھا؟“
ادھیڑ عمر شخص کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ ابھرنے لگی تھی لیکن پھر اس کے دماغ میں وہ نوٹ جگمگانے لگے جن کا اس سے وعدہ کیا گیا تھا۔ہاں اسے اپنی اداکاری میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔مسکراہٹ ابھرنے سے پہلے ہی غائب ہوگئی تھی۔
“میرا جواب ہاں میں ہے۔۔۔اور اس “ہاں“ کیلئے ہم نے خواب دیکھے تھے۔۔۔امیدیں باندھی تھیں۔ہمیں اپنے خدا سے شکوہ تھا ۔ہمیں اس گونگے آسمان سے گلہ تھا۔غم اور غصہ ہمیں اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے۔ آج ہماریں سوچیں شکایتوں سے پاک ہیں۔اب ہم صحیح معنوں میں جی سکتے ہیں اور دنیا کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں“
تھری پیس سوٹ والے کے چہرے سے اطمینان جھلک رہا تھا۔۔۔بس آخری سوال رہ گیا تھا اور انٹرویو ختم ہونے والا تھا۔
“آپ لوگوں کے علم میں ہوگا بیرون ملک کی مسلح افواج اخلاقی ضابطوں کی مکمل پابندی کرتی ہے۔۔۔انہوں نے آپ لوگوں کیلئے اپنی جانیں قربان کیں۔۔یسوع مسیح ان پر اپنی رحمت نازل کرے۔ کیا کبھی ایسا رویہ سامنے آیا جس سے ان کی موجودگی پر اعتراض پیدا ہوتا ہو؟“
ادھیڑ عمر شخص تھوڑی دیر کیلئے چپ ہوگیا تھا۔یکایک اس کی آنکھوں کے گوشے نم ہوگئے تھے۔یہ اس کی سات سالہ بچی کے چیتھڑے تھے جو اس کی اداکاری میں خلل ڈال رہے تھے۔اس کے دماغ میں کئی تصویریں گڈ مڈ ہونے لگیں۔
چیتھڑے،رنگین نوٹ،چیتھڑے،جانفزا زندگی،چیتھڑے۔۔۔چیتھڑے۔۔ چیتھڑے۔۔۔
وہ تھوک نگلتے ہوئے گویا ہوا۔
“میں نے اپنی آنکھوں سے یہاں سات سات سالہ بچیوں کے چیتھڑے دیکھے تھے“ اس کا گلا رندھ گیا تھا اور آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے تھے۔”آج میں اپنی آنکھوں سے چھوٹے بچوں کو سکول جاتے دیکھتا ہوں“
اس نے ڈرتے ڈرتے اوپر آسمان کی طرف دیکھا۔آسمان آج بھی گونگا تھا۔وہ طنزیہ انداز میں مسکرا دیا۔۔۔”یہ ہمیشہ گونگا رہتا ہے“
یکایک فضا جیٹ طیاروں کی گونجدار آوازوں سے تھرا گئی اور اس سے پہلے کہ لائیو انٹرویو ختم ہوتا، کیمرہ عام آبادی پر بم گرنے کے مناظر اور بچوں، عورتوں کی چیخیں دنیا تک پہنچا چکا تھا۔
بے جان آسمان بول پڑا تھا۔۔۔انسان گونگا رہ گیا تھا!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply