پلانک کی قسمت(57)۔۔وہارا امباکر

کیا تھیوری ایجاد ہوتی ہے یا دریافت؟ ایجاد کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسی چیز تخلیق کرنا جو پہلے نہ ہو۔ دریافت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسی چیز سے آگاہ ہو جانا جو پہلے نامعلوم ہو۔ اس سوال کو ہم دونوں طرح دیکھ سکتے ہیں۔ فطرت کے مظاہر اور ان کے پیچھے کارفرما اصول و ضوابط ہم سے الگ آزادانہ طور پر موجود ہیں۔ ہم خواہ ان سے واقف ہوں یا نہیں، یہ تو ویسے ہی موجود ہیں اور سائنسدان ان قوانین کو دریافت کرتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں کہ کہیں پر کوئی تھیوری پائی جاتی ہے۔ ٹیلی سکوپ لگائی اور اس کو دیکھ لیا۔ وضاحت کے فریم ورک، ریاضی کے سٹرکچر اور فطری قوانین کے بیان سائنسدان ایجاد کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میونخ یونیورسٹی کے فزکس کے سربراہ کا طلبا کو 1875 میں دیا گیا مشورہ تھا کہ وہ فزکس کی طرف نہ آئیں۔ فزکس اپنی تکمیل کے قریب ہے۔ ایک نوجوان جنہوں نے اس مشورے کی پرواہ نہیں کی، وہ میکس پلانک تھے۔ محنتی، فرض شناس، اپنے کام سے کام رکھنے والے اور خطرات مول نہ لینے والے پلانک کا کوئی انقلاب شروع کرنے کا پلان نہیں تھا۔ اور جو تحریک ان کی دریافت نے شروع کی تھی، وہ کئی برسوں تک خود اس کے مخالف تھے۔

پلانک نے اپنی ڈاکٹریٹ کے لئے تھرموڈائنکس کا انتخاب کیا۔ یہ حرارت کی فزکس تھی اور فزکس کا نمایاں شعبہ نہیں تھا لیکن پلانک کو سکول سے پسند تھا۔ اس وقت چند سائنسدان جو ایٹم کو قبول کر چکے تھے، اب سمجھنے لگے تھے کہ تھرموڈائنمکس کا مکینزم انفرادی ایٹموں کی حرکت کا شماریاتی نتیجہ ہے۔ مثلاً، اگر کسی کمرے کے ایک کونے میں دھویں کا بادل ہو، تو وہ کمرے میں پھیل جائے گا، نہ کہ مزید کثیف ہو جائے گا۔ یہ وہ پراسس ہے جسے فزسٹ “وقت کا تیر” کہتے ہیں۔ مستقبل وہ سمت ہے جس طرف دھواں پھلتا ہے اور ماضی وہ سمت ہے جس طرف دھواں اکٹھا ہوتا ہے۔ اور یہ ایک معمہ لگتا ہے۔ کیونکہ حرکت کے قوانین کا اگر دھویں کے انفرادی ایٹم پر اطلاق کیا جائے تو یہ کوئی ایسی نشاندہی نہیں کرتے کہ مستقبل کہاں ہے اور ماضی کہاں پر لیکن اس فینامینا کو ہم ایٹموں کے شماریاتی تجزیے سے نکال سکتے ہیں۔ وقت کا تیر صرف اسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب ہم بہت سے ایٹموں کا نتیجہ کل کے طور پر دیکھیں۔

پلانک کو یہ وضاحت بالکل پسند نہیں تھی۔ اور وہ ایٹم کو ایک تخیل سمجھتے تھے اور انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی کا مقصد یہ رکھا تھا کہ بغیر ایٹم کے تصور کو بیچ میں لائے ہوئے تھرموڈائنکس کے اصول سے کنکریٹ اور قابلِ تصدیق نتائج نکالے جا سکیں۔ اور اس کے لئے کسی شے کے سٹرکچر کے بارے میں کوئی مفروضہ نہ لینا پڑے۔ انہوں نے لکھا، “ایٹم کی تھیوری کامیاب رہی ہے لیکن اس کو ہمیں ترک کرنا پڑے گا اور مسلسل مادے کا آئیڈیا اس کی جگہ لے گا”۔

پلانک نے اس فقرے سے مستقل کی پیشگوئی جو کی تھی، وہ غلط ثابت ہوئی۔ جس چیز کو ترک کرنا پڑا، وہ ایٹمی تھیوری نہیں تھی بلکہ پلانک کی اس کے خلاف مزاحمت تھی۔ اور آخر میں انہی کا اپنا کام ایٹم کے حق میں ایویڈنس بنا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھیوری ایجاد ہوتی ہے یا دریافت؟ ہم اپنے پہلے سوال پر ایک نظر دوبارہ ڈالتے ہیں اور یہ ایک میٹافزیکل سوال ہے۔ ہم اپنی تھیوریوں (کی دریافت) کے ذریعے جو تصویر بناتے ہیں، وہ کس حد تک literal reality ہے یا تھیوریوں (کی ایجاد) کے ذریعے جو ماڈل بناتے ہیں، کیا وہ مختلف طریقے سے بھی بنایا جا سکتا تھا۔

ابھی کے لئے فلسفے کو ایک طرف کر کے اس کو ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں۔ ایجاد اور دریافت کے فرق کی ایک اور جہت بھی ہے جس کا تعلق پراسس سے ہے۔ ہم کسی شے کو ایکسپلور کرتے ہیں تو کچھ دریافت کرتے ہیں اور اکثر ایسا اتفاقاً ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، کسی جنگل کی چھان بین کرتے ہوئے درمیان میں کوئی کھنڈر دریافت ہو جائے، کسی بیابان کو ایکسپلور کرتے ہوئے کوئی چشمہ دریافت ہو جائے۔ دریافت اتفاقًا ہیں۔ پہلے سے کوئی منصوبہ بنا کر یہ کام نہیں کیا جاتا۔ اس کے برعکس ایجاد کسی ڈیزائن اور کنسٹرکشن سے کی جاتی ہے اور اس میں ناکامیاں، غلطیاں اور اصلاح کا عمل تو ہوتا ہے، اس میں حادثاتی طور پر کچھ ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ کامیابی کا مطلب کیا ہے۔ کس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش میں ہیں۔

اگر اس نظر سے دیکھیں تو جب آئن سٹائن ریلیٹیویٹی کی تھیوری تک پہنچے تو انہیں معلوم تھا کہ وہ کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ریلیٹیویٹی کی تھیوری ایجاد کی۔ جبکہ اس کے برعکس کوانٹم تھیوری کا سفر بہت مختلف رہا۔ اس کی ڈویلپمنٹ کئی اتفاقات کا نتیجہ رہی۔ اس تعریف کے لحاظ سے اس کو دریافت کہا جا سکتا ہے۔ پلانک جو ڈھونڈنے گئے تھے، انہوں نے اس کا متضاد پا لیا۔ (ویسے جیسے ایڈیسن مصنوعی روشنی ایجاد کرنے کی کوشش میں مصنوعی اندھیرا دریافت کر لیتے)۔ اور اس پر مزید یہ کہ دریافت کرنے والوں کو کئی بار خود بھی سمجھ نہیں ہوتی کہ خود ان کے اپنے کام کا مطلب کیا ہے اور جب دوسرے اس کی تشریح کرتے ہیں تو وہ خود اس کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ یہی پلانک کی قسمت تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پلانک کا 1879 میں لکھا گیا کسی پر کوئی تاثر نہ چھوڑ سکا۔ کسی نے بھی اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ اس نے ان کے کیرئیر کو تو نقصان پہنچایا لیکن ان کے شوق کو نہیں۔ اگلے سالوں میں یونیورسٹی میں بغیر تنخواہ کے لیکچر کے طور پر کام کرتے رہے اور طلبا سے ملنے والی ٹپ پر گزارا کرتے رہے اور والدین کے گھر میں رہتے رہے لیکن کام جاری رکھا۔

یہ ویسے ہی ہے جیسے کوئی جدوجہد میں مصروف آرٹسٹ اپنے فن کی خاطر مشکلیں جھیل رہا ہو۔ عام طور پر لوگ فزسٹ کو اپنے پیشے کے ساتھ اس طرح وفادار لگن کے ساتھ کام کرنے کا تصور نہیں کرتے لیکن یہ غیرمعمولی نہیں۔ ناکام سائنسدانوں کی تعداد ناکام فنکاروں کی طرح کامیاب سائنسدانوں سے زیادہ ہے۔ اور ان کی زندگی بھی مایوسی یا جدوجہد میں ہی گزرتی ہے۔

پلانک نے مستقل مزاجی سے کام جاری رکھا اور چار سال بعد وہ یونیورسٹی آف کیل میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس سے چار سال بعد ان کا کام لوگوں کو اتنا متاثر کر چکا تھا کہ انہیں یونیورسٹی آف برلن میں بلا لیا گیا، جہاں 1892 میں انہیں فُل پروفیسر بنا دیا گیا۔ اب پلانک تھرموڈائنامکس کے شعبے کی ایلیٹ میں آ چکے تھے اور یہ ان کے لئے ابتدا تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply