• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بادشاہتٗ جمہوریت اور عہد نبوی کا نمونہ (حصہ اوّل)۔۔مرزا مدثر نواز

بادشاہتٗ جمہوریت اور عہد نبوی کا نمونہ (حصہ اوّل)۔۔مرزا مدثر نواز

تاریخ کے بند دریچوں میں جھانک کر قدیم بادشاہتوں کا مطالعہ کیا جائے تو اس دور کو خوش قسمت تصور کیا جا سکتا ہے۔ گو دنیا آج بھی مکمل جمہوری نظام میں نہیں ڈھل سکی اور آمرانہ ذہنیت ہی غالب نظر آتی ہے لیکن پھر بھی یہ کمزور‘ اپاہج‘ مفلوج و بد ترین جمہوریت بھی پہلے زمانوں کی بہترین بادشاہت سے بہتر ہے۔ آج جمہوری معاشروں میں بھی آزادی اظہار رائے‘ آزاد صحافت‘ بنیادی انسانی حقوق‘ طاقتور و بااثر کے کمزور پر کھلے عام ظلم و ستم اور پھر ہر قسم کی گرفت سے آزادی پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں لیکن ان تمام خامیوں کے باوجود شاہانہ نظام حکومت (جس میں شاہی و مقتدر خاندان کسی قاعدہ و قانون کا پابند نہیں ہوتا‘ بادشاہ کے کان صرف مدح سراحی سننے کے عادی ہوتے ہیں‘ اختلاف رائے ناقابل برداشت اور ہر قسم کے فیصلے بادشاہ کی طبیعت و مزاج کے مرہون منت ہوتے ہیں‘ دل نے چاہا تو سنگین جرائم میں ملوث عناصر کو معاف کر دیا یا پھر بے گناہ کو سولی پر لٹکا دیا‘ ساری سلطنت و ملکی خزانہ ذاتی ملکیت تصور ہوتا ہے‘ بادشاہ کی زبان سے نکلا ہوا ہر حرف‘ حرف آخر اور قانون کا درجہ پاتا ہے‘ شاہی طبقہ کو ہر قسم کے احتساب اور عوام کے لیے رائج قانون کی پابندیوں سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے‘ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے باپ‘ بھائیوں اور خاندان کے دیگر افراد کا قتل جائز سمجھا جاتا ہے‘ کسی کو تاحیات قید میں ڈال دینا‘ کسی کی آنکھوں میں گرم لوہے کی سلائیاں پھروا دینا‘ کسی زندہ کی کھال کھنچوا دینا‘ نیم مردہ لاشوں پر دستر خوان بچھا کر کھانا کھاناعام سی باتیں ہیں‘ بادشاہ کے بعد ولی عہد کو قابلیت و اہلیت و بلوغت کے بغیر تخت پر بٹھا دیا جاتا ہے‘ بڑے بڑے صاحب الرائے و بزرگ و منجھے ہوئے سیاستدان بالوں میں چاندی سجائے ولی عہد شہزادے یا شہزادی کے آگے سر جھکائے کھڑے رہتے ہیں) کو ذہن میں لا کر سوچیں تو موجودہ جمہوری نظام تمام تر خامیوں کے باوجود آپ کو بھلا معلوم ہو گا۔ان لوگوں کو خراج تحسین اور ان پر رشک کرنے کو جی کرتا ہے جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیرظالم و جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے کی ہمت کرتے تھے حالانکہ آج کل لوگ کالے شیشوں والی گاڑی کا نام سن کر کانپ اٹھتے ہیں۔
دنیا میں جو سلطنتیں قائم ہوئیں یا ہوتی ہیں ان کا عام قاعدہ یہ ہے کہ ایک فاتح ایک گروہ کو لے کر اٹھتا ہے اور لاکھوں کو تہ تیغ کر کے اپنی طاقت و قوت سے سارے جتھوں کو توڑ کر ہزاروں گھروں کو ویران کر کے سب کو زیر کر کے اپنی سرداری اور بادشاہی کا اعلان کر دیتا ہے اور ان تمام خونریزیوں کا مقصد یا تو شخصی سرداری یا خاندانی برتری یا قومی عظمت ہوتی ہے۔ کئی صدیاں پہلے دنیا نے ایک عظیم الشان انقلاب دیکھا جس نے تمام خود ساختہ قوانین‘ سیاسی تکلفات‘ بدعات اور مظالم سے لبریز شاہانہ نظام ہائے سلطنت کو بیخ و بنیاد سے اکھاڑ دیا‘ اس انقلاب نے نہ صرف کسریٰ و قیصر کی شخصیتوں کا خاتمہ کر دیا بلکہ خود کسرویت اور قیصریت کو صفحہ ہستی سے فنا کر دیا۔ دنیا میں سلطنتوں کے بانیوں کا مقصد قیام سلطنت کے سوا کچھ نہیں ہوتا‘ لیکن اسلام جو سلطنت قائم کرنا چاہتا تھا وہ بجائے خود مقصود بالذات نہ تھی بلکہ اس کے ذریعہ سے دنیا کے تمام ظالمانہ نظام ہائے سلطنت کو مٹا کر جن میں اللہ کے بندوں کو بندوں کا اللہ ٹھہرا دیا گیا تھا‘ اس کی جگہ اللہ کے فرمان کے مطابق ایک ایسا عادلانہ نظام قائم کرنا مقصود تھا جس میں اللہ کے سوا نہ کسی دوسری ارضی و سماوی طاقت کی سلطنت ہو اور نہ کسی دوسرے کا قانون رائج ہو اور جس میں فرمانروا افراد کی شخصیت‘ قومیت‘ زبان‘ نسل‘ وطن اور رنگ سے اس کو تعلق نہ ہوبلکہ اس کی جدوجہد کا سارا منشاء سلطنت کے قانون‘ طرز سلطنت‘ طریق حکومت اور عدل و انصاف اور احکام کے حق و باطل سے ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

سلاطین شاہانہ شان و تجمل سے اونچے اونچے محلوں اور ایوانوں میں بڑے بڑے قیمتی لباسوں اور سونے چاندی اور زر و جواہر کے زیوروں سے آراستہ ہو کر اونچے اونچے بیش بہا تختوں پر جلوس کرتے تھے‘ ان کے امراء علی قدر مراتب سونے چاندی کی مرصع کرسیوں پر اور ریشمی گدوں پر بیٹھتے تھے۔ آپﷺ کی تعلیم نے یک قلم ان مصنوعی تفرقوں کو مٹا دیا‘ نشست کے لئے سونے چاندی کا سامان اور ریشمی لباس و فرش حرام کئے گئے‘ سونے کے زیورات مردوں کے لیے حرام ٹھہرے‘ امام وقت اور اس کے احکام کے لئے مسجد اور اس کا صحن ایوان تھا‘ حاجب و دربان کے پہرے اٹھ گئے‘ چاؤش و نقیب رخصت کر دیئے گئے‘ طلائی و نقرئی و زمردیں تخت اٹھوا دیئے گئے‘ امام اور اس کے حاکم عام مسلمانوں کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر نشست کرتے تھے اور پستی و بلندی کی تفریق باقی نہیں رکھی گئی‘ چنانچہ وضع لباس کے لحاظ سے آپﷺ اور عام صحابہؓ میں کسی قسم کا فرق مراتب موجود نہ تھا۔ اسی طرح نشست میں بھی آپ نے تفوق و برتری کے امتیاز کو اس قدر مٹایا کہ مجلس کے اندر آپ میں اور ایک عام آدمی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا‘ چنانچہ آپ جب صحابہ کی مجلس میں بیٹھتے تو باہر سے آنے والوں کو پوچھنا پڑتا کہ تم میں محمد کون ہیں‘ لوگ اشارہ سے بتاتے‘ صحابہ نے چاہا کہ کم از کم ایک چبوترہ ہی بنا دیا جائے جس پر آپ جلوہ افروز ہوں مگر اس کو بھی آپ نے پسند نہیں فرمایا۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply