• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • پاپی:خط کہانیاں،راکھ کے نیچے چنگاریاں/ڈاکٹر خالد سہیل ۔مرزا یاسین بیگ(خط5،6)

پاپی:خط کہانیاں،راکھ کے نیچے چنگاریاں/ڈاکٹر خالد سہیل ۔مرزا یاسین بیگ(خط5،6)

ڈئیررضوانہ !
اگر آپ کے پہلے خط میں مشرقی محبوبہ والا انداز تھا
؎ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

تو دوسرے خط میں روایتی دلہن والی کیفیت ہے جس سے جب مولوی نکاح پڑھاتے ہوئے پوچھتا ہے ‘ منظور ہے؟‘ تو وہ خاموش رہتی ہے۔ نہ اقرار کرتی ہے نہ انکار اور اس کی خاموشی کو ہی رضامندی سمجھا جاتا ہے۔ آپ نے بھی انکار نہیں کیا تو میں اسے ہی نیم رضامندی سمجھتا ہوں کہ آپ ہی وہ رضوانہ صدیقی ہیں جس کی میں تلاش میں نکلا ہوا ہوں۔اس کامیابی پر میں فیس بک کی دیوی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جس نے مجھے میری برسوں کی بچھڑی دوست سے ملوایا۔
آپ کا دوست نامہ پڑھ کر جہاں مجھے خوشی ہوئی وہیں قدرے رنج بھی ہوا۔ جہاں کچھ سکھ ملا وہیں کچھ دکھ بھی ہوا۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے نوجوانی میں آپ کے دل میں جو معصوم خواہشیں جو آرزوئیں جو آدرش اور جو خواب تھے انہیں شادی کی دیمک نے چاٹ لیا ہو۔ آپ نے اپنے شوہر اور بچوں کا ذکر اس درد بھرے انداز سے کیا ہے جیسے آپ روایتی زندگی کی قید میں ہوں اور اگر ایسا ہی ہے عین ممکن ہے کہ یہ خطوط اس قید میں ایک کھڑکی اور اگر کھڑکی ممکن نہیں تو کم از کم ایک روشن دان ہی کھول دیں جس سے تازہ ہوا کا جھونکا اندر آ سکے اور آپ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جائے۔ مجھے آپ کی دلفریب مسکراہٹ آج تک یاد ہے ایسی مسکراہٹ جس کو چاہنے والے بہت سے تھے۔ آپ چاہتیں تو کسی بھی پرستار کو اپنا محبوب بنا کر محبت کی کھلی فضا میں پرواز کر سکتی تھیں۔
آپ نے میری ذاتی زندگی کے بارے میں کافی کچھ جاننے اور بہت کچھ نہ جاننے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
؎ پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

میں آج کل پشاور میں نہیں کینیڈا کے شہر مسی ساگا میں مقیم ہوں جسے پاکستانی مہاجر چند نوجوان مشرقی نازنینوں اور بہت سی شادی شدہ مہہ جبینوں’ جن کے شوہر مشرقِ وسطیٰ میں رہتے ہیں’ کی وجہ سے مذاق سے مسز آغا بھی کہتے ہیں۔میں نے ایک دیدہ زیب ہائی رائز بلڈنگ کی اکیسویں منزل پر پینٹ ہاؤس نمبر ۹ کرایے پر لے رکھا ہے جس کی بالکونی سے لیک اونٹاریو نظر آتی ہے۔میں اس بالکونی میں بیٹھ کر فطرت کے حسیں نظاروں سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔
میں نے ٹورانٹو کی یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور آج کل ٹروڈو ہائی اسکول میں نوجوانوں کو فلسفے کی تین کلاسز پڑھاتا ہوں۔ پہلی کلاس قدیم فلسفیوں کی ’ دوسری مسلم فلاسفرز کی اور تیسری جدید دانشوروں کی ہے۔نوجوانوں کی صحبت مجھے بھی جوان رکھتی ہے۔
میں پینٹ ہاؤس میں اکیلا رہتا ہوں لیکن دوستوں کے حلقے میں گھرا رہتا ہوں ایسے دوست جو غیر روایتی زندگی گزارتے ہیں۔ میں ایک ایسے آزاد خیال مردوں اور عورتوں کے گروپ کا ممبر بھی ہوں جو فری تھنکرز کہلاتے ہیں۔جہاں تک شادی کا تعلق ہے میں اس کے بارے میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں
؎ عمر بھر صحرا نوردی کی مگر شادی نہ کی

قیس دیوانہ بھی تھا کتنا سمجھدار آدمی

میں اردو کا پروفیسر تو نہیں لیکن ادب اور نفسیات میں گہری دلچسپی رکھتا ہوں۔ شاعری کا شوق ہے اور ‘پاپی’ تخلص کرتا ہوں۔ پچھلے دنوں اپنے پینٹ ہاؤس کی بالکونی میں بیٹھ کر ایک غزل لکھی تھی حاضرِ خدمت ہے امید ہے پسند آئے گی۔
؎ سمندر میں ہوں لیکن تشنگی محسوس کرتا ہوں

میں اپنی زندگی میں کچھ کمی محسوس کرتا ہوں

؎ کٹھن ہیں زیست کی راہیں پہ جب وہ ساتھ رہتی ہے

تو پھر میں حبس میں بھی تازگی محسوس کرتا ہوں

؎ کبھی ہر عارضی کو دائمی میں سمجھا کرتا تھا

اور اب ہر دائمی کو عارضی محسوس کرتا ہوں

؎ وہ کب کی جا چکی پاپی مگر میں اس کے بارے میں

کبھی سوچوں تو آنکھوں میں نمی محسوس کرتا ہوں

ڈئیررضوانہ !
جب سے آپ کا خلوص نامہ پڑھا ہے آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے شادی کن حالات میں کی اور کیا آپکو شادی کرنے کا پچھتاوا ہے؟
آپ نے جب لکھا کہ مجھ سے ادبی خطوط کی توقع نہ رکھنا تو آپ نے کسرِ نفسی سے کام لیا ہے۔ آپ کے دونوں خطوط اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ وقت کی راکھ کے نیچے ادبی چنگاریاں ابھی تک موجود ہیں اور ہو سکتا ہے مجھ جیسے فین۔۔۔پنکھے۔۔۔سے وہ چنگاریاں ایک دفعہ پھر تخلیقی شعلوں کا روپ دھار لیں۔
میں آپ کو اپنی ایک تازہ تصویر بھیج رہاہوں جس میں آپ میری شانوں تک دراز زلفیں دیکھ سکتی ہیں۔میرا سر ایرپورٹ کا رن وے نہیں بنا اور نہ مستقبل قریب میں بننے کے امکانات ہیں۔۔۔مسکراہٹیں۔
آپ کا دیرینہ دوست
عرفان قمر

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خط۔ نمبر6
اردو کی پروفیسرکا جھوٹ

محترم عرفان!
تمہارا پانچواں خط بھی اس قدر تیزی سے مل گیا کہ پھر حیرانی ہوئی کہ تم اتنا جلدی خط لکھنے کا وقت کیسے نکال لیتے ہو ۔ پھر باتیں بھی ایسی لکھتے ہو کہ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ تم میرے خط کو اچٹتی نظر سے نہیں پڑھتے بلکہ اسے گھول کر پی جاتے ہو ۔ میرے ہر جملے کا تجزیہ اور اس کے مطابق ہلکا پھلکا جواب یا پھر دانشورانہ گہرائی کی پھوار ۔ اب جبکہ تمہارے بارے میں کچھ جانا تو اندازہ ہوا کہ تمہاری یہ چہک مہک اور خوش گفتاری اور پراعتماد تحریر لکھنے کی کیفیت ایسے ہی نہیں آئی اس میں پاکستان جیسے یاسیت کے مارے ملک کو چھوڑدینے اور کینیڈا جیسے امیر اور فلاحی ریاست میں بس جانے کا اچھا خاصا عمل دخل ہے ۔ اوپر سے بھنورے میاں کی کوئی بیوی بھی نہیں ۔ آزادی کے اصل مزے لوٹ رہے ہو ۔
ادھر یہ رضوانہ (ہاں میں رضوانہ صدیقی ہی ہوں) اسے تو آزادی کے نام پہ بس اسی کالج تک کے دن یاد ہیں ۔ والدین نے اتنی مہلت ہی نہ دی کہ کم از کم بی اے کرلیتی ایم اے تو دور کی بات تھی ۔ کتنا شوق تھا مجھے اردو ادب میں ایم اےکرنے اور اردو کی لیکچرار بننے کا ۔ سب کچھ خاک میں مل گیا۔ پتہ نہیں والدین اپنی بیٹیوں کو بوجھ کیوں سمجھتے ہیں حالانکہ میں ان کی اکلوتی بیٹی تھی ۔ میرے بعد میرے دو بھائی ہیں مگر برا ہو میری ایکٹیویٹیز کا اسی نے میرے پاؤں میں زنجیریں ڈال دیں ۔ تمھیں یاد ہوگا میں بین الکلیاتی مقابلوں میں کتنے انعامات لیا کرتی تھی اور اخبارات میں نوجوانوں کے صفحات پر جیتے ہوئے کپ شیلڈز کے ساتھ میری کتنی ہی تصاویر چھپا کرتی تھیں۔ کالج کے آخری دنوں میں تو میں نے گلوکاری کے دو مقابلوں میں حصہ لےکر فرسٹ پرائیز بھی جیت لیے تھے ۔
بس میں وہیں سے اماں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی تھی ۔ ”مردار! اب گانے گا گا کر خاندان کو کنجر کہلوائےگی کیا؟“
” اماں! ایسا کیوں بولتی ہو؟ موسیقی روح کی غذا ہوتی ہے ۔ یہ جو اتنی بڑی بڑی گلوکارائیں ہیں نورجہاں ، لتامنگیشکر ، ملکہ پکھراج ان کی کتنی عزت ہے کروڑوں دلوں پر راج کرتی ہیں“۔ میں احتجاج کرتی
” ٹھہرجا تیری زبان بہت لمبی ہوگئی ہے ۔ “اماں مجھے لوکی چھیلتے چھیلتے لوکی کا ٹکڑا ہی پھینک کر مارتیں۔
” آجانے دے آج تیرے باپ کو ۔ تیرا یہ ناچنا گانا تقریریں کروانا سب چھڑواتی ہوں“
انھی دنوں ایک اور واقعہ ہوگیا۔ میں بیت بازی کے مقابلے میں اپنے کالج کے لیے ٹرافی جیت کر کالج لوٹی تو پرنسپل کے کمرے میں مجھے میری اردو کی پروفیسر نے جو غیرنصابی سرگرمیوں کی انچارج تھیں یہ مژدہ سنایا کہ آج وہ میرے ساتھ میرے گھر چلیں گی میرے والدین کو مبارکباد دینے جنھوں نے اتنی ٹیلنٹڈ بیٹی پیدا کی ہے ۔ میں خوش ہوگئی کہ شاید خدا نے میری سن لی ہے اور اماں ابا جو میری غیرنصابی سرگرمیوں کی وجہ سے اب مجھ پر بگڑتے جارہے تھے میری پروفیسر کے منہ سے تعریفیں سن کر شاید میری راہ میں حائل نہ ہوں ۔ میں نے پرنسپل کے کمرے سے ہی اپنی پڑوسن کے گھر فون کرکے انھیں بتایا کہ اماں کو کہہ دیں ذرا گھر صاف ستھرا رکھیں۔ آج میرے ساتھ میری اردو کی پروفیسر اماں سے ملنے آرہی ہیں ۔ ابا تو اس وقت جاب پر تھے۔
میں خوشی خوشی گھر پہنچی ۔ اماں کو اپنی پروفیسر سے ملایا اور جب دونوں کی گفتگو آگے پہنچی تو معاملہ ہی کچھ اور نکل آیا۔ میری پروفیسر میری تعریفیں کرتے کرتے اماں کے سامنے اپنے بھائی کا رشتہ میرے لیے دے بیٹھی تھیں۔ میرے تو پیروں تلے سے  زمین نکل گئی۔ پروفیسر کا کہنا تھا ان کے گھر رکھے اخبارات میں میری تصاویر دیکھ کر ان کا بھائی رضوانہ سے متاثر ہوگیا ہے اور کہتا ہے کہ بس شادی اسی سے کروں گا۔ وہ سعودی عرب میں انجینئر ہے اور چھٹیوں پر گھر آیا ہوا ہے اور کہتا ہے اب شادی کرکے ہی واپس جاؤں گا ۔
میں نے اپنی پروفیسر سے کہا مجھے اردو میں ایم اے کرنا ہے اور آپ کی طرح اردو کی پروفیسر بننا ہے پلیز اپنے بھائی کی شادی کسی اور سے کروادیں ۔ اماں نے یہ سن کر مجھے دوسرے کمرے میں بھیج دیا ۔ پھر ان دونوں میں کیا گفتگو ہوئی ۔ مجھے کچھ پتہ نہ چلا۔
لو دروازے پر میرے میاں کی مخصوص دستک ہورہی ہے ۔ اب کے وہ پانچ دن بعد گھر لوٹا ہے ۔ دروازہ کھولتی ہوں۔ چلو پھر لکھتی ہوں تمھیں۔
دیکھ لو آج چار دن بعد تمھیں دوبارہ خط لکھنے کا موقع ملا۔ میاں جب گھر آجاتا ہے تو اسی طرح کمرے میں ہی گھسا اپنی خدمت کرواتا رہتا ہے مجھ سے۔ پتہ نہیں دروازہ بند کرکے کن کن کو فون کرتا رہتا ہے ۔ کبھی تیز آواز میں ، کبھی سخت لڑائی کے لہجے میں اور کبھی خوشامدانہ انداز میں باتیں کرتا ہے ۔ یہ اس کا برسوں کا معمول ہے۔ یہ اس کی سیاسی تنظیمی سرگرمیاں ہیں ۔ اب اس کا اوڑھنا بچھونا یہی تنظیم ہے۔ جب آتا ہے تو کبھی کبھی ہزاروں میں یا لاکھ میں بھی رقم دےجاتا ہے اور کبھی بہت دنوں تک خرچہ دینے کا نام نہیں لیتا۔
خیر تمھیں اس سے کیا ۔ میں تمھیں اپنی شادی کی کہانی سنارہی تھی ۔ اس دن موڈ میں تھی اب وہ موڈ ہی نہیں ۔ پھر کبھی سناؤں گی ۔ تم ٹھہرے فری تھنکر ۔ آزاد منش دوست سہیلیاں ۔۔ فلسفے کے پروفیسر۔ نوجوانوں میں اٹھنا بیٹھنا ۔ منہ اٹھایا کینیڈا چلے گئے ۔ یونیورسٹی سے ڈگری لےلی ۔ کوئی تمھیں پوچھنے والا نہیں ۔ اپنی چلاتے ہو ۔ اپنی کرتے ہو ۔ لیک کے ساتھ اونچی بلڈنگ کے پینٹ ہاؤس میں رہتے ہو۔ اپنے اپارٹمنٹ کا نمبر مجھے ایسے بتارہے ہو جیسے مجھے کل وہیں پہنچنا ہے ۔ ویسے یہ بتاؤ پینٹ ہاؤس ہوتا کیا ہے؟ اس میں اور اپارٹمنٹ میں فرق کیا ہوتا ہے؟
دیکھ لو تمہارے معاشرے کی ایک لڑکی کو جو تم جیسی ہی ٹیلنٹڈ تھی مگر کیسے ایک ہی جھٹکے میں اس کے پر کاٹ دئیےگئے۔ اسے پنجرے میں قید کرکے جبر کی زندگی جینے پر مجبور کردیاگیا ۔ میں اپنی اس اردو کی پروفیسر کو تو کبھی معاف نہیں کروں گی ۔ اس نے میرے والدین کے ساتھ سازش کرکے مجھے اپنے بھائی کے بستر پر زبردستی سلا تو دیا مگر اس کے لیے اس نے جو جھوٹ بولے وہ ناقابل معافی ہیں  ۔ ایک پڑھی لکھی عورت اپنی ہی صنف کے ساتھ ایسا سلوک کرسکتی ہے یہ اس کم عمری میں مجھے سمجھ میں نہیں آیا تھا مگر میرے ماں باپ بھی اندھے تھے بغیر کچھ تحقیق کئے میرا بوجھ اتاردیا جیسے ہندوؤں میں مرنے والے کی راکھ بہائی جاتی ہے ۔ مگر اب بہت وقت گذرگیا ۔ میں اب کچھ اور سوچ رہی ہوں۔ تم نے مجھے ڈھونڈلیا اور تمہاری مردانہ آزادی نے میرے دل پہ ایک اور وار کردیا ہے ۔
مجھے اپنے لیے کچھ کرنا ہوگا ۔ تم جیسے ”پاپی“ سے مجھے کچھ اور کی توقع نہیں ۔ بس اچھے اچھے اشعار اور اپنی آزاد روش کی کہانیاں سنا سناکر میرا دل جلاتے رہوگے ۔ تم کچھ قیاس کرسکتے ہو کہ میری شادی کیسے طے ہوئی؟ شادی کے بعد شوہر اور سسرال کے کیا کیا راز کھلے؟ تمھیں اپنی زندگی میں میری جیسی کسی عورت سے پالا نہیں پڑا ہوگا ۔
کینیڈا میں تو عورت بہت آزاد ہے۔ وہاں زبردستی کی شادی کا رواج کہاں ہوگا؟ میری عمر تک تو عورتیں کئی بوائی فرینڈز بدل چکی ہوتی ہیں یہی سنا ہے میں نے ۔ وہاں والدین کی کون سنتا ہوگا؟ تم نے کبھی اپنے والدین کی سنی؟ کیا تمہاری ماں نے تم پر شادی کے لیے زور نہیں ڈالا؟ کیا تم اس کی ایموشنل بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہوئی؟
آج بہت اداس ہوں ۔ ابھی تمہارا خط ختم کرکے ملکہ پکھراج کا وہی گانا سنوں گی جس پر مجھے فرسٹ پرائز ملا تھا ۔ کبھی کسی سے سر نہیں سیکھا بس اس گانے کی اچھے سے نقل کرڈالی تھی ۔ بوجھو تو بھلا کون سا گانا ہوسکتا ہے؟
خط طویل نہ ہوجائے اس لیے اب ختم کرتی ہوں ۔ اب کے جواب جلدی دوگے تو مجھ سے بھی جواب جلدی پاؤگے۔ اگلے چند دن تھوڑی سی فرصت میں ہوں ۔
چلتے چلتے ایک بات پوچھوں؟ کیا تمھیں اسی طرح خط لکھتے لکھتے مجھ سے محبت ہوسکتی ہے؟ سچی والی اور پاک محبت۔
دورافتادہ کم نصیب رضوانہ جو کبھی صدیقی بھی تھی اب رضوانہ حسین ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply