• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ناصر عباس نئیر کی کتاب “نئے نقاد کے نام خطوط”کا تجزیاتی مطالعہ/منصور ساحل(3)

ناصر عباس نئیر کی کتاب “نئے نقاد کے نام خطوط”کا تجزیاتی مطالعہ/منصور ساحل(3)

 گزشتہ اقساط کا لنک

ناصر عباس نئیر کی کتاب “نئے نقاد کے نام خطوط”کا تجزیاتی مطالعہ

گیارھواں خط
ابتدا میں مرزا عبد القادر بیدل کے شعر کے علاوہ اووڈ اور چارلس بادلئیر کی نظمیہ شاعری شامل ہے۔ پینٹنگ میں خشک درخت اور ایک آزاد پرندہ دکھا یا گیا ہے
اس خط میں ڈاکٹر صاحب اور نئے نقاد کے درمیان اس سوال پر بحث ہوتی ہے کہ “کیا تنقید فن پارے کی تھاہ تک پہنچ سکتی ہے” پھر ڈاکٹر صاحب نے اپنے موقف (تنقید ،تخلیق کی روح تک رسائی سے قاصر ہے )کو سامنے رکھ کر میر کے شعر کا تجزیہ کرتے ہیں
شعر۔۔۔ کیا جانوں چشم تر سے ادھر دل پہ کیا ہوا
کس کو خبر ہے میر سمندر کے پار کی
فن پارے کی تھاہ کے حوالے سے مخصوص اقتباس درجہ ذیل ہیں
“فن پارے کی تھاہ فن پارے میں کسی ایک جگہ ،نکتے ،مقام پر موجود نہیں ہوتی اسی لیے اسے ماپا نہیں جاسکتا”
“فن پارہ وہی ہے جو ہمارے اندر ،خود اپنی مخصوص لسانی تشکیل سے نئی کیفیت،نیا احساس،نیا معنی نئی حیرت جگائے اور ایک نئی دنیا میں ہمیں لے جائے”
آخر میں فن پارے کی باہر سے بیگانگی کی بحث ہے کہ فن پارہ کتنا ہی خود پر منحصر کیوں نہ ہو وہ باہر سے بیگانہ نہیں رہ سکتا ۔

بارھواں خط
خط کے تخلیقی حصے میں مولانا رومی ، مرزا اسد اللہ خان غالب اور علامہ محمد اقبال کے اشعار درج ہیں
پینٹنگ میں دور دور سمندری پرندہ نظر آتا ہے
خط کے آغاز میں کلاسیکل تخلیقات اس لیے شامل کی گئی ہیں کہ اس خط میں ڈاکٹر صاحب کلاسیکی فن پاروں کی پہچان اور نقاد کے اس سوال ” فن کے ساتھ اسرار ،بھید،تھاہ جیسے الفاظ اس قدر کیوں استعمال ہوتے ہیں ” اور اس پر ترقی پسند نقاد کے اعتراضات و نظریہ فن کو سامنے رکھ کر جواب دیتے ہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نقاد کو اچھے و بڑے فن پارے اور برے فن پارے (جو خود فراموشی کی موت مرتے ہیں) میں فرق واضح کرتے ہیں ،کہ “بڑے فن پاروں میں اپنے اندر بار بار جنم لینے کی جادوئی صلاحیت ہوتی ہے ان کا حسن کبھی ماند نہیں پڑتا اور نہ ان کی روشنی کبھی کم پڑتی ہے”خط کے آخر میں بڑے فن پاروں میں انسانی آوازیں اور لہجے کی تبدیلیوں (مثال کے طور پر غالب کا شعر درج ہے)پر بھی بحث کی گئی ہے۔

تیرھواں خط
اس خط کے آغاز میں عبد اللہ حسین کے ناول “باگھ” اور دانتے کی مشہور کتاب “طربیہ خداوندی” سے اقتباسات شامل ہیں
پینٹنگ میں کلہاڑی جو کاٹنے اور سرسبز و شادابی کے عمل کو ظاہر کررہی ہے۔ کیا یہ متضاد رویے ایک نقاد میں موجود ہوتے ہیں ؟؟
یہ خط بھی فن پارے کے بھید کے مسئلہ پر محیط ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نئے نقاد کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بڑے فن پارے عجیب اسرار کے حامل ہوتے ہیں اس اسرار کا علم بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے بعض لوگ یہ اسرار جان کر اسے بیان کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ بعض لوگ فن پارے کے اسرار تو دور کی بات ان کے بنیادی متعلقات و معانی تک کو بھی نہیں سمجھ پاتے۔ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ اگر فن پاروں کی صحیح پہچان کرنی ہے تو تمہیں ہر سیاق کا علم ہونا چاہیے اور تم میں مزید علم حاصل کرنے کی جرات اور ولولہ ہو۔ آخر میں فن کار و فن پارے کی سلامتی و تابندگی پر بحث کی گئی ہے کہ کسی فنکار و فن پارے کی موت اس میں ہے کہ ان کے فن و فن پارے کو( انسانی رسائی سے باہر قرار دے کر) ان کے متعلق خاموشی اختیار کی جائے ۔

چودھواں خط
یہ خط پسندیدہ ناول نگار میلان کنڈیرا کے ناول “ترجمہ مضحکہ خیز محبتیں ” کے اقتباس اور عرفان صدیقی کے شعر سے شروع ہوتا ہے ۔ پینٹنگ میں دو خشک درخت ہیں ۔ کیا ہمارے تنقیدی رویے خشک ہوچکے ہیں ؟
اس خط میں ڈاکٹر صاحب نے بہت سی چیزیں واضح کی ہیں مثلاً تاثر اور رائے میں فرق,سوشل میڈیا ناقدین و گروہ, تنقید و نقاد کے فرائض ، ادب و غیر ادب میں فرق شامل ہیں ۔
نقاد کے فرائض پر بحث کرتے ہوئے نئے نقاد کو مخاطب کرتے ہیں کہ 1۔ نقاد کے لیے لازم کہ وہ ادب کی حقیقت اور اس سے متعلق آرا اور تاثرات میں فرق کرنا سیکھے۔ کیوں کہ یہ چیزیں ہمیں صرف ادراک کے متعلق خبر دیتی ہیں ناکہ چیزوں کی اصل تک رسائی ۔
2۔ تاثراتی آرا سے گریز کرنا ضروری ہے کیوں ایسی آرا کی وجہ سے ادیب کو پڑھے بغیر اس کی پرستش کی جاتی ہے اور جہاں پرستش ہے وہاں تنقید کہاں! 3۔ تمام چیزوں کو پہلے چھانو پھٹکو پھر اس کے بعد قبول یا رد کرو۔ 4۔ کسی تحریر کے فن پارے کے طور پر قائم ہونے کے اصولوں کا محاکمہ کرنا اور کسی ابہام کا شکار نہ ہونا، 5 نقاد کا کام ادب کی شعریات تک پہنچنا ہے
آخر میں تنقید کی زمہ داری ، اچھی و بری کتابیں ، نقاد اور ایجنٹ میں فرق جیسے موضوعات پر نئے نقاد کے ساتھ مفصل مکالمہ کیا گیا ہے

پندرھواں خط
خط کے آغاز میں گلگامش کے رزمیہ اور افضال احمد سید کی نظم” ہم کسی سے پوچھے بغیر زندہ رہتے ہیں” کے اشعار شامل ہیں۔
پینٹنگ دو درخت ، چاند اور پرندے دکھائے دے رہے ہیں ۔
اس خط میں نقاد و تنقید کی حیثیت ،چیزوں کی اصل تک رسائی ،فن پارے اور فن پاروں کے نام پر کاٹھ کباڑ میں فرق، فن کیا ہے ، فن میں سیاہ و سفید کا مقام و مرتبہ ،فن اور جشن کے جوازات اور فن کا مخاطب کونسی دنیا ہے زیر بحث ہے ۔ آخر میں قول محال اور اس کی پہچان( جس کو سمجھنا آسان نہیں ہے ) پر بھی گفتگو کی گئی ہے اس کے علاؤہ ڈاکٹر صاحب نقاد کو مخاطب ہیں کہ اگر ادبی لکھنی ہے تو پہلے قول محال کو سمجھنا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری۔۔۔۔

Facebook Comments

منصور ساحل
اردو لیکچرر گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چارسدہ ایم فل اردو (ادب اور سماجیات) مدیر برگ ادب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply