تصوف کی حقیقت۔سائرہ ممتاز/قسط 5

انیسویں صدی کے فقیر!

ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں کہ انیسویں صدی میں یہ فقیر آئے.
سوا جانند، دولنداس، گلال، بھیکا، اور پالتو داس یہ سب کبیر کا مسلک رکھتے تھے.
آگے چل کرڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں کہ :
” اس سے ظاہر ہے ہندو ازم نے کس قدر اسلامی اثرات قبول کیے اور کس طرح اسلام کے اثر سے ہندو دھرم میں بت پرستی، ذات پات کا خاتمہ ہوا، استاد (مرشد) کو اہمیت حاصل ہوئی. مشکلات کا ازالہ ہوا، یہاں تک کہ تلسی داد اور سورداس جو رامانند کے پیرو کار تھے کی تعلیمات میں اسلامی اثر سب سے زیادہ نظر آتا ہے. ہندو فقیر تکا رام کا قول یہ ہے
” اے دوست! اللہ کا ذکر کرو سب سے بڑا نام اللہ ہے، اسے مت بھولنا.”
ایک جگہ پر تکا رام کہتے ہیں :
” اللہ ایک ہے نبی ایک ہے بھول نہ جانا”

عیسائی ارباب روحانیت پر اسلامی تصوف کے اثرات!
اب ہم مستشرقین کے خصوصی الزامات کا جائزہ لے کر قارئین کرام کے سامنے ان الزامات کے وہ جوابات پیش کرتے ہیں جو خود منصف مزاج اور اعتدال پسند مستشرقین نے دیے ہیں۔

رچرڈ ہارٹ مین کے عائد کردہ الزام!
Richard hertman نے اپنی کتاب AL qushairis dastellung des sufiism میں لکھا ہے…
” چونکہ ابو علی سندی مشہور صوفی بزرگ بایزید بسطامی جے استاد تھے اس سے قطعی اور بین طور پر ثابت ہوا کی تصوف کی اصل ہندو مذہب ہے”

ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنا بڑا عالم فاضل اور اس قسم کا بودا استدلال کہ چونکہ شیخ بایزید کے استاد ابو علی سندی تھے اس لیے تصوف ہندومت کی پیداوار ہے. کیا تمام مسلمان جو برصغیر میں رہتے ہیں ہندو مذہب کی مرہون منت ہیں. اگر ہارٹ مین صاحب نے تاریخ اسلام کے ورق الٹنے کی زحمت کی ہوتی تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ برصغیر کے مشائض نے ہندوؤں کے ساتھ کفر و اسلام کی کتنی جنگیں لڑی ہیں خاص طور پر برصغیر کے صوفیاء کران نے ہندو جوگیوں اور روحانی پیشواؤں کو. نیچا دکھا کر ہزاروں لاکھوں ہندوؤں کو نور اسلام سے مشرف کیا لیکن انھیں پوری اسلامی تاریخ پر پانی پھیر کر صرف ایک کمزور ترین شہادت کا سہارا ملا کہ چونکہ ابو علی سندھ کے تھے اس لیے ساری اسلامی دنیا یعنی عرب، ترکستان، افریقہ چین ہر جگہ کے صوفیاء پر صرف ایک بایزید چھا گئے اور ان سے پہلے جو صوفیاء گزرے کیا ان پر بھی بایزید کے اثرات چھائے تھے اور انھوں نے کس طرح تصوف کا مسلک اختیار کر لیا.

ہارٹ مین کے دیگر الزامات!
ہارٹ مین نے تصوف کے خلاف دیگر الزامات یہ لگائے یہ تصوف کی اصل زرتشت ہے. یہودی قبالہ ہے، عیسائی مسٹیسزم ہے اور نوافالطوبیت ہے. دیکھیے ایک ہی سانس میں انھوں نے تصوف کے کتنے باپ گنوا دیے ہیں. کیا یہ تضاد بیانی نہیں ہے اور کیا ان کا یہ نظریہ دوسرے نظریات کو خودبخود ختم نہیں کر دیتا. افسوس ہے کہ اپنی تضاد بیانی self contradication کو فاضل مصنف نے محسوس نہ کیا.

ہارٹ مین کے اس الزام کے متعلق پروفیسر آر بری کتاب مذکور میں لکھتے ہیں:
” یہ دیکھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اول تو یہ تمام نظریات ایک دوسرے کی نفی کرنے والے ہیں. دوسرا سوال یہ ہے کہ ان متضاد نظریات کو کیسے یکجا کیا جا سکتا ہے اور کیسے اس چوں چوں کے مربے کو تصوف کا نام دیا جا سکتاہے.
اس سوال کا جواب ہارٹ مین یہ دیتے ہیں کہ اس کام کے ذمہ دار جنید بغدادی ہیں. لہذا ہارٹ کا مقصد یہ ہے کہ اب ان تمام شواہد کو جمع کر کے تجزیہ کیا جائے. ممکن ہے کہ شاید ہمیں تصوف کی اصل کا کوئی ثبوت مہیا ہو سکے. ”

کمال ہے ہارٹ مین کی منطق کا ایک طرف تو وہ” قطعی اور بین طور ” پر ثابت کر چکے ہیں کہ تصوف کی اصل ہندو مت ہے. دوسری طرف یہ بات کھڑی کردی کہ تصوف کی اصل یہودی قبالہ ہے اور زرتشت ہے اور عیسائی مسٹیسزم، نو افلاطونیت neoplatonism ہے.

اب تیسری بات کہہ کر انہوں نے اپنی تمام باتوں پر پانی پھیر دیا ہے یعنی اب وہ کہتے ہیں کہ اب ہم تمام یورپین سکالروں کو مل کر اس بات کا کھوج لگانا چاہیے کہ تصوف کی اصل کیا ہے. سبحان اللہ! کیسی منطق ہے اور کیسا استدلال ہے ایک طرف تو ” قطعی طور پر” فیصلہ صادر کر دیتے ہیں کہ تصوف کی اصل ہندو ازم ہے، اس کے بعد پھر شک میں پڑ جاتے ہیں اور یہودی قبالہ، زرتشت عیسائی مسٹی سزم اور نوافلاطوبیت کو تصوف کا ماخذ قرار دیتے ہیں اور آخر میں یہ قلابازی کھاتے ہیں کہ ان تمام نظریات کو جمع کر کے تجزیہ کرنے اور تصوف کی اصل معلوم کرنے کی ضرورت بھی باقی ہے. فاضل مصنف کی یہ منطق تو ہمارے ایشیائی دماغ قبول نہیں کر سکتے اور نہ ہی ڈاکٹر آربری جیسے یورپی دماغ نے قبول کی ہے.

مسٹر ہارٹ مین کو تاریخ تصوف میں یہ دیکھنے کی ضرورت بھی نہ محسوس ہوئی کہ حضرت جنید بغدادی رحمت اللہ علیہ جن کو وہ تمام تر دنیاوی روحانی تحریکوں کا مرہون منت قرار دیتے ہیں ان کی رگوں میں نا صرف خالص عرب خون تھا جو اپنے ماموں حضرت شیخ سری سقطی کے مرید و خلیفہ تھے اور جن کا روحانی سلسلہ چوتھی پشت میں حضرت خواجہ حسن بصری سے حضرت علی کرم اللہ وجہ تک جاتا ہے جو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ تھے.

ولیم جونز کے الزامات!
ولیم جونز ایک اور مستشرق ہیں جو تصوف کو ہندو مت اور ویدانیت کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں اس وجہ سے کہ دونوں میں مشابہت بہت ہے. پروفیسر آربری اس اعتراض کا یوں جواب دیتے ہیں :
” لیکن ولیم جونز کی قیاس آرائی کی بنیاد ایرانی شعراء کا کلام ہے. ان کو اصل عربی دستاویزوں کے مطالعہ کا موقع ہی نہیں ملا جن کے تجزیے کی اشد ضرورت ہے تاکہ تصوف کی اصل پر مزید روشنی پڑ سکے.”

جان میلکم کے الزامات!
جان میلکم کا شمار ان مستشرقین میں ہوتا ہے جو ہندوازم کو تصوف کا ماخذ قرار دیتے ہیں. ان کے متعلق پروفیسر آربری لکھتے ہیں:
” سر جان میلکم نے اپنی کتاب تاریخ فارس میں تصوف کے بنیادی اصولوں پر طویل بحث کی ہے جو طویل غلط فہمیوں کا پلندہ ہے. میلکم کی ریسرچ کا ماخذ کیپٹن گراہام کا وہ لیکچر ہے جو انہوں نے 1811 میں بمبئ کی ادبی سوسائٹی میں دیا. جہاں تک خود گراہام کی معلومات کا تعلق ہے وہ ایسی کم مایہ اور کم پایہ ہیں کہ ان کی طرف ذرہ بھر التفات نہیں کیا جا سکتا ہے. نیز میلکم نے جو صوفیاء کے سلاسل کی فہرست اور ان کے تمام اعداد و شمار دیے ہیں وہ بھی بہت بے تکے ہیں. ”

Advertisements
julia rana solicitors

تصوف پر ایرانی اثرات کے برعکس پروفیسر آربری کتاب مذکور میں یہ ثابت کر چکے ہیں ایران کے صوفی شعراء کے عارفانہ کلام کا یورپ پر گہرا اثر ہوا. وہ لکھتے ہیں :
” ایران کا عارفانہ کلام کافی مدت سے جرمنی پر اثرانداز ہو رہا تھا اور جرمنی کے نامور شاعر گوئٹے اس سے بڑی حد تک متاثر ہوئے ہیں. فرانس میں وہاں کے نامور بزرگ سلوسٹر ڈے سیکی پر بھی تصوف کا بڑا اثر ہوا جس کی وجہ سے انہوں نے 1819 میں شیخ فرید الدین عطار کے پند نامہ کا متن اور ترجمہ شائع کیا۔
جاری ہے

Facebook Comments

سائرہ ممتاز
اشک افشانی اگر لکھنا ٹھہرے تو ہاں! میں لکھتی ہوں، درد کشید کرنا اگر فن ہے تو سیکھنا چاہتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply