عرفان شہود کی بے سمتی کے دنوں کا سفر/اظہر حسین

انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب ، مغربی دنیا کے عروج اور نو آبادیاتی نظام نے مشرقی دنیا کے اہل ِ علم و قلم کو خیالی اور تصوراتی دنیا سے نکال کر حقیقت دیکھنے کی آنکھیں عطا کیں۔ نو آبادیاتی نظام نے پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لیا تھا اس لیے اہل علم و قلم کی بیداری نے عوام کو وہ شعور دیاجس کی بدولت بیسیویں صدی میں دو عظیم جنگیں ہوئیں اور روس کے اشتراکی نظریات نے ملوکیت کو تہس نہس کردیا۔ مارکس، اینگلز اور لینن کے نظریات نے دنیا کے مختلف شعبوں میں تبدیلی کے۔ساتھ ادب کا رخ بھی عام انسان یعنی مزدور اور کسان کی طرف کردیا۔ ظاہری بات ہے جب ادب میں زندگی کا سب سے کمزور طبقہ موضوع ہو تو ادب کے فن میں ایسی تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی کہ اس کمزور طبقے کی آواز بہتر انداز میں پیش کی جائے۔ اس لیے ادیبوں نے تخلیقی آزادی کا علم بلند کیا۔ ادیبوں کا ایک ٹولہ قافیہ، ردیف اور صناعی و کاری گری کی  صدیوں پر مبنی روایت سے باغی ہوا اور پابند نظم سے ہوتے ہوئے نظمِ معریٰ اور آزاد نظم کا سفر شروع کیا۔ آزاد نظم نے بیسیویں صدی کے ادب میں اپنی موجودگی کا گہرا ثبوت دیا اورن م راشد، میرا جی اور مجید امجد جیسے نامور نظم نگاروں کی پیروی کرتے ہوئے تقریباً نظم لکھنے والے ہر شاعر نے آزاد نظم کا تجربہ کیا۔ آزاد نظم نے عوام و خواص میں مقبولیت اور کامیابی کے ساتھ اکیسویں صدی میں قدم رکھا۔

اکیسویں صدی میں ادب نے تمام حدود و قیود پار کرکے اپنی گودی میں سماج کے ہر موضوع کو جگہ دی اور تخلیقی آزادی کا ثبوت دیا جو ادب کے لیے ناگزیر ہے۔آزاد نظم کی اس توانا روایت میں ایک شاعر کا ظہور ہوا جو عرفان شہود کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ عرفان شہود کے اندر ایک رومانی اور مزاحمتی روح موجود ہے جو اس کے جسم کو آزادی ، بغاوت، انسانیت سے محبت ، سماج کی اصلاح اور ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے پر اکساتا ہے۔ جہاں انسان فطرت کے آغوش میں بیٹھ کر سکون کی زندگی بسر کر سکیں۔ عرفان شہود کی روح کا رومانی پہلو   عورت سے محبت کی تلقین  کرتا ہے اوران کے  وجود کی خوش بُو سونگھنے پر آمادہ کرتاہے۔ عرفان شہود کی آزاد نظموں کا پہلا مجموعہ “بے سمتی کے دن “صریر پبلی کیشنز (لاہور،راول پنڈی)سے  2020 میں شائع ہوا۔اس کا انتساب عصمت النسا منیر کے نام  ہے۔کتاب کا دیباچہ پرویز ساحر(ایبٹ آباد ،پاکستان)نے”عرفان شہود کی تخلیقی کائنات” کے عنوان سے قلم بند کیا ہے۔”بے سمتی کے دن “عرفان شہود کی زندگی کے وہ دن ہیں جو انھوں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں گزارے  ہیں اوران دنوں سے اپنے لیے موضوعات کا انتخاب کیا ہے۔

سب سے پہلے توکتاب کی بائنڈنگ پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوجاتا ہےکہ عرفان شہود چیزوں کی  آرائش و زیبائش، ترتیب و تنظیم اور خوب صورتی پر گہری نظر رکھتے ہیں  ۔کتاب کی جلد بندی ،املا، کاغذ کی چمک اور نظموں کی ترتیب و تنظیم سے اندازہ لگتا ہے کہ عرفان شہود نے یہ کتاب مہنگے داموں صریر پبلی کیشنز سے چھپوائی ہوگی۔ اس کے صفحات کی تعداد ۱۳۱اورکتاب کی قیمت ۶۸۰ روپے ہے۔ اگر راقم مبالغہ آرائی سے کام نہ لے تو یہ کہنا مناسب ہوگا کہ کتاب کی یہ قیمت اتنی ہے کہ قاری دو تین نظمیں پڑھیں تویہ سمجھتا ہےکہ میرے پیسوں کا معاوضہ مجھے مل گیا ہے اور باقی نظمیں وہ عرفان شہود کا تحفہ سمجھ کر اس سے فن اور فکر کی بلندی سیکھتے ہیں۔اس مجموعے میں کُل باون (۵۲) نظمیں ہیں؛یہ صرف نظمیں نہیں بلکہ عرفان شہود کی آنکھوں دیکھی،کانوں سُنی اور محسوس کی ہوئی باون کہانیاں ہیں ۔عرفان شہود سفر کا شوقین ہے۔وہ سفر سے اپنے لیے موضوعات اور ان حسین فطری نظاروں سے اپنی نظموں کی خوب صورتی اور رعنائی میں اضافہ کرتاہے۔ اس کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ عقاب جیسا  ہے۔اس کی فنی اور فکری گہرائی کو سمجھنے کے لیے”بے سمتی کے دن”میں کھودنا اور ان کو ٹٹولنا ضروری ہے۔

عرفان شہود کی زیادہ نظمیں کرداری پہلو لیے ہوئے ہیں ۔اس کے کردار زندگی کے مختلف طبقات سےتعلق رکھتے ہوئے اپنے طبقے کے مخصوص مسائل کے نمائندہ ہیں۔ ان کے کردار اعلیٰ و ادنیٰ ،طاقت ور اور کم زور، بادشاہ اور گدا، اشراف اور طوائف ، عالم اور جاہل،غرض ہر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس کی نظم”ریل چلنے لگی “میں ریل گاڑی کے مسافروں اور ریل چلتے وقت پلیٹ فارم سے منسوب نظاروں ،مسافروں کی آہ و فریاد،یادوں اور خواہشات کا خوب صورت مرقع پایا جاتا ہے ۔ٹرین چلتے ہوئے پلیٹ فارم پر سبز جھنڈا لہرانے کے ساتھ وہاں موجود ماں کی دعا ؛جو اپنے بیٹے کو جنگ  پر جانے کیلئے  ٹرین تک  چھوڑ نے آئی ہے،وہ بیوی جو اپنےشوہر کو بہت سے  ارمانوں کے ساتھ نوکری کے لیے رخصت کرتی ہے؛اس کی دو برس کی بچی کے آنسوؤں سے رخسار تر ہوتے  ہیں، ایک   بے رِدا لڑکی جو خاکستری بیگ پکڑے ہوئے کھیت میں کام کرنے والے لوگوں سے رخصت لیتی ہے اور ٹرین کے چلے جانے سے پلیٹ فارم پر باقی رہتی ہوئی اداسی تمام لوگوں کی ساتھی بن کر انھیں دلاسہ دیتی ہے۔نظم سے اقتباس ملاحظہ کیجیے:
“سرنِگوں سبز جھنڈی کا ہلکا پھریرا فضاؤں میں لہرا گیا
بنچ میں اوس پر بھیگے پتوں کی چادر کو جھونکے اڑالے گئے
ریل کی پٹڑیوں پر اُداسی کی گونجیں بدن کی سرنگوں سے یکلخت باہر نکلنے لگیں
وِسل بجنے لگی
ریل چلنے لگی
دل گرفتہ مسافر کئی منزلوں کی اذیت کے پیکر میں ڈھلنے لگے
ایک ماں نے دعاؤں سے لبریز، بوسوں بھری تالیوں کو
کسی جنگ پر گامزن اپنے بیٹے کی جھولی میں الٹادیا
۔۔۔۔”ص:۱۸

نظم” مُخنث” تیسری جنس کا نوحہ ہے۔ اس نظم کو کم از کم بیس ادیبوں نے اپنے پیج سے پوسٹ کرکے لاکھوں قارئین کو دِکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس نظم میں عرفان شہود اپنے رب سے سوال کرتا ہے ؛ کہ یہ طبقہ ایسا کیوں پیدا ہوا؟ اگر ایسا پیدا ہونا ہی تھا تو اس کے ساتھ نا ختم ہونے والے مظالم اور نا انصافی کیوں ہے؟ یہ نظم دراصل دنیا کے حسّاس ترین لوگوں کا الَمیّہ ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تخلیق کار اپنی تخلیق کو پڑھ کر رو پڑے۔عرفان شہود کے لیے یہ نظم ویسے ہی ہے۔ جس کو پڑھ کر وہ خود رونے لگتا ہے۔ اس نظم کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب کسی نہ کسی کمی کا شکار ہیں ۔یہ نظم راقم کے تحقیقی مقالے “ناول ‘میرے ہونے میں کیا برائی ہے’ میں مُخنث افراد کے سماجی مسائل کی عکاسی ” میں بطورِ حوالہ درج ہے۔ یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تخلیق کردہ اصلی ابنارمل انسان کا نام “خُنثٰی” ہے مگر ہمارے یہاں ترجمہ سے عدم واقفیت کی بنا پر بہت سی اصطلاحات مثال کے طور پر مُخنّث، خواجہ سرا،ٹرانس جینڈر، کُھسرا، ہیجڑا، اردھ ناری وغیرہ رائج ہیں اور بولے جاتے ہیں۔حالانکہ یہ تمام اصطلاحات اپنے الگ معنی و مفہوم کے حامل ہیں۔ عرفان شہود نے بھی خُنثٰی کے بجائے “مُخنّث “درج کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نظم “برف کے خاکے” کوئٹہ شہر کے متوسط پہاڑی علاقے کی  سردی اوراس سردی میں زندگی بسر کرنے والے لاچار لوگوں کی کہانی ہے۔ جب کوہِ سلیمان کے چاروں کناروں پر برف کے الگ سے پہاڑ بن جاتےہیں تو وہاں زندگی کی ریل پیل جم جاتی ہے ۔پہاڑوں پر پرندوں کی اڑانیں  بند ہوجاتی ہیں جیسےکہ وہ مفلوج ہوگئی ہوں ۔وہاں کےجانور چارے کی راہ دیکھتے دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔ وہ لوگ اپنے پیاروں کے  پیٹ بھرنےکے لیے اپنے گھر کے سامان بیچنے لگتے ہیں۔وہ لوگ ان خوب صورتیوں کا کیا کریں گے، جب یہ خوب صورتیاں انھیں دو وقت کی روٹی مہیا  نہیں کرسکتیں ۔ماؤں کی چھاتیاں دودھ سے خالی ہوجاتی ہیں۔ان ساری باتوں کو عرفان شہودنے جن لفظی کاری گری سے بیان کیا ہے؛ بقول ایک نقاد یہ لفظ استعمال نہیں کرتے بلکہ خرید کر لاتے ہیں۔نظم سے ایک حصہ ملاحظہ ہو :
“فورٹ منرو کے بنجر دیاروں میں
کوہِ سلیماں کےچاروں کناروں پہ پھیلی ہوئی
زندگی جم گئی ہے
پہاڑوں پہ مفلوج ہیں طائروں کی اُڑانیں
مرے”شال(کوئٹہ کاقدیم نام)”کی
نرم و نازک سہیلی کو چارہ ملا ہی نہیں
اُس کے گھر کی رسوئی میں سلویٰ
گرا ہی نہیں
پیٹ بھرنے کو چھپرے کسی ٹال پر بِک گئے
برف کے جھپٹے میں کوئی
دستِ افلاس کی انگلیاں نیلی کرتے ہوئے آسماں تک رہا ہے
۔۔۔۔۔”ص:۲۳۔۲۴
عرفان شہود کی تخلیق کا کمال یہ ہے کہ وہ ڈاکٹر محمد اقبال کی طرح اپنی نظموں کو بار بار دیکھتے ہیں ،ان کی مسلسل ریویو کرتے ہیں ؛کچھ الفاظ طبیعت پر بوجھل بن جاتے ہیں ؛انھیں نکال دیتے ہیں۔موضوعاتی لحاظ سے ان کے ہاں زندگی کی متنوع تجربات پائے جاتے ہیں۔وہ تشبیہ و استعار کا بے دریغ استعمال نہیں کرتے۔ لیکن حسب ِ موقع ایسی تشبیہ و استعارہ تراشتے ہیں کہ قاری منہ میں انگلی تھام کر حیران رہ جاتاہے۔راقم کے نزدیک ان کی انفرادیت الفاظ کا ذخیرہ اوران کا برمحل استعمال ہے اور ظاہری بات ہے یہی ذخیرہ انھیں سیر و سیاحت اور زندگی کی رنگینیوں نے عطا کیا ہے۔
اگر آپ نے نظموں میں کہانیاں پڑھنی ہو ، جوانوں کا مسافری کے لیے ٹرین میں بیٹھتے وقت حسرت بھری نگاہوں سے اپنے اہل و عیال کے دکھ کو سمجھنا ہو ، سردی کے موسم میں غربت کے مارے لوگوں کی کس مپرسی کا احساس رکھنا ہو ، عورت کے وجود کی خوش بوؤں سے اپنے وجود کو معطر کرنا ہو ، ہندو دیومالا کی شمورہ دیوی کا حسن دیکھنا ہو ،ازل و ابد کے خدا سے دنیاوی خداؤں کے بارے میں انسانوں گلے شکوے سننے ہو ، گلگت اور کشمیر کے پہاڑوں میں انسانی زندگیاں دیکھنی ہو ، فطرت کے حسن میں کچھ لمحے سکھ کا سانس لینا چاہتے ہو تو عرفان شہود کی ” بے سمتی کے دن” کا مطالعہ کریں۔ یہ وہی دنیا ہے جس کی میری طرح آپ نے بھی تلاش کی ہوگی۔ ہاں یہ وہی دنیا ہے جو ہر وقت ہمارے خیالات و تصورات میں رہتی ہے۔

Facebook Comments

اظہر حسین
پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ بی ایس اسکالر ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply