کتھا چار جنموں کی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط24

  قصہ ڈاکٹر وزیر آغا کو نوبیل پرائز نہ ملنے کا!

سکینڈے نیویا کے چھ ملک اور ان کے کلچر کا مرکز سویڈن! جو شخص سویڈن نہیں گیا اور یورپ کا چکر لگا کر واپس آ گیا، تو سمجھیے اس کا یورپ کا دورہ ادھورا رہا۔پرویز ؔ پروازی کسی زمانے میں وہاں تھے لیکن میں جب بھی جاتا، ان سے ملاقات کیے بغیر واپس آ جاتا۔ جب کینیڈا میں ملاقات ہوئی تو ہم دونوں نے اس ایک برس کے بارے میں اپنی یاداشتوں پر مبنی نوٹس کا تبادلہ کیا، جس برس ڈاکٹر وزیر آغا کو ادب کا نو بیل پرائز ملنے کی امید تھی۔ شارٹ لسٹ پر ان کے نام کے تیسرے نمبر پر آ جانے سے ہم دونوں بہت خوش تھے اور اپنی اپنی سطح پر کام کر رہے تھے کہ اگر اردو میں نوبیل پرائز  وزیر آغا مرحوم کو مل جائے تو بین الاقوامی سطح پر اردو بھی ایک بڑی زبان کے طور پر ابھر کر آ جائے۔

میں ہندوستانی سفارت خانے میں اپنے ایک عزیز کے گھر میں اقامت پذیر تھا، جو انڈین فارن سروس کے کاڈر پر تھا اور لمحہ بہ لمحہ اکا دمی کی زیریں سطحوں پر ہمیں اطلاع ملتی رہتی تھی کہ Wait List پر کون کون سے نام ہیں اور ان کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی صورت حال کیا ہے   پرویز شاید وہاں میری موجودگی کے بارے میں جانتے تھے کہ میں اپنے ا یک عزیز دوست  کے گھر،جو سینئر ہندوستانی سفارت کار تھا، کس غرض سے آیا ہوا ہوں، اور میں  یہ بھی جانتا تھا کہ وہ کس انہماک سے اس کام میں مصروف ہیں۔

ڈاکٹر وزیر آغا کا سویڈن کا دورہ یقیناً  ایک مہمیز کا کام کر رہا تھا اور میں پر امید تھا کہ اس برس ان کا کام ہو جائے گا،کہ یکایک مجھے اکادمی کے دفتر کے ایک گہرے اندرونی کونے سے خبر ملی کہ ڈاکٹر وزیر آغا کا نام تو شارٹ لسٹ پر تیسرے نمبر سے گر کر بیسویں نمبر پر آ گیا ہے۔ میں نے سویڈن سے لگ بھگ بسورتے ہوئے فون پر لاہور میں آغا صاحب کو یہ اطلاع دی تو اس مرد ِ جری نے پہلی بار مجھ سے پرویز پروازی کا ذکرکیا، بولے، ”ہاں پرویز پروازی صاحب کی بھی یہ اطلاع ہے۔“

سعودی عرب میں قیام کے شب و روز ۔۔ستیہ پال آنند/قسط23

ہوا کیا تھا اس کا ذکر میں نے نہیں کیا، لیکن شاید پرویز صاحب نے کر دیا تھا کہ ایک احمق دوست نے کیسے ان کی پیٹھ میں چھری گھونپ دی تھی،  یہ شایدایک غلط اطلاع تھی، جو پرویز صاحب کو جانے کہاں سے ملی تھی۔ میری اطلاع تھی کہ شارٹ لسٹ کے ”لیِک“ ہو جانے پر پاکستان سے سینکڑوں خطوط اکادمی کوایک ہفتے کے اندر موصول ہوئے تھے جن کا لُب لباب یہ تھا کہ وزیر آغا تو تیسرے درجے کے مصنف ہیں اور اردو میں ان کا کوئی اہم رتبہ نہیں ہے۔ کس نے لکھوائے یہ خط؟  میں کیسے جان سکتا تھا، کہ میں تو امریکا میں مقیم تھا اور صر ف اس کام کے لیے ہی سویڈن کے تین چکر لگا چکا تھا۔ پاکستان کی ادبی سیاست کے بارے میں مجھے کماحقہ واقفیت نہیں تھی!

کینیڈا میں پرویز بھائی صاحب ملے تو  انہوں نے میرا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا جو تین اقساط میں راول ٹی وی پر نشر ہونا تھا۔یہ انٹرویو بھی عجیب تھا۔ اُس برس تک میرے ہاتھ ابھی بندھے ہوئے تھے کہ میں ادب کے نوبیل پرائز کے دائرہ در دائرہ work apparatus  میں ایک معمولی پرزے کی طرح اپنی حیثیت سے ابھی آزاد نہیں ہواتھا اور اس سلسلے میں زیادہ بات چیت نہیں کر سکتا تھا، لیکن وہ آزاد تھے۔ اس لیے یہ انٹرویو  (جو در اصل ایک نشریہ تھا) دو طرفہ بات چیت میں بدل گیا۔ یعنی پرویز صاحب بات کر کے مجھے خانہ پری کرنے کے لیے کہتے اور میں بات کر کے انہیں خانہ پری کرنے کی درخواست کرتا۔ لیکن آہستہ آہستہ، لفظوں کو تول تول کر بولنے کے باوجودآخر بات  واضح ہو ہی گئی۔اور ہم  پر، یعنی خصوصی طور پر مجھ پر، راز افشائی کا الزام نہیں آیا۔

ہم دونوں میں صرف یہی اختلاف رائے رہا کہ  پرویز صاحب  صرف آغا صاحب کے ایک احمق دوست کو، جو ایک رسالے کا مدیر تھا، اس حادثے کی وجہ گردانتے تھے اور مجھے یہ اطلاع ملی تھی کہ آغا صاحب کے بارے میں پا کستان سے متعددتضحیک آمیز خطوط اکادمی کے دفتر تک پہنچے ہیں۔ اس انٹرویو کے ریکارڈ ہونے اور نشر ہونے تک وزیر آغا صاحب تو رحلت فرما چکے تھے۔  مجھے لگتا ہے کہ ہماری اس بحث کی  ویڈیو کو پاکستان میں زیادہ لوگوں نے نہیں دیکھا۔ یہ اب بھی ”یو ٹیوب“ پر موجود ہے، اور میں اسے کبھی کبھی کھول بیٹھتا ہوں تو پرویز صاحب کی ”پکڑ“اور”پہنچ“ دونوں کی یاد آ جاتی ہے۔کمال کے راستباز اور عالی فطرت شخص ہیں۔ لیکن بے لوثی اور با ضمیری میں اس بات کی بھی پروا نہیں کرتے کہ کب کوئی دوست ان کی صاف گوئی سے ناراض ہو سکتا ہے۔

اس سلسلے کی باز گشت لاہور میں اس وقت سنائی دی، جب میں تین برس پہلے اسلام آباد سے وہاں پہنچا۔ ہم تین دوست تھے، یہ خاکسار، کراچی سے محترمہ فاطمہ حسن صاحبہ اور اسلام آباد سے محترمہ کشور ناہید (”ایک پاپی عورت کی کتھا“ کی مصنف اور معروف کالم نگار)۔ ہم کشور ناہید کی کار سے گئے تھے۔ اکادمی ادبیات، پاکستان، کی لاہور برانچ میں خاکسار کی کتاب  ”کتھا چار جنموں کی“کی رسم اجراء تھی اور اتفاق سے ڈاکٹر انور سدید (مرحوم) میرے ساتھ کی کرسی پر ہی براجمان تھے۔ علیک سلیک کے بعد کچھ منٹوں میں ہی انہوں نے مجھے اس بات سے آگاہ کیا کہ میری خود نوشت میں نوبیل پرائز کے قصے کے بارے میں ذکر ہونے کے بعد لاہور میں انہوں نے اپنی سطح پر کچھ تفتیش کی تو یہ بات واضح ہو گئی کی وہ سینکڑوں خط جو صرف انگریزی میں (اردو میں نہیں) لکھے گئے تھے، ان کے پیچھے ایک پوری سازش تھی اور حالانکہ لکھنے والے سبھی اصحاب کے نام اصلی اور حقیقی تھے، ان میں سے کچھ انگریزی سے نا بلد ِ محض تھے اور خط لکھ ہی نہیں سکتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے استفسار پر کہ کون سا گروپ ان خطوط کی سازش میں شریک تھا، محترم انور سدید صاحب نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ”اب بات پرانی ہو چکی ہے، اس سازش میں شامل کچھ لوگ آپ کے احباب میں بھی شامل ہیں۔ اس گڑے مردے کو  آسودہ ٗخاک ہی رہنے دیں۔ آغا صاحب اگر زندہ ہوتے تو اور بات تھی۔۔۔“
جاری ہے۔۔۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کتھا چار جنموں کی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط24

Leave a Reply