نفسیاتی مسائل کی اقسام اور طریقہ ہائے علاج کا تعارف:
ہمارے معاشرے میں بہت سے دوسرے اشجارِ ممنوعہ (Taboos) کی طرح اپنے نفسیاتی مسائل کے بارے میں بات کرنا بھی ایک Taboo ہی سمجھا جاتا ہے۔ ایسا عموماً اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں “نفسیاتی مریض” سے مراد پاگل یا ایسا شخص لی جاتی ہے جو کہ خطرناک ہوتا ہے۔ اور کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ اس پر “نفسیاتی مریض” کی چھاپ لگے۔ اس لیے لوگ ماہرِ نفسیات کے پاس اس وقت تک نہیں جاتے جب تک پانی سر سے گزر نہ چکا ہو۔ دوسری اہم وجہ نفسیاتی مسائل کے بارے میں آگاہی کا نہ ہونا ہے۔ ہمارا معاشرہ اپنے مشکل حالات، مادہ پرستی کی دوڑ اور سماجی طبقاتی تقسیم کے بڑھتے رجحانات کی وجہ سے ایک “ہائی ٹینشن سوسائیٹی” بن چکا ہے جس میں لوگوں کی کثیر تعداد مختلف نفسیاتی عوارض کا شکار ہے۔
میں اپنی اس تحریر میں کوشش کروں گا کہ آسان الفاظ میں مختلف نفسیاتی عوارض اور ان کے لیے استعمال ہونے والے طریقہ ہائے علاج کا مختصر تعارف پیش کر سکوں۔
عموماً نفسیاتی امراض کو شدت اور علامات کے پیشِ نظر دو گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
(1) نان سائکوٹک امراض (Non Psychotic Disorders)
(2) سائیکوٹک امراض (Psychotic Disorders)
نان سائیکوٹک امراض نفسیاتی عوارض کی کم خطرناک قسم ہے۔ اس میں ایسے نفسیاتی عوارض شامل ہیں جن کا شکار فرد اپنی شخصیت اور اپنے گردوپیش کی حقیقت کی پہچان نہیں کھوتا اور نہ ہی اس بارے میں تشکیک کا شکار ہوتا ہے۔ ان امراض کی علامات عموماً شدید اداسی، پریشان کن خیالات کا مسلسل آنا، نیند نہ آنا یا ڈسٹرب نیند آنا۔ ارتکاز میں مشکل کا سامنا، کسی کام میں دل نہ لگنا، چڑچڑا پن، احساسِ کمتری، کم مائیگی کا احساس، اپنے آپ سے یا دوسروں سے نفرت، سماجی تعلقات سے دوری اختیار کرنا اور خود کشی کے خیالات آنا شامل ہیں۔ یہ علامات نان سائیکوٹک امراض میں سے کسی بھی مرض کی ہو سکتی ہیں جن میں انگزائٹی، ڈپریشن، فوبیا، پینک، خبط شامل ہیں۔ ماہرینِ نفسیات ان علامات کا تجزیہ نفسیاتی امراض کی تشخیص کے معیاری پیمانے(Diagnostic and Statistical Manual ) پر کر کے تشخیص کرتے ہیں کہ مریض کس نفسیاتی عارضے کا شکار ہے اور اس کے علاج کے لیے کونسا طریقہ کار اختیار کرنا ہے۔ عموماً کم شدت کی علامات کاؤنسلنگ (Cognitive Behavioral Therapy)، (Interpersonal Therapy)، اور فیمیلی تھیرالی وغیرہ سے کنٹرول ہو جاتی ہیں۔ جبکہ اگر علامات شدید ہوں اور مریض کو خودکشی کے خیالات بھی آتے ہوں تو پہلے دواؤں کے ساتھ علامات کی شدت کو کم کیا جاتا ہے اور اس کے بعد دوا کو بتدریج کم کرتے ہوئے کاؤنسلنگ اور تھیراپی کا سہارا لیا جاتا ہے۔
نان سائیکوٹک امراض ( Non Psychotic Disorders) کی سب سے کم شدت والی حالت کو واقعاتی ڈپریشن (Situational Depression) یا Adjustment Disorder کہا جاتا ہے۔ یہ صورتِ حال عموماً کسی ناخوشگوار واقعے سے پیدا ہونے والے تناؤ سے شروع ہوتی ہے اور انسان اس ناخوشگوار واقعے کی یاد میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور زندگی میں آگے بڑھنا اس کے لیے دشوار ہو جاتا ہے۔ اور بعض دفعہ یہ ناشگوار اور تناؤ زدہ گھریلو (سکول کالج ورک پلیس بھی شامل کر لیں۔)ماحول کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔
یاد رہے نفسیاتی امراض کی تشخیص اور علاج بہت پیچیدہ معاملہ ہے۔ صرف علامات کی بنیاد پر کبھی فیصلہ نہ کریں کہ مجھے یہ بیماری ہو گئی ہے جیسے ہمارے ایف۔اے کے انگریزی کے نصاب میں ایک سٹوری ہوا کرتی تھی A Man Who Was A Hospital تشخیص کے لیے ہمیشہ مستند ماہرِ نفسیات سے رجوع کریں۔
اور سب سے اہم بات اگر ہم اپنے اندر اخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تھوڑی سی بھی جھلک پیدا کرلیں اور صبر، شکر، تحمل، برداشت، صلہ رحمی قناعت وغیرہ اختیار کریں اور حرص و حوس، حسد، کینہ، بغض، قطع رحمی وغیرہ سے اجتناب کریں اور راضی برضا رہیں تو بہت سے نفسیاتی مسائل جنم ہی نہ لیں۔ (الف، لام میم۔تیری رضا میری تسلیم )
جاری ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں