اسلام اور دہشت گردی۔۔آغرؔ ندیم سحر

گزشتہ چند دہائیوں اور بالخصوص نائن الیون کے بعد مغربی پالیسی سازوں اور برطانوی سامراج کی حمایت کرنے والوں نے اسلام دشمنی میں مسلمانوں کے بارے میں عوام الناس کی ایسی متعصب ذہن سازی کرنے کی کوشش کی جس سے پوری دنیا اور بالخصوص مغرب کے حامیوں نے مسلمانوں کو مجرم کہتے ہوئے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔بنیاد پرستی اور انتہا پسندی جیسے الزامات کے بعد کئی برسوں سے دہشت گردی کا ٹھپہ لگا کر مسلمانوں کو عالمی امن کے لیے نا  صرف خطرہ قرار دجا رہا ہے بلکہ مسلم ممالک کو تباہ و برباد کرنے کے لیے نت نئی پالیسیاں بنائی گئیں اور آئے روز نئے نئے پروپیگنڈے کیے جاتے رہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ الزامات وہ طاقتیں لگا رہی ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے سو فیصد جائز حقوق بھی علی الاعلان غصب کر رکھا  ہے، اور اس کی تازہ ترین مثال مسئلہ کشمیر ہے جو صرف اور صرف مغربی حمایتی ٹولے کی وجہ سے آج تک لٹکتا آ رہا ہے اور بھارت جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی سیکولر ریاست کہلواتا ہے،وہی سیکولر ملک کشمیر میں مسلمانوں کے حقوق کیسے غصب کیے ہوئے ہے،ہم دیکھ رہے ہیں اور اس سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ اپنی تجارتی منڈی کو خسارے سے بچانے کے لیے کئی اہم ترین مسلم ممالک نے بھی اقوامِ متحدہ میں کشمیر اور پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا تو ایسے میں دہشت گردی کا مقدمہ کس پہ چلنا چاہیے؟

یہ واقعی اہم ترین سوال ہے۔اب یہ حقیقت بھی پوری طرح عیاں ہو چکی ہے کہ عالمِ اسلام کے خلاف مغربی پالیسی سازوں کی جارحانہ کاروائیاں کسی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے نہیں بلکہ ان کے وسائل پر قبضے کے لیے ہیں۔یہ عالمی سرمایہ داری کی جنگ زرگری ہے،جسے دہشت گردی کے جعلی نعرے کی آڑ میں مسلمانوں پر مسلط کیا گیا ہے اور ظلم کی بات یہ ہے کہ کئی مسلم ممالک کے حکمران مسلمانوں کے خلاف اس عیارانہ مہم کی حقیقت دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کی بجائے مغربی پالیسی سازوں کے آلہ کار بن کر انہی کی بولی بولتے نظر آ رہے ہیں۔

یہ ساری باتیں آج اس لیے کرنی پڑیں کہ حال ہی میں ثروت جمال اصمعی کی کتاب”اسلام اور دہشت گردی“پڑھی اور انہوں نے اسلام کا مقدمہ جس انداز میں عالمی ضمیر کی عدالت میں پیش کیا،واقعی حیران کن تھاہے۔یہی وجہ ہے کہ مجھے آج یہ ساری باتیں کرنی پڑیں جو گزشتہ دو دہائیوں سے میرے مشاہدے اور مطالعے میں تھیں۔یہ بات بھی گزشتہ ایک دہائی میں کھل کر سامنے آ ئی ہے کہ مغربی ممالک کے   شہریوں،سماجی رہنماؤں،سیاسی کارکنوں اور اساتذہ و طلبا و طالبات کی ایک کثیر تعداد ایسی بھی ہے جو مسلم دنیا اور مسلمانوں کے خلاف اپنے ہی حکمرانوں کی استحصالی پالیسیوں سے شدید اختلاف رکھتے ہیں۔

یہی لوگ ہیں جنہوں نے افغانستان اور عراق پر امریکہ کے بے جواز حملے کے خلاف پورے یورپ اور امریکہ میں لاکھوں افراد پر مشتمل احتجاجی ریلیاں نکالیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا میں عالمی سرمایہ داری کی وحشیانہ کاروائیوں کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج مسئلہ کشمیر ہو یا کوئی بھی دہشت گردی کا واقعہ،جہاں مسلمان مخالف لابیاں حرکت میں آ جاتی ہیں اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کوشش کرتی ہیں، وہاں ایسے لوگ اور گروہ بھی سامنے آتے ہیں جو مسلمانوں کی نہ صرف حمایت کرتے ہیں بلکہ مغربی پالیسی سازوں کی سازشوں کے بھی بے نقاب کرتے ہیں۔

مزید آج صورتِ حال یہ بن چکی ہے کہ دو تہائی سے زیادہ امریکی شہری آج امریکی قیادت اور صدر ٹرمپ کے جنگی جنون اور عراق و افغانستان میں ان کی غاصبانہ اور وحشیانہ کاروائیوں کو برملا غلط قرار دے رہے ہیں اور امریکہ طالبان معاہدے کو سرِ عام سراہا جا رہا ہے کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ظلم کی عمر اگرچہ ظاہری طور پر تو لمبی ہوتی ہے مگر اس کا پردہ چاک ہو کر رہتا ہے۔آپ اگر مزید تھوڑا پیچھے جائیں اور ۶۰۰۲ء میں دیکھیں کہ کیسے امریکی کانگرس کے انتخابات میں حکمران ری پبلکن جماعت کے مقابلے میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے نمائندوں کو واضح اکثریت سے منتخب کر کے انھوں نے مسلم دنیا میں جاری صدر جارج بش کی پالیسیوں سے اپنا اختلاف بھرپور انداز میں ریکارڈ کروایا تھا۔جنوبی افریکہ کو برطانوی استعمار سے نجات دلانے والے نیلس منڈیلا سے پوچھا گیا کہ انھوں نے آخر اپنی قوم کو برطانوی استعاریت سے کیسے نجات دلائی تو ان کا جواب تھا کہ”مسلمان اپنا مقدمہ مغربی حکمرانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں جبکہ ہم اپنانے مقدمہ مغربی عوام کے سامنے پیش کیا۔“

اب حالات بہت واضح ہو گئے ہیں اور مسلمانوں کا مقدمہ مغربی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ مغربی عوام اور ایسے ملکوں کی عوام کے سامنے پیش ہو چکا ہے جو ایک عرصہ تک مغربی استعمار کی حمایت کرتے رہے۔آج ان کو بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ مغربی بلاشبہ مسلمانوں پر دہشت گردی کا جعلی دو نمبر ٹھپہ لگا کر محض اسلام دشمنی کا ثبور دے رہا ہے جس کا پردہ چاک ہوتا جا رہا ہے۔

ثروت جمال اصمعی کی یہ بات واقعی سچ ہے اور سوچنے کے قابل ہے کہ”اب ایک طویل عرصے بعد صہیونیت اور عالمی سرمایہ داری کے ایجنٹ مغربی حکمرانوں کے مقابلے میں مغرب کے عام لوگ مسلمانوں کی بات یقینا توجہ اور سنجیدگی سے سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہیں۔“میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے محققین اور دانشوروں سمیت تمام صحافیوں اور قلم کاروں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ اس موضوع پر سوچنا چاہیے اورڈٹ کر لکھنا چاہیے۔ان مغربی پالیسی میکرز اور بونے دانشوروں کی قلعی کھول کر رکھ دینی چاہیے جو اندون خانہ مغربی حمایت کر کے اپنے مقاصد پورے کرنا چاہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہم عالمی ضمیر کی عدالت میں عالمِ اسلام کا مقدمہ انتہائی جانفشانی اور تن دہی کے ساتھ لڑیں اور مسلم امہ کو درپیش ان چیلنجز کا مقابلہ کریں اور حل نکالیں جو ہمیں صہیونی تحریکوں اور مغربی پراپیگنڈے سے ملے اور آج ہم اس میں پستے چلے جا رہے ہیں۔ہمیں آج مسلمانوں کا مقدمہ مغربی رائے عامہ اور مغربی لابیوں کے سامنے رکھتے ہوئے حق کا پیغام دینا چاہیے اور بنیاد پرستی،انتہا پسندی اوردہشت گردی سمیت ایسے تمام الزامات کو رد کرنا چاہیے جو مسلمانوں پر ایک عرصے سے لگائے جا رہے ہیں۔اگر ہم بطور قلم کار مسلمانوں کا مقدمہ نہیں لڑ سکتے تو پھر ہمیں یہ بھی کوئی حق حاصل نہیں کہ ہم مسلم ملک میں رہتے ہوئے مغربی سرمایہ دار طبقوں کی حمایت کریں اور ان کی پالیسیوں کو اس ملک میں لاگو کرنے والی لابیوں کو سپورٹ کریں۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply