حق کو قبول کرنے میں اِس قدر مستعدی سے کام لیا کہ نبوت کے ابتدائی سالوں میں ہی ایمان لے آئے،حیا کا یہ عالم ہے کہ فرشتے بھی حیا کھاتے ہیں،غزوہ تبوک کے موقع پر اِتنا مال دیا کہ زبانِ اقدس سے بشارت مل گئی کہ عثمان اگر آج کے بعد ایک بھی نیکی نہ کرے تو پھر بھی جنتی ہے،عثمان بن عفان کی عظمت سے کون انکار کر سکتا ہے،خلافتِ محفوظہ مگر ان کے دورِ خلافت میں خلافتِ مفتونہ بن گئی۔خلافت کا جو پودا رسول اللہﷺ نے لگایا تھا اور جس کی آبیاری صحابہ نے اپنے خون سے کی،جس کی بڑھوتری کے لیے ابوبکروعمر نے فاقے برداشت کیے،حضرت عثمان کے دورِ خلافت کے اختتام پر اُس خلافت کے پودے کی نشوونما رک چکی تھی۔
علی بن ابی طالب،سعد بن ابی وقاص، عبداللہ بن عباس اور ایسے جلیل القدر صحابہ کو نظر انداز کر کے ولید بن عقبہ ایسے لوگ گورنر مقرر کیے گئے،خلافت کو مروان بن حکم ایسے لوگوں نے ہائی جیک کر لیا تھا،ولید بن عقبہ نے شراب پی کر لوگوں کو نماز پڑھا دی،عبداللہ بن ابی سرح جو کہ مرتد ہو گیا تھا اور فتح مکہ کے موقع پر ان چار لوگوں میں شامل تھا جن کے بارے میں حکم دیا تھا کہ اگر کعبے کی دیوار کیساتھ بھی چمٹے ہو ں تو قتل کر دئیے جائیں کو مصر کا گورنر لگا دیا گیا،گورنروں کے مظالم سے لوگ اسقدر تنگ تھے کہ سیدنا عثمان کو لوگوں نے ناحق شہید کر دیا۔سیدنا عثمان کی شہادت کے بعد اگلا خلیفہ کون ہو؟ ہر کوئی متفکر تھا،علی بن ابی طالب کے سوا کوئی نہ تھا جو امت کی ہلکورے کھاتی کشتی کو بچا سکتا،لوگوں کے اصرار پر ابو تراب نے خلافت کا منصب سنبھالا،ابھی بیعت مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ لوگوں نے مطالبہ شروع کر دیا کہ قاتلانِ عثمان سے قصاص (بدلہ) لیا جائے۔”قاتل کوئی ایک شخص تو نہیں،پہلے بیعت کر کے میرے ہاتھ مضبوط کرو پھر قصاص لیں گے” ابو تراب جواب دیتے تھے،مگر حق سے اعراض برتی جا رہی تھی۔
سیدنا طلحہ و زبیر نے بیعت توڑ کر مکہ کا رختِ سفر باندھا،ام المومنین سیدہ عائشہ بھی مکہ میں تھیں،وہاں سے پھر بصرہ کی طرف روانگی ہوئی،دوران سفر سیدنا عائشہ مقامِ حواب سے پلٹنا چاہتی تھیں مگر طلحہ و زبیر کی تجویز سے رک گئیں کہ شاید آپکی وجہ سے اللہ امت کے دو گروہوں میں صلح کروادے اور پھر صلح نہ ہو سکی،خدا جانے جنگِ جمل میں کتنے مسلمان تہِ تیغ ہوئے،حق پر مگر علی بن ابی طالب تھے،طلحہ و زبیر میدانِ جنگ سے وآپس پلٹنا چاہتے تھے مگر مروان نے شہید کر دیا،ابھی جنگِ جمل ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ امیرالمومنین کو خبر ملی کہ امیر معاویہ اپنا لشکر لیکر صفین کے مقام پر آ رہے ہیں،مطالبہ وہی تھا کہ قاتلانِ عثمان سے قصاص لیا جائے،عجبک منطق تھی،سعدنا عثمان کے بیٹے تو قصاص کے لیے جنگ نہیں کر رہے تھے،قصاص کا مطالبہ تو مقتول کے وارث کرتے تھے مگر یہاں دھارا الٹی سمت میں بہہ رہا تھا۔
صفین میں بھی امیرالمومنین کا لشکر غالب آنے لگا تھا کہ مخالفوں نے نیزوں پر قرآن بلند کر دئیے کہ قرآن کو حاکم بنایا جائے،قرآن کو حاکم بنانے کا مطالبہ وہ کر رہے تھے جنہوں نے حق سے اعراض برتا تھا،مگر چال کامیاب ٹھہری،امیرالمومنین کا لشکر دو حصوں میں بٹ گیا،خوارج کا ظہور ہوا جن کی سرکوبی کے لیے امیرالمومنین کو جنگِ نہروان لڑنا پڑی،خوارج کیخلاف جنگ نے ثابت کر دیا کہ تینوں جنگوں میں حق سیدنا علی کے ہمرکاب تھا۔امت پر تینوں جنگیں لڑ کے امیرالمومنین نے ایک عظیم احسان کیا وگرنہ نامعلوم آج اسلام کی ہئیت کیا ہوتی،بالآخر سیدنا علی بھی شہید کر دئیے گئے،امیرالمومنین کی شہادت کے بعد سیدنا حسن کی بیعت شروع ہوئی،چھ ماہ آپ خلیفہ رہے پھر امیرِ شام سے صلح کر لی”میرا یہ بیٹا امت کے دو گرہوں میں صلح کروائے گا” رسول اللہ کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی۔
صلح کی شرائط میں ایک شرط یہ تھی کہ امیرِ شام اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کریں گے،وعدہ مگر وفا نہ ہوا اور یزید کو خلیفہ نامزد کر دیا گیا،لوگ بیعت کرنے میں تردد کرنے لگے مگر صحابہ اور دوسرے لوگوں پر ظلم کے کوہِ طور توڑے گئے،ہر کوئی یزید کی بیعت کرنے لگا،ادھر کوفہ کے لوگ سیدنا حسین کو خط لکھنے لگے کہ کو فہ آئیے،ہم آپکی بیعت کرنا چاہتے ہیں،خط لکھنے والے اپنے قبائل کے سردار اور جلیل القدر صحابہ و تابعین تھے،اب حالات قربانی کے متقاضی تھے اور بہت بڑی قربانی،ایسی قربانی کہ آسمان بھی کانپ اٹھے،درختوں پہ خزاں آجائے،سمندر ابل پڑیں،پہاڑ ہل اٹھے اور ایسی قربانی دیدی گئی،نواسئہ رسول کے سوا ایسی قربانی کون دے سکتا تھا۔سیدنا حسین کنبے کیساتھ کوفہ کے لیے رختِ سفر باندھا،چند سپاہی بھی اگر حسین کے ہمراہ ہوتے تو یہی کہا جاتا کہ حسین باغی ہو گئے ہیں،واقعہ کربلا کے بعد بھی یہی جھوٹ بولا گیا مگر جھوٹوں کو اللہ نے ذلیل کیا،کربلا کے میدان میں اہلِ بیت کو روک دیا گیا اور ایسے ظلم ڈھائے گئے کہ تب سے لیکر آج تک ہر آنکھ اشکبار ہے،حسین کے جسمِ اطہر پر گھوڑے دوڑائے گئے جو کہ جنتی نوجوانوں کے سردار تھے،ایک بچے کے حلق پر تیر مارا گیا،بھلا اس بچے کا جرم کیا تھا؟ اُن لبوں پر چھڑیاں ماری گئیں جن کو وہ لب چومتے تھے جن سے وحی کے مقدس پھول جھڑتے تھے،اُس نبی کے گھرانے کو تہِ تیغ کیا گیا جس کے امت پر بیشمار احسانات تھے،اُن عورتوں کے خیموں کو آگ لگائی گئی جن کا چہرہ کبھی آسمان نے بھی نہ دیکھا تھا۔
ظلم یہاں تھم جاتا تو شاید زخموں ہر مرہم رکھا جا سکتا تھا مگر عورتوں کو بیابانوں،صحراؤں اور جنگلوں سے پیدل چلوا کر یزید کے دربار میں لے جایا گیا،اُن عورتوں کا سہارا فقط چند سال کا ایک بیمار بچہ تھا۔یہ بچہ(امام زین العابدین) شام کے ایک قید خانے میں قید ہیں،ایک شامی پاس سے گزرا تو کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ تم لوگ قتل ہوئے اور قید ہو کر یہاں پہنچے،اُس بچے نے جواب دیا کہ تم نے قرآن میں ہمارا ذکر نہیں دیکھا؟ شامی متعجب ہو کر پوچھنے لگا کہ تمہارا قرآن میں ذکر کہاں؟ “پیغمبر ان سے کہہ دیجیے کہ میں تم سے کچھ نہیں چاہتا مگر اپنے قرابتداروں کی محبت”اب شامی سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور وہاں سے چل دیا،ذرا غور کیجئے یہ کس گھرانے کو ذلیل کرنے کی تگ و دو کی جا رہی ہے،اس گھرانے کو عزت تو اللہ نے بخشی ہے جس کو اللہ نے پاک کر دیا ہے،قاتل مقتولوں پر نمازوں میں درود پڑھتے رہے مگر بے خبر تھے وہ قاتل اِس چیز سے بے خبر تو نہ تھے،ماہر القادری بھی گویا ہوئے
اُن کے ہاتھوں سے لٹی باغِ رسالت کی بہار
جو نمازوں میں صدا پڑھتے رہے صلِ اعلیٰ
(حوالہ جات: صحیح بخاری و مسلم،تفسیر ابنِ کثیر،فتح الباری، جامع ترمذی،اصودالغابہ،البدایہ والنہایہ وغیرہ)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں