شخصیت کی تکمیل کی سعی۔۔اشفاق احمد

ایک تسہیل پسندانہ ذہن کے ساتھ انسان کا مطالعہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ آپ کو شاید یوں لگے کہ انسان سے وابستہ سبھی نظریات ایکدوسرے سے کلی متصادم ہیں لیکن ایسا نہیں یہ ایکدوسرے سے مختلف سہی لیکن ایکدوسرے کو یکسر رد نہیں کرتے۔ میں جب آسان سے لفظوں میں اس انسان کو ڈھونڈتا ہوں تو مجھے یہ طبعی طور پر تین عنوانات کے زیر سایہ نظر آتا ہے۔
“ہاں” ، “نہیں” اور ” کچھ بھی” ۔
ہر انسان کی زندگی ان تین میں سے کسی ایک سے عبارت ہے یعنی وہ اس کا شخصی اعتبار سے dominant پہلو ہے۔
“ہاں” سے مراد وہ مزاج ہے جو کچھ اچھا ہو جاۓ، سے عبارت ہے۔ یہ لوگ اچھا یا مثبت فروغ دینے کو اولیت دیتے ہیں۔
“نہیں” کچھ برا نہ ہو جاۓ سے عبارت ہے۔ یہ لوگ معاشرتی ناہمواری کے خلاف مزاحمت کی علامت ہوتے ہیں ۔
اور “کچھ بھی” کسی طور یہ زندگی گزر جاۓ کیسی بھی ہو، سے عبارت۔ یہ لوگ اوپر کے دونوں کے درمیان کے لوگ ہوتے ہیں جو سر تسلیم خم کی کیفیت میں ہوتے ہیں۔
یہ تینوں اپنی طبعی حالت میں اس ارضی دنیا کا توازن بر قرار رکھنے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ ہر انسان میں یہ تینوں ادائیں کم و بیش موجود ہیں۔ لیکن کوئی  ایک عنصر حاوی ہوگا اور باقی دو میں سے ایک تلافی اور دوسرا کمزور حالت میں ہوگا۔ مثلا “ہاں” کے عنوان سے جینے والوں کو درپیش مشکلات میں تلافی کے لیے “کچھ بھی ہو” کا عنصر درگزر کی صورت موجود رہتا ہے جو انہیں “ہاں” پر ثابت قدم رہنے میں مدد دیتا ہے اور ان کی کمزوری یا امتحان “نہیں” میں ہے کہ یہ مزاحمت نہیں کر سکتے۔
“کچھ بھی ہو” کی ادا رکھنے والوں کی زندگی “سہنے ” سے عبارت ہے۔ یہ سر تسلیم خم رکھنے والے لوگ ہیں۔ ان کی تلافی کے لیے ان میں ” نہیں” کا عنصر موجود ہوتا ہے لیکن یہ ” نہیں” کسی مزاحمت کی صورت اکثر ان کے اندر ہی جنم لیتا ہے اور باہر کی دنیا اکثر جان ہی نہیں پاتی کہ اندر کس قسم کا طوفان چھپا بیٹھا ہے یاپھر شاید ان کے لکھے اور بولنے سے جان پاتی ہے۔ ان کا “ہاں” کا عنصر کمزور ہوتا ہے کہ مزاج کی سستی ان کو “ہاں” کے لیے مطلوب عملی کوشش کے لیے اکسا نہیں پاتی۔
“نہیں” کے عنوان سے جینے والوں کی زندگی مزاحمت سے عبارت ہے چاہے اندر ہو یا باہر۔ ان کی تلافی کےلیے “ہاں” کا عنصر موجود ہوتا ہے جو ان کی مزاحمت کو حد پار کرنے سے روکتا ہے۔ یہ تلافی ان کے منوانے کے رجحان کو کچھ مان لینے کی صورت میں متوازن رکھتی ہے۔ ان کا کمزور پہلو “کچھ بھی ہو” کی کمی ہے لہذا درگزر کرنا، نظر انداز کرنا ان کا سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے۔
امتحان کی اس ارضی دنیا میں جینے کے لیے انسان کو بس یہ کرتے رہنا ہے اپنی حاوی استعداد اور تلافی کی خاصیت کے درمیان توازن قائم کرکے اپنی کمزوری کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرے۔
لہزا یہ تینوں شخصیات اگر اس کوشش میں کم یا زیادہ کامیاب رہتی ہیں تو ارضی دنیا میں توازن کی کیفیت قائم رہے گی۔ میری راۓ میں توازن دراصل آئیڈیل اور مرضیاتی کیفیت کے درمیان کی ہی کوئی  کیفیت ہے۔
جب یہ توازن قائم نہیں رہ پاتا تو یہ تینوں مزاج ٹولیوں یا گروہوں میں بٹ کر اپنی بقا کی جدوجہد میں لگ جاتے ہیں اور ایک مرضیاتی کیفیت جنم لیتی ہے جسے آسان الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ ہر مزاجی گروہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ صرف وہ صحیح ہے باقی سب غلط۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں احسن اختلاف پھر مخالفت میں ڈھل کر پورے معاشرے کی فضا مکدر کر دیتی ہے اور معاشرے کی خوبصورت رنگا رنگی کو زنگ لگ جاتا ہے۔
آپ اور ہم سب کو ایک ہی چھڑی سے نہیں ہانک سکتے ایسی کوئی  کوشش گر کامیاب ہو بھی ہوگئی  تو وہ کسی آرٹسٹ کو جنگ کے اگلے مورچے میں بٹھانے، کسی شمشیر زن کو کینوس تھما کر پینٹنگ پر مجبور کرنے اور کسی اہل علم یا اہل قلم کو بار اٹھوانے کے مترادف ہے۔ ہر انسان سے وہی کام لیجیے جس کے لیے وہ بنا ہے اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب ہم ان انسانی قدروں کو مان لیں جو سب کے لیے یکساں ہیں جس میں کسی مزاج کی تخصیص نہیں۔ جوابدہی کا احساس، اخلاق، سلیقہ، شائستگی اور باہمی احترام ہی تو وہ بنیادی قدریں ہیں جس کے نتیجے میں احسن اختلاف ابھرے گا اور یہ احسن اختلاف اس سفر میں ایسی قیمتی متاع ہے صاحب کہ جسے جن لوگوں نے بھی اپنایا وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ بام عروج پر پہنچ گئے۔ دیے سے دیا اسی طرح تو جلتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply