دولے شاہ کے چوہے اور دل کے کھسرے۔۔۔رمشا تبسم

ہم سب نے بچپن میں گلیوں میں بھیک مانگنے آنے والے دولے شاہ کے چوہے دیکھے ہیں۔چند صحت مند مرد حضرات ہاتھوں میں چھڑی  پکڑ کر ان کے پیچھے ہوتے اور یہ دولے شاہ کے چوہے سبز چولا پہنے,گلے میں پتھروں کے ہار,چھوٹا عجیب سا سر لے کر حیدر حیدر کی آواز نکالتے جب آتے تو ہر شخص حسبِ توفیق ان کو عطا کرتا۔اکثر ان دولے شاہ کے چوہوں کے جسم پر چوٹ کے نشانات بھی ہوتے تھے۔

شاہ دولا کا دربار ایک حقیقت ہے اس حقیقت سے انکار نہیں۔ البتہ معاشرے میں گھٹیا اور کم ظرف لوگ موجود ہوتے ہیں جو ہر بات سے فائدہ اٹھانے کو کوشاں رہتے ہیں۔ کرنل کلاڈ مارٹن(1939), ڈاکٹر جانسٹن(1866),ہیری رپورٹ کارنگ (1879) اور فلورا اینی اسٹیل (1886) میں تحقیق کی اور حقائق پیش کئے کہ   یہ بچے جسمانی اور دماغی طور پر  تندرست  ہوتے ہیں۔ کوئی بھیک مانگنے کا گروہ مکینکل طریقے,فولادی یا مٹی اور دھات کی ہنڈیا ننھے معصوم بچے جو اغوا ہوجاتے انکے سر پر چڑھا دیتے ہیں۔جس سے یہ بچے جسمانی طور پر بڑھتے ہیں مگر دماغی طور پر کمزور رہتے ہیں ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مر جاتی ہے۔

خواجہ سرا ایک حقیقت ہیں اور وہ ہر طرح کی انسانی آزادی کا حق رکھتے ہیں جس میں وہ عزت کی زندگی گزار سکیں۔ مگر کھسروں میں بھی دو نمبری ہے۔پیدائشی یا حادثاتی طور پر کھسرے ہونے والا طبقہ الگ ہے اور قابلِ عزت ہے۔مگر معصوم بچوں کو اغوا کر کے ان کے کانوں کے پاس ہر وقت تیز آواز میں ڈھولکی بجائی جاتی ہے اور میوزک لگایا جاتا ہے۔ جیسے یہ بچے بڑے ہوتے ہیں ان میں  زنانہ حرکات جنم لیتی ہیں۔جیسا کہ صرف ایک خاص ادا سے چلنا اور بولنا۔

جاوید چوہدری ایک نامور کالم نگار ہیں۔انہوں نے ایک تحریر میں دل کے کھسروں پر تفصیلی بات کی۔دل کے کھسرے ایسے لوگ جو آنکھ ,کان اور ناک  بند کر کے ایک ہی دھن میں مگن رہتے ہیں۔انکو جس دھن پر لگا دیا جاتا ہے اس میں مست رہتے ہیں آنکھ اٹھا کر دیکھنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ سوال کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔جو سبق یاد کروا دیا جاتا ہے۔بس وہی بولتے اور سنتے ہیں۔ یہ لوگ درحقیقت غدارِ وطن نہیں ہوتے بلکہ دل کے کھسرے ہوتے ہیں۔
ہم ایک عرصے سے اس ملک میں دولے شاہ کے چوہے اور دل کے کھسرے بنتے دیکھ رہے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کا کہنا ہے کہ  تمام سیاسی جماعتوں نے ایک عرصہ حکومت کی ہے لہذا عمران خان کی حکومت کو نو یا دس ماہ میں  ہی برا نہیں کہنا چاہیے۔عمران خان نے انہیں شعور دیا ہے۔ یہی لوگوں کا  کہنا ہے عمران خان جیسا بھی ہے جو بھی کرے ملک جتنا بھی برباد کیوں نہ ہو جائے ہم ڈٹ کے عمران کے ساتھ کھڑے ہیں کیونکہ عمران خان  کی نیت صاف ہے۔اگر  زیادہ مہنگائی ہو غربت سے بربادی ہوجائے تو بانوے کا ورلڈ کپ دیکھا کریں اور ایک لفظ عمران خان کی حکومت کے خلاف نہیں  کہنا چاہیے کیونکہ ہمارا وزیراعظم ہینڈسم ہے اور بغیر پرچی کے تقریر کرتا ہے۔ایسی منطق دینے والے یہ لوگ در حقیقت  پی۔ٹی۔آئی اور عمران خان کے بنائے گئے دولے شاہ کے چوہے اور دل کے کھسرے ہیں۔

انکو بنانے میں پی۔ٹی۔آئی۔ کی دن رات کی محنت ہے۔عمران خان نے ایک مسلسل جدو جہد کی ،کبھی نواذ شریف سے دوستی رکھی کبھی مشرف کے ساتھ حکومت میں آنے کی کوشش کی، کسی بھی طرح جب عمران خان حکومت  نہیں حاصل کر سکے تو عمران خان نے ایک  کنٹوپ تیار کیا ویسا ہی دھات کا برتن جیسا جعلی دولے شاہ کے چوہے بنانے میں ان کے سر پر چڑھا دیا جاتا تھا۔ اس کنٹوپ کو تبدیلی کا نام دیا۔اور نوجوان نسل کے سر پر چڑھا دیا۔ اسکا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ یہ نوجوان بظاہر جوان ہوتے گئے مگر دماغی طور پر کمزور ہوتے گئے لہذا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے مرحوم ہوگئے۔

صرف یہی نہیں انہی کنٹوپ چڑھے ذہنوں کے کانوں کے گرد دن رات چور چور اور تبدیلی کی ڈھولکی اور میوزک بجائے گئے جس سے یہ لوگ اب دل کے کھسرے بن گئے ہیں۔ ان دولے شاہ کے چوہوں اور دل کے کھسروں سے کسی قسم کی سمجھداری  کی توقع کرنا فضول ہے۔ یہ لوگ صرف ایک دھن میں مست ہیں۔ان کو ہر صورت میں حکومت کا دفاع کرنا ہے۔دفاع ممکن ہو یا نہ ہو مگر کیونکہ  انکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عمران خان نے کنٹوپ چڑھا کر اور بولنے اور آواز اٹھانے کا حوصلہ  ان کو گانا بجانا دے کر دل کے کھسرے بنا کر ختم کر دیا ہے۔لہذا یہ صرف عمران عمران کی صدا لگاتے نظر آتے ہیں

معیشیت تباہ ہے۔غربت عروج پر,کاروبار تباہ کر دیئے,غریبوں کو بجلی گیس اور پانی کے بل کے بوجھ کے نیچے دبا دیا۔ڈالر آسمان کو چھو رہا ہے۔بیشک میڈیا کو حکم ہوا تھا  یا یوں کہہ لیں کہ  ہلکی سی دھمکی ملی تھی کہ  کچھ عرصہ صرف عمران خان کی مثبت چیزیں دکھائے۔میڈیا نے بھرپور کوشش کی مگر میڈیا اب مزید حقائق چھپانے سے قاصر ہے۔ بہت سے لفافی مطلب صحافی جو  جھوٹے پروپیگنڈا سے عمران خان کو حکومت میں لانے کے ذمہ دار   ہیں اب عمران خان کی حقیقت سامنے لانے پر مجبور تھے۔ وہ الگ بات ہے کہ عمران خان سے ایک ملاقات  کے بعد پھر  عمران خان کی طرف داری کرتے نظر آتے ہیں۔یا یوں کہہ لیں ان کے دماغوں پر  پھر نیا کنٹوپ چڑھا دیا گیا۔

عمران خان صاحب کو خیبرپختونخوا صوبہ ملا۔جہاں کسی قسم کا ترقیاتی کام نہیں ہوا۔مبشر لقمان جو کہ  عمران خان کا سب سے بڑا حامی ہے اس نے خیبرپختوانخوا کے تعلیمی نظام پر پروگرام کیا ،سکولوں کی بدحالی دیکھ کر بھی دولے شاہ کے چوہے چپ رہے۔ہسپتالوں کی بدحالی الگ ہے۔ایک صوبے کی میٹرو بس جن سے اب تک پوری نہ ہو سکی وہ ملک کو سدھارنے چلے ہیں۔بنی گالہ  کی ناجائز  زمین کو عدالتی مشورے کے تحت  لیگل کرلیا اور غریبوں کی جھونپڑیوں کو گرا دیا گیا۔ اس حکومت کا ویژن دیکھیے صرف مرغی۔ کٹا۔لیٹرین اور  اسکے علاوہ نواز شریف کے تمام پراجیکٹس پر اپنے نام کی تختی لگوانا۔جیسا کہ  لیپ ٹاپ اسکیم ہو یا گوادر پراجیکٹس یہاں تک کہ  شہباز  شریف کے بنائے گئے لیٹرین پر بھی اپنا نام لکھوا لیا۔

ملکی بد حالی اور تباہی کا جو حال ہے  وہ یہ  دیکھ رہے ہیں۔مگر آواز نہیں اٹھا سکتے دل کے کھسرے جو ٹھہرے۔ ان دولے شاہ کے چوہوں کے پاس  ہرسوال کا ایک ہی جواب ہے کہ نواذز شریف چور ہے ان سے پوچھیں کہ  ملک کی موجودہ  صورتِ حال کا ذمہ دار کون ہے؟ڈالر  کیوں بڑھ رہا ہے؟غربت میں اضافہ کیوں ہے؟کہیں گے نواز شریف چور ہے۔چلیں ہم نہیں کہتے کہ  نواز شریف کا دامن پاک ہے ۔مگر اب حکومت عمران خان کی ہے۔جو پچھلے بیس بائیس سال سے ملک کی تباہ حالت دیکھ رہا ہے جس نے  صرف دولے شاہ کے چوہے اور دل کے کھسرے پیدا کرنے پر  زیادہ توجہ دی۔ اور ملک کی حالت کی بہتری کا کوئی منصوبہ بیس بائیس سال کے عرصہ میں  تیار نہ کر سکا۔ ان دل کے کھسروں سے اگر کہا جائے کہ نواز شریف نے کیسے  تباہ کیا ملک کو؟تو کہیں گے کہ قرضہ لیا۔آپ جواباً کہیں کہ قرضہ لیا تو ملک پر لگایا سڑکیں بنوائی,نئے ہسپتال بنوائے پرانے ہسپتالوں میں نئے ڈیپارٹمنٹ بنوائے ,طالب علموں کو لیپ ٹاپ دیئے ,لوڈ شیڈنگ دور کی ,دہشت گردی کا خاتمہ کیا, مہنگائی کنٹرول کی۔تو یہ دولے شاہ کے چوہے بغیر شرمائے کہیں  گے کہ  جو بھی ہے نواز شریف چور ہے۔ کیونکہ انکو سبق بس اتنا ہی یاد ہے۔انکی آنکھیں بس اتنا ہی دیکھتی ہیں۔انکے دل صرف اتنا ہی بول سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ دل کے کھسرے بن چکے ہیں۔

حکومت میں آتے چونکہ عمران خان ناکام ہوتے نظر آئے لفافے یعنی صحافی بھی انکے خلاف بول اٹھے اس وقت کچھ عمران خان کے حامیوں نے بھی تنقیدی رویہ اختیار کیا لہذا حکومت کو بند گلی نظر آنے لگ گئی۔ ایسی صورتِ حال میں  حکومت کوئی واضع پالیسی متعارف کرواتی اور اس پر عمل درآمد کر کے ملک کے حالات بہتر کرتی مگر ایسا ان سے ہو نہ سکا۔لہذا جن کانوں سے کنٹوپ اتررہے تھے جن کے دماغوں نے پرورش شروع کردی تھی جو دل کے کھسرے تھے انہوں نے آنکھ کان ناک کھولنا شروع کیا حکومت کو ڈر تھا کہ یہ لوگ انکی بربادی کے ذمہ دار بن جائیں  گے۔ چنانچہ عمران خان نے ملک پر توجہ دینے کی بجائے  ان دولے شاہ کے چوہوں پر توجہ دینی شروع کردی۔وہی تبدیلی اور چور کا شور مچانا شروع کردیا۔ تا کہ یہ صحت مند ہوتے دماغ اور دل دوبارہ سے عمران خان کے اثر میں آجائیں  اور اندھی پیروی شروع کردیں۔اور حکومت ملک کی حالت سدھارنے میں چاہے ناکام ہے مگر دل کے کھسرے اور چوہے پیدا کرنے میں کامیاب ضرور ہے۔

نواز شریف کی حکومت اچانک ختم کر کے اسکو ملک سے نکال دیا۔ایک طویل عرصہ ملک نے ڈکٹیٹرشپ  برداشت کی روزانہ بم دھماکوں میں عوام کے جسم کے چیتھرے بنتے تھے اور مہنگائی سے عوام خودکشی کرنے پر مجبور تھی۔زرداری کا دور آیا تو حالات مزید خراب ہو گئے۔ایک طویل عرصہ کے بعد نواز شریف حکومت میں آئے جن کے آتے  ہی ہر طرف خبریں گرم تھیں ، کیا مہنگائی کا جن قابو ہوگا؟کیا لوڈشیڈنگ ختم ہو گی؟کیا دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا؟کیا ملک میں ترقی ہوگی؟نواز شریف نے ہر بڑے منصوبےمیں عمران خان کی مخالفت اور عمران خان کی دن رات کی کوششیں جو وہ ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے کر رہے تھے اسکے باوجود ملک کو اسکے قدموں پر کھڑا کیا۔سی۔پیک منصوبے کے وقت عمران خان کی مخالفت کسی سے چھپی نہیں۔یہاں تک کہ  کرکٹ کی بحالی کو بھی عمران خان نے  قبول نہ کیا اور آئے ہوئے کھلاڑیوں کی تضحیک  انہیں پھٹیچر کہہ کر کی۔اسکے علاوہ  سڑکیں ہوں اسپتال ہوں کالجزز کا قیام ہو عمران خان نے بھرپور رکاوٹ ڈالی اور 2014کے دھرنے کے باوجود  نواز شریف ایک قدم نہیں لڑکھڑائے اور ملک کو کسی حد تک اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا۔جس کو موجودہ حکومت نے مکمل تباہ کردیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ کو موجودہ حکومت کی کوئی پالیسی کوئی منصوبہ نہیں ملے گا جس سے آپ کو لمحہ بھر کو یقین ہو کہ ملک بہتری کی طرف جا رہا ہے۔مگر فیس بک پر بیٹھے  اور عمران خان کے بنائے گئے دولے شاہ  کے چوہے فیس بک پر 350ڈیم، ایک کروڑ نوکریاں، دو سو ارب ڈالر  دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت کا حکومت میں رہنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ  یا تو حکومت پچھلے تمام دولے شاہ کے چوہے اور دل کے کھسروں کو  انکی حالت پر قائم رکھ سکے یا نئے چوہے اور کھسرے پیدا کئے جائیں۔لہذا ملک کی ترقی و کامیابی پر کام کرنے کی بجائے عمران خان اور حکومتی وزیر آئے دن چور اور تبدیلی کا کنٹوپ اور ڈھول لے کر نظر آتے ہیں۔اور مجھے یقین ہے  کہ  کافی حد تک پرانے لوگ ہوش میں آ رہے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ کوئی ایک آدھا نیا چوہا اور کھسرا بھی پیدا ہو جاتا ہے۔کیونکہ چور اور تبدیلی کا کنٹوپ اور ڈھول لے کر حکومتی لوگ اپنا شکار ڈھونڈنے میں دن رات مگن ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”دولے شاہ کے چوہے اور دل کے کھسرے۔۔۔رمشا تبسم

  1. اچھا تجزیہ ہے۔ اس سے بہتر تجزیہ اس گالی مافیہ کا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ دماغ بند سوچ بند صرف اس بند سوچ کے ساتھ گالی دے سکتے ہیں۔ کوئی دلائل ان کے پاس نہیں عمران کے حق میں اور ہر وقت بس چور چور روتے ہیؤ۔نزاحیہ انداذ میں انکو آئنہ دکھایا گیا۔مگر ان سے ہضم نہیں ہو گی تحریر یہ۔

  2. بالکل مناسب تجزیہ۔اسی طرح کی صورت حال سے آج کل ہم سب پریشان ہیں۔ اچھے طریقے سے ان کو آئنہ دکھایا۔کاش یع لوگ پاکستان کو برباد ہونے سے پہلے بچا لیں اور ہوش کے ناخن لیں۔ان کو آجائے کے پاکستان کتنے نا سمجھ اور بے وقوف ہاتھوں میں ہے۔مصنفہ نے بعت بہترین انداذ میں موجودہ دماغی صورت حال کو بیان کیا ہے۔مزاق کا ترکا بھی خوب لگایا۔

  3. very good.each and evry statmnt is correct.I appriciate the writer for providing such a brilliant witing.no one can express the mentality of Pti
    suportr better than this writing

Leave a Reply