بےموسمی وفات کادکھ(خاکہ) از عدنان چودھری

22اور23تاریخ شہاب فیملی کے لیے کچھ اچھی نہیں رہی۔22مئی1983 کوچاچوکی شہادت،اس سےدو ماہ بعد22جولائی کو دادی ماں کی وفات،22اگست2002 میں دادا جی شہاب دین کی وفات اور پھر17سال بعد2019میں 22اور23اگست کی درمیانی شب تایا جی کی وفات،ملٹری ہوسپٹل چونیاں سے ان کی وفات کی خبر ، خاندان تو کیا گاؤں والوں کےلیے بھی کسی سانحے سے کم نہ تھی، گاؤں کے معمولات اک دم سے مدوجزرکا شکار ہو گئے تھے۔

اک قیامت صغری برپاتھی۔اور ہم اس المناک   سانحے کو برداشت کرنے سے قاصر تھے۔کہنے کواک شخص بچھڑا تھا مگر ایسا بچھڑا کہ رُت ہی بدل گئی اور ہم سے ویرانیاں آن کر  لپٹ گئیں ۔ہم پہ ساکنیت غالب آچکی تھی۔اپنے محور میں منجمد ہو کر رہ گئے تھے۔شاید کہ بےموسمی وفات کا دکھ ہم پہ کسی آزمائش کی طرح مسلط کر دیا گیا تھا۔ہمارا خاندان ایک ایسے برگد سے محروم ہوگیا تھا جو سبھی کواپنی شاخوں اور گھنے  سائے میں لپیٹے ہوئے تھا۔

تایا جی کئی حوالوں سے بند باب کی طرح تھے،اور کئی حوالوں سے کھلی کتاب کی مانند، جو اپنے قاری پہ انمٹ نقوش چھوڑتی چلی جاتی ہے۔جس کے سحر سے نکلنا مشکل ہوتاہے۔
اسباق خودی جو تایا جی سے میں نے سیکھا کچھ یوں ہے۔۔

وہ کالج کی پڑھائی میں دادا جی سے پیسے لینا مناسب نہیں  سمجھتے تھے۔کہ مجھے میٹرک کے بعد اس قابل تو لازمی ہونا چاہیے کہ کم ازکم پڑھائی کے اور ذاتی اخراجات خود اٹھا سکوں۔70کی دہائی میں کالج جانے کے لیے سائیکل کی ضرورت تھی۔مگر خودی کایہ عالم کہ سائیکل خریدنے کےلیے پیسے محنت مزدوری کر کے   جمع کیے۔ابو جی کے مطابق،میٹرک کے بعد انٹر اور پھر آرمی جوائن کرنے تک وہ اپنی زندگی خود جینا سیکھ چکے تھے ۔اس عرصےمیں دادا جی کے سامنے  کبھی ان کا کوئی مطالبہ نہیں آیا تھا کہ اس چیزکی ضرورت ہے یا مجھے یہ چاہیے۔وہ اپنی ضروریات سے نمٹنا اچھی طرح جانتے تھے۔
خاندان میں بچوں سے خاصا لگاؤ تھا۔جب بھی ملتےپڑھائی سےلے کر فیوچر پلاننگ تک سب کچھ پوچھ لیتے۔اس کے بعد بچوں کو ان کی کمزوریوں کے بارے میں آگاہ کرتے۔تعلیمی میدان میں کوئی بچہ نمایاں کامیابی حاصل کرتا تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے پہلے سے موجود ہوتے۔بچوں کے لیے ان کی دی شاباشی اور انعام کسی گولڈ میڈل سے کم نہ ہوتے۔بہت سوں کے لیے وہ نان پیڈ موٹیویشنل سپیکراور انسپریشنل پرسنالٹی تھے۔

مزاج دھیما مگر بات بارعب اور وزنی کرتے۔بڑھوں سے شفقت اور احترام ان کی طبیعت کا حصہ تھا۔خاندانی مسائل حل کرتے وقت غیرجانبدارانہ رویہ اپناتے،شاید یہی وجہ تھی کہ کوئی ان کے فیصلوں پہ سوال نہ کرتا۔ہر ایک خندہ پیشانی سے ان کا فیصلہ تسلیم کرتا۔

آرمی میں دوران ڈیوٹی اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کبھی اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کیا۔مسجد کے خزانچی تھے مگرایمانداری کا یہ عالم کہ سال ہاسال مسجد کے پیسے ان کے پاس ویسے کے ویسے محفوظ رہتے۔واپسی پر ڈبے  سے نکلنے والے پیسے وہی نوٹ، وہی سکےاور انہی پیکٹوں میں ویسے کے ویسے لوٹاتے۔

ریٹائرمنٹ سے کچھ سال پہلے آرمی کے ٹریننگ سنٹر میں خدمات سر انجام دے رہے تھے۔اتفاقاً والد صاحب کے پرموشن کورس کی ٹریننگ بھی تایاجی کی کمانڈ میں آ گئی۔ابو جی بتاتے ہیں کہ کورس کی دوسری صبح ہم ڈرل کے لیےٹریننگ سنٹرکی بلڈننگ کے سامنے لائنوں میں کھڑے تھے کہ اچانک تایا جی اردلی کے ساتھ بلڈنگ کے ٹیرس پر نمودار ہوئے اور اردلی کو کہنے لگے!
جانتے ہو فرسٹ لائن میں سیکنڈ لاسٹ پہ جو جینٹل مین کھڑا ہے کون ہے؟
اردلی بولا: نہیں سر بس اتنا پتا ہے کہ عبدالغفورنام کا کیڈٹ ہے۔
تایاجی بولے: وہ میرا چھوٹا بھائی ہے
اردلی بولا:اوہ! اچھا سر۔یہ تو اچھی بات ہے۔میں کیڈٹ کو ریلکسیشن دلوا دوں گا آپ کا کہہ کر ۔
نہیں۔تایا جی بولے
ریلیکسیشن نہیں!بلکہ میں چاہتاہوں کہ اس کی ٹریننگ،فزیکل ایگزام اور ریٹن ٹیسٹ سب سے مشکل اور ٹف ہوں تاکہ کسی کو یہ نہ محسوس ہو کہ انسٹرکٹر عبدالسلام نے اپنے بھائی کے ساتھ نرم رویہ رکھا ہے۔یہ ٹریننگ کیمپ سے نکلے تو کندن بن چکا ہو۔اردلی حیران وپریشان کھڑا سوچ رہاتھا کہ کیسا انسٹرکٹرہے جو بجائے اپنے بھائی کو رعایت دے الٹا اس کی ٹریننگ سخت کرتا جارہاہےاور اس کے لیے وبال جان بن رہا ہے۔یقینًااسی سخت جان ٹریننگ کانتیجہ تھا کہ رینجرز میں دوران سروس کئی مرتبہ ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا کہ جہاں جان بچانا مشکل ہوتا،اسی ٹریننگ کی بدولت میں وہی نہ صرف جان بچاتا بلکہ ان مشنز کو بھی ہر حال میں پایہ تکمیل تک پہنچاتا۔

تایاجی کے بارے میں ابو جی دوسراواقعہ اسی ٹریننگ سنٹر کا کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک دن دوران ڈرل تایا جی وزٹ کرنے آئے اور کیڈٹس سے ان کا حال چال پوچھنا شروع کر دیا جب مجھ سے پوچھا کہ سناؤ نوجوان کیسے ہو ؟ میرے منہ سے نکل گیا “میں ٹھیک بھائی جان۔ آپ کیسے ہیں؟
تو فوراً  سے ان کی آنکھوں میں غصے کی ایک لہر دوڑ گئی۔اور ایک لمحے سے بھی کم وقت میں وہ آس پاس کے کیڈٹس کے چہروں کا جائزہ لے کر آگے بڑھ گئے البتہ واپس جاتے جاتے اتنا کہہ گئے!کیڈٹ ڈرل کے بعد میرے آفس پہنچ جانا۔ میں دفترمیں میں داخل ہوا تو وہ اپنی کرسی کے پیچھے کھڑے تھے۔سنجیدہ،چہرہ تاثرات سے عاری تھا۔کھڑے کھڑے کہنے لگے!اس ٹریننگ سنٹر میں، میں تمہارا انسٹرئکٹر ہوں اور تم کیڈٹ اور اس سبز حلالی پرچم والی خاکی وردی پہنے ہوے میں تمہارا چیف ہوں اور تم میرے جونیئر۔ ہم ایک صورت میں بھائی ہیں کہ جب ہم نے خاکی وردی نہ پہنی ہو۔دوبارہ بھول کر بھی مجھے ادھر بھائی مت کہنا۔سمجھ گئے؟ انہوں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
یہ ان کے لہجے کی سختی تھی یاکہ ان کی شخصیت کا رعب کہ میرا سر اثبات میں ہل گیا۔۔۔کیڈٹ اب تم جا سکتے ہو۔ان کا رویہ ایک دم سے بدل چکاتھا۔۔بائیں پاؤں اور دائیاں ہاتھ خود بخود ان کے سلیوٹ کے لیے اٹھ گئے۔”یس سر”میں بمشکل اتنا کہہ سکا۔دفتر سے باہرنکلے تو ہنستے مسکراتے ہوئے،جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

چاچو جی آرمی کی آرٹلری برانچ میں فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ دوران مشق پتھر لگنے کی وجہ سے دائیں آنکھ ناکارہ ہوگئی۔ناکارہ آنکھ والا اب آرٹلری میں نہیں رہ سکتا تھا۔البتہ تایا جی اپنے اختیارات استعمال کر کے انھیں ادھر ہی کوئی پوسٹ دلوا سکتے تھے۔مگر تایاجی نے یہ کہہ کر سفارش سے انکار کر دیا کہ “میں آنکھ سے معذور آدمی کو ادھر رکھ کر اپنی آرمی کو گرہن نہیں لگا سکتا”
عموما آرمی سے ریٹائرڈ افراد سروس کی بہادری کے واقعات سناتے رہتے ہیں۔مگر تایا جی ایک دو واقعات سے آگے نہیں بڑھے۔اگر کسی نے  زیادہ اصرار بھی کیا کہ تایاجی ہمیشہ یہی دو واقعات ہی سناتے رہتے ہیں ان سے آگے بھی بڑھیں تو وہ یہ کہہ کر خاموش کروا دیتے
“ہم نے اس وطن سے محبت میں خاکی وردی پہنی ہے، اس پاک دھرتی کے تقدس کے لیے،اس سبزہلالی پرچم کی سربلندی کے لیے،اس مٹی سے عشق پورا کرنے کےلئے،اس لیے نہیں کہ جب ریٹائرڈ ہو کر آئیں تو اپنی بہادری کے قصے سنانے کے لیے، جھوٹا رعب جمانے کے لیے،شیخی بگھاڑنے کے لیے”

ان کے میڈلز ہمیشہ ان کے فوجی بکسے کے اک کونے میں بند پڑے ہوتے۔وہ کبھی کسی نے نہیں دیکھے اگر کبھی زد بھی کی تو صرف اتنا کہتے “بیٹاوہ اس پاک دھرتی کا قرض تھا،جو ادا ہوا”
خوش اخلاقی، سنجیدہ مزاجی کے ساتھ ساتھ سنجیدہ مزاہ بھی ان کی طبیعت کا خاصہ تھا۔ایک مرتبہ ایک انجان عورت کا فون آیا۔بات کی تو موصوفہ بھی جان چکی تھی کہ نمبر غلط جگہ لگ گیا ہے۔ کنفرم کرنے کے لیے پوچھنے لگی کہ “تسی کتھوں بول رہے ہو”
تایا جی نے جواب دیا”میں تے منہ چوں ہی بول ریاآں، اگر بولن دی کوئی ہور جگہ ہے تے تسی دس دیو”

آخری دنوں تک فجر کی نماز کے بعد کا ایک ہی شیڈول ہوتا کھیتوں کا چکر لگاتے اور واپسی پہ  ہمارے گھر تشریف لاتے۔ ان کے مخصوص مگ میں چائے پیش کی جاتی اگر غلطی سے کبھی چھوٹے کپ میں چائے دی جاتی تو فورً ا جملہ کستے”یہ تو بندے مار کپ ہیں،ان میں تو چائے پینی شروع بھی نہیں کرتے کہ چائے ختم ہو جاتی ہے۔سیانے بیبےاور سفید داڑھی والوں کے ساتھ یہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے”
گھر میں داخل ہوتے تو حال چال پوچھتے اسی دوران ہم میں سے کوئی پوچھتا!
تایاجی چائے لائیں؟
برجستہ کہتے “لاؤ بھئی لاؤ،کون منع کرتا ہے چائے کو؟ اس دنیا میں اک چائے ہی تو ہے،کوئی کافر ہی ہو گا جو چائے کو منع کرے گا”- یہ سنتے ہی ہمارے قہقہے چھوٹ جاتے اور وہ ہمیں قہقہوں میں گم چھوڑ کر رخصت ہو جاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

22اور23 کی درمیانی شب بھی تو یہی ہوا تھا وہ ہمیں گم چھوڑ کے جاچکے تھے البتہ قہقہوں میں نہیں “بے موسمی وفات کے دکھ” میں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply