جواب الجواب۔۔زین سہیل وارثی

میرے وزیراعظم جناب محترم عمران خان صاحب جنہوں نے 25 اپریل 1996 کو تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تھی۔ 1997 کے الیکشن میں کسی نشست پر کامیاب نہ  ہو سکے، انھوں نے ان دنوں پی ٹی وی میں اپنی پارٹی کا منشور پیش کرتے ہوئے کہا تھا، کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں، آپ خود اپنی سواری پر آئیں اور آکر تحریک انصاف کو ووٹ ڈالیں۔ اس نئے پودے کی آبیاری کا ذمہ جناب حمید گل مرحوم کو دیا گیا تھا، جنھوں نے نواز شریف صاحب کو تناور درخت بنایا تھا۔

وزیراعظم صاحب بالآخر 2002 کے الیکشن میں میانوالی سے نشست جیتنے میں کامیاب ہوگئے، ان دنوں  ہر ٹاک شو میں خان صاحب کو بطور مہمان شرکت کی دعوت دی جاتی تھی۔ خان صاحب سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ پارلیمان کی کارروائی میں حصہ کیوں نہیں لیتے ہیں۔ خان صاحب نے فرمایا دیکھیں حامد، اسمبلی میں حزب اختلاف سے ایک آدمی کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں محکمے میں اتنے کی کرپشن ہو رہی ہے۔ پھر حکومتی نشست سے کوئی بندہ کھڑا ہو کر جواب الجواب میں کہتا ہے آپ کے دور میں بھی اتنی کرپشن ہوئی تھی اور یوں پارلیمان کی کارروائی ختم ہو جاتی ہے۔ خان صاحب کا اس زمانے میں یہ بھی فرمان تھا کہ پارلیمان کا کام تو قانون سازی کرنا ہے، وہ تو یہ لوگ کرتے نہیں وغیرہ وغیرہ۔

اس زمانے میں میرے کپتان ریاست کے چار ستونوں کی بات بہت محبت و عقیدت و احترام سے کیا کرتے تھے۔ ریاست کے 4 ستون ہوتے ہیں، مقننہ، عدلیہ، حکومت اور ذرائع ابلاغ۔ اس زمانے میں وہ الیکشن کمیشن کو خود مختار بنانا چاہتے تھے، وہ انتخابی نظام میں اصلاحات کرنا چاہتے تھے۔ وہ نمائندگان کی سیاست نہیں کرنا چاہتے تھے، ان کے بقول وہ ایسے لوگوں کو سیاست کے نام پر دھبہ سمجھتے تھے، جن کا کوئی سیاسی نظریہ نہ  ہو۔ ان کے بقول یہ لوگ اقتدار کے لالچی تھے، اس لئے ہر حکومت کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ اس زمانے میں وہ پاکستان تحریک انصاف کو ادارہ بنانا چاہتے تھے۔ جس میں لوگ جماعت کے عہدیداروں کو بھی انتخابات کے ذریعے منتخب کریں گے۔ اس زمانے میں بلدیاتی ادارے جمہوریت کی اکائیاں تھیں۔ اس زمانے میں جمہوریت میں غلطی یا کوتاہی سرزد ہونے پر وزیر کو مستعفی ہو جانا چاہیے، اگر کسی وزیر پر بدعنوانی کا الزام لگے تو وزیر کو مستعفی ہو جانا چاہیے، تاکہ آزادانہ تحقیقات کی جا سکیں، اس زمانے میں انھیں عدلیہ اور ذرائع ابلاغ کی آزادی کی فکر تھی، وغیرہ وغیرہ انکے سیاسی اقوال زریں تھے۔ اس زمانے میں خان صاحب کی جماعت توانائی اور دیگر عوامی مسائل پر اجتماعات کا انعقاد کیا کرتی تھی۔ اس زمانے میں فوج کے دفاعی بجٹ اور افواج پاکستان کے سیاسی معاملات میں دلچسپی اور سول اداروں میں تقرریوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اس زمانے میں مفادات کا تصادم کا پرچار کیا جاتا تھا، مک مکا کی سیاست کو برا بھلا کہا جاتا تھا، ایم کیو ایم کے خلاف لندن میں مقدمات درج کروائے جاتے تھے۔ تمام چور سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیاسی رابطہ قائم رکھا جاتا تھا، کل جماعتی کانفرنس میں شرکت اختیار کی جاتی تھی۔ تعلیم، صحت، ٹیکس اور روزگار کی باتیں بار بار کی جاتی تھیں۔ ایسے ایسے حسین خواب دکھائے جاتے تھے، کہ ہم جیسے سیاسی نابالغ ان باتوں پر ناچتے رہتے تھے، اور اپنے بزرگوں کے ساتھ زبان درازی بھی کر جاتے تھے۔
10 اکتوبر 2011 کو یکدم کایا ہی پلٹ گئی۔

اس دن کے بعد وہ طریقہ اختیار کیا گیا جو پرانی 2002 کی اسمبلی میں جواب الجواب کا طریقہ تھا۔ دیکھیں حامد، میں کیوں منتخب نمائندوں کی سیاست نا کروں، یہ لوگ میرے نظریات پر جماعت سے الحاق کر رہے ہیں، ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا کہ حالات اتنے خراب ہیں، 22 سال میں ہماری ٹیم تیار نہیں ہو سکی، میٹرو پہلے جنگلہ بس تھی اب وہ سستی اور معیاری ہے، غریب کو اسکا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ حزب اختلاف خود مافیا تھی، ہم نے مافیاز سے اتحاد کر لیا ہے۔ حال ہی میں چینی کی رپورٹ پر جناب شہزاد اکبر کا فرمانا تھا کہ ہم نے سبسڈی یعنی رعایت پرانے دور کے مقابلے میں کم دی ہے، حالیہ دنوں میں گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ چارج کا جو فیصلہ سپریم کورٹ میں آیا ہے وہ 200 ارب میں عدالت سے باہر طے کرنے کی کوشش جاری تھی، وہ تو کچھ لفافہ صحافیوں نے شور ڈال کر عدالت کی نظر ڈلوا دی۔ بزدار صاحب پر لائسنس اور تقرریوں کے مسائل بھی زبان زد عام ہیں، رزاق داود، ندیم بابر، ثانیہ نشتر، علی زیدی، زلفی بخاری اور نا جانے کس کس کے قصہ مشہور نہیں ہو رہے۔

بے فکر رہیں قیادت نیک، شریف، ایماندار اور خوبرو ہے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ بہتر کرے گا، کیونکہ ریاست مدینہ کے امام اعظم نے فرمایا ہے کہ نیت نیک ہے، اس لئے اجر مل ہی جائے گا۔ پارلیمنٹ میں آجکل قانون سازی نہیں ہوتی ہے، بلکہ جواب الجواب کاروائی ہوتی ہے، حزب اختلاف، حکومت پر لعن طعن کرتی ہے اور حکومت حزب اختلاف پر۔ کبھی پانامہ، سر محل، اومنی گروپ اور ٹی ٹیز کا ذکر ہوتا ہے، الجواب میں بی آر ٹی، مالم جبہ، چینی، آٹا اور فارن فنڈنگ کا ذکر ہوتا ہے۔ رہ گئی عوام تو پہلے کون سی دودھ و شہد کی نہریں بہتی تھیں کہ وہ اب فکرمند ہوں۔
اللہ ان لوگوں کو غارت کرے جو کہتے ہیں، عسکری ذرائع اور حکومت کے ایک صفحہ پر ہیں، میری نظر میں تو حزب اختلاف اور حکومت ایک صفحہ پر ہیں، نااہلی، اقربہ پروری، کرپشن اور احتساب کے معاملے پر۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رہی عوام تو وہ پہلے بھی ذلیل و خوار تھی، اب بھی ہے، مزید ہونے کے لئے تیار ہے، لیکن سبق نہیں حاصل کرنا چاہتی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply