اگر میں ہیجڑہ ہوتا؟۔۔ہُما

مارکیٹ میں تیزی سے ایک دکان  سے نکلتے ہوئے فلاح تقریباً کسی عورت سے ٹکراتے ٹکراتے بچی،
جوں ہی سر اٹھاکر اوپر دیکھا تو کوئی ہیجڑہ اس کے سامنے  شوخ انداز میں ہاتھ پھیلائے  کھڑا تھا۔۔
فلاح کا پارہ آسمان سے باتیں کرنے لگا اور خونخوار نظروں سے ہیجڑے کو گھورتے ہوئے اسے سامنے سے ہٹنے کا اشارہ کیا،
وہ ہیجڑہ فوراً سامنے سے ہٹا ،تو دو لڑکے بری طرح اس ٹکر اور حرکت پر ہنس رہے تھے، فلاح تیزی سے انہیں بھی کراس کرتی ہوئی غصے میں بھری گھر پہنچی۔۔
گھر میں فلاح کی سب سے بڑی بہن کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔
مہندی کی رسم کے اگلے روز کچھ ہیجڑے گلے میں ڈھول لٹکائے گانے گاتے ہوئے گھر کا دروازہ بجانے لگے۔۔۔

دروازہ نہ کھولنا۔۔۔
اگر کسی نے دروازہ کھولا تو یہ اندر ہی گھس جائیں گے جیسے چچی کے گھر میں گھس گئے تھے
فلاح چھوٹے بھائی کو چیخ کر ہدایات دے رہی تھی،
امی نے مسکرا کر فلاح کو دیکھا اور اسے چپ کرواتے ہوئے خود دروازے کی طرف چلی گئیں،

گھر میں ان کے ابو نہیں ہیں آپ شام کو آنا ۔فلاح کی امی ان کے گرو سے مخاطب تھیں

ہائے باجی ہم سب کو نیا جوڑا دینا ،بھائی سے کہنا پہلی بچی کی شادی ہے ہم اپنا پورا حق لیں گی ۔

ہاں ہاں سب ملے گا ان شاءالله بس دعا کرنا

ہونہہ یہ دعا کریں گے، حلیہ تو دیکھو ان کا، فلاح بڑبڑاتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی،

آخر کیوں دیا جائے گا ان ہیجڑوں کو ہمارے گھر سے؟؟
اگر یہ اللہ تعالیٰ نے ایسے بنائے ہیں تو انہیں چاہیے ناں کوئی ڈھنگ کا کام کریں کیا بس لوگوں کو اپنی بددعا سے بلیک میل کرنا آتا ہے انہیں،

شام کو امی جان نے کچھ کپڑے اور پیسے ابو کے مشورے سے ان ہیجڑوں کو یہ کہہ کر دے دیئے کہ گانا بجانا نہیں کروانا، ہمیں یہ پسند نہیں ہے لیکن یہ آپ لوگ رکھ لیں۔۔۔۔

میری تو کوئی سنتا ہی نہیں، چڑ ہوگئی تھی جیسے فلاح کو ان ہیجڑوں اور ان کہانیوں سے کہ ان کی بددعا لگ جاتی ہے،

کچھ عرصے بعد پھر کسی  دکان پر اپنی کزن کے ساتھ کھڑی فلاح کے سامنے ایک ہیجڑہ دست سوال  دراز کررہا تھا۔۔

شمائلہ کچھ دے دو، ہیجڑے نے فلاح کو شمائلہ نام سے پکارا ،تو فلاح نے سیدھا رخ اپنی کزن اقراء کی جانب کیا اس سے مانگو یہ ہے شمائلہ،

اقراء نے گھبرا کر مجھے دیکھا اور کہا کہ کچھ دے دو یاار ان کی بددعا لگ جاتی ہے

پھر بددعا!

کوئی نہیں لگتی ان کی بددعا سب بلیک میلنگ ہے، میک اپ دیکھا ہے کتنا کیا ہوا ہے کچھ نہیں ہے ان کیلئے، اور ہیجڑہ چلا گیا

واؤ میگزین! مستنصر حسین تارڑ کا نیا مضمون آیا ہوگا اس میں،
فلاح نے جوں ہی صفحات پلٹے اور اپنے پسندیدہ رائٹر کا مضمون دیکھا تو ٹھٹھک گئی

اگر میں ہیجڑہ ہوتا ۔۔۔۔۔

ہیں! یہ کیسا مضمون ہے ؟
تجسس بھرے سوالات کے ساتھ مضمون پڑھا

“ایسا عین ممکن تھا میں ہیجڑہ پیدا ہوسکتا تھا، جس طرح میں اندھا گونگا بہرہ یا کسی بھی نقص کے ساتھ پیدا ہوسکتا تھا اسی طرح میں ہیجڑہ بھی پیدا ہوسکتا تھا ،۔۔

فلاح گھنٹوں محو حیرت رہی کہ رب کریم کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے مجھے بھی مکمل پیدا کیا اور میں اس کی پیدا کی ہوئی مخلوق سے گھن کھاتی ہوں۔
اللہ جو چاہتا ہے جیسا چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ ہمیں نک سک سے بناتا ہے ہمارے ہاتھ، پاؤں، آنکھیں کان سب سلامت ہیں، ہم ایک مکمل جنس ہیں پھر رب کا شکر گزار ہونے کے بجائے ایک نامکمل جنس سے کراہیت۔؟
یہ کس بات کا غرور ہے ؟
خدا نہ کرے مجھے اپنے ہی گھر میں کبھی ایسی نامکمل جنس کو دیکھنا پڑا تو کیا ہوگا
فلاح اپنے رب سے شرمسار تھی اور شکرگزار بھی !

————————-

فلاح شاپنگ میں مصروف بہن کے ساتھ کسی زنانہ مخلوق کو بغور دیکھ رہی تھی جس کے ساتھ کچھ لڑکے کھڑے سیلفیز لے رہے تھے اس کے سلیقے سے میک اپ اور نزاکت کی وجہ سے گمان ہورہا تھا جیسے کوئی خوبصورت لڑکی ہو۔۔
اچانک وہ فلاح کے سامنے آگیا /آگئی۔۔۔۔
کیا ہمارے لئے کچھ نہیں آپ کے پاس؟؟
فلاح نے برجسته جواب دیا، ہے ناں تمھارے لئے تعریف ہے بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔
وہ خواجہ سرا بھی کھلکھلا کر ہنس پڑا/پڑی

آپ بھی بہت پیاری ہو!

Advertisements
julia rana solicitors

اُس کی بات پر فلاح نے مسکرا کر کچھ پیسے اُس کی ہتھیلی پر رکھے اور آگے بڑھ گئی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply