گرین شرٹس نے نئی تاریخ رقم کر دی-مبارکباد۔۔محمد وقاص رشید

گرین شرٹس نے نئی تاریخ رقم کر دی-مبارکباد۔۔محمد وقاص رشید/کرکٹ کا کھیل پاکستان کی دنیا میں پہچان کا ایک مضبوط ترین حوالہ ہے اور اقوامِ عالم میں ایک قوم کی شناخت بننے والی کسی بھی شئے سے وہاں کے رہنے والوں کی اکثریت کی ہر طرح کی وابستگی فطری امر ہے،بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ یہ پہچان اور وابستگی آپس میں راست متناسب ہیں،یہ وابستگی ہی 22 کروڑ میں سے محض 11 کو چنتی ہے اور پھر 22کروڑ ان 11 کے پیچھے آکر کھڑے ہو جاتے ہیں۔11 مسکرائیں تو 22کروڑ قہقہے لگاتے ہیں اور اگر 11اداس ہوں تو 22کروڑ افسردہ۔

میں نے بھی ہوش کی آنکھ کھلنے سے واقعی ہوش میں آنے تک بہت کرکٹ کھیلی ۔میری بچپن سے کرکٹ سے وابستگی کی خاص بات کرکٹ کو سمجھنا تھی،مثلاً  میں سکول میں ایک بچپن کے کرکٹر لنگوٹیے کے ساتھ مل کر میچ سے پہلے پچ رپورٹ ، ٹونی گریک مائیکل ہولڈنگ رچی بینو وغیرہ کی کمنٹری کی نقل اور پاکستان کے میچز پر تکنیکی تبصرے دیا کرتا تھا ۔وسیم اکرم میرا آل ٹائم فیورٹ کھلاڑی تھا۔ میں اسکی تصویریں جمع کیا کرتا تھا، ایک البم اخباروں سے تصویریں  کاٹ کاٹ کر میں نے بنا رکھا تھا ۔ 1992 کا ورلڈکپ جب پاکستان نے جیتا تو میں 12سال کا تھا،تب سے لے کر لگ بھگ 2012 تک کرکٹ کھیلتا اور دیکھتا رہا۔  اس وقت کی ٹیم کے کسی کھلاڑی کا کوئی ایسا ریکارڈ نہیں ہوتا تھا جس سے میں واقف نہ ہوں،  وسیم اکرم کی ہیٹ ٹرکس ہوں ،وقار یونس کے ریورس سوئنگ یارکرز ہوں ان دونوں کا آخری 10 اوورز جادوئی بالنگ سے پاکستان کو میچ جتانا ہو ،شاہد آفریدی کی تیز ترین سنچری ہو سعید انور کی ڈبل سنچری ، محمد یوسف کا ویوین رچرڈز کا ریکارڈ توڑنا ہو ،انضمام الحق کا ٹنڈولکر اور لارا کے ساتھ دنیا کا تیسرا بہترین بلے باز ہونا ہو ،ثقلین کا دوسرا ،پھر سعید اجمل کا ہتھیار بننا ہو، مشتاق کی گگلی ، شعیب اختر کے لیے پورے سٹیڈیم کا کھڑا ہونا ہو ، پھر مصباح الحق کا دور ۔۔ پھر اسکے بعد دلچسپی کم ہونے لگی۔ اسکی دو وجوہات تھیں ایک ان عظیم کھلاڑیوں کا انخلاء ،انکی جگہ اوسط درجے کے لوگوں کا میدان میں اس طرح جان نہ مارنا اور دوسرا زیادہ اہم میری آغوش میں دو بچے آ گئے تھے ۔ اب وہ کھلاڑی تھے اور میں انکا چابی والا کھلونا ۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑی بد قسمتی سے رقابت کے سیاسی و جغرافیائی تنازعات کا اثر دونوں قوموں کی غیر تربیت یافتہ نفسیات پر بھی پڑتا ہے اور اسکا غیر تربیت یافتہ ہونا اور رکھا جانا ہی ان تنازعات کے ہر شئے سے منسلک ہو جانے کی بنیادی وجہ ہے۔ ہم ہمیشہ سے بھارت کے ساتھ کرکٹ میچز کو اس جذباتی وابستگی سے بھی آگے لے جا کر غیر ضروری غیرت اور حساسیت کے میدان میں اتارتے رہے ہیں۔ پاکستان ان عظیم کھلاڑیوں کی غیر معمولی کارکردگی کے باعث شارجہ ،انڈیا ،پاکستان ،کینیڈا،ورلڈ سیریز آسٹریلیا الغرض ہر جگہ اور ہر ٹورنامنٹ میں بھارت کو ٹنڈولکر ، ڈریوڈ، سارو گنگولی ،اظہرالدین، انیل کومبلے اور سری ناتھ کے ہونے کے باوجود ہرادیتا تھا ۔سوائے ورلڈ کپ کے ،حتیٰ  کہ پاکستان کی حالیہ قومی تاریخ پر سب سے زیادہ “اثر انداز ” ہونے والے 92 کے ورلڈ کپ میں بھی بھارت نے پاکستان کو پچھاڑا ۔پاکستان کی کرکٹ تاریخ میں 1999 کے ورلڈ کپ جیسی عظیم اور متوازن ٹیم شاید ہی دوبارہ کبھی بنے ۔پول میچ میں آسٹریلیا کو ہرا کر فائنل میں اسی آسٹریلیا سے بُری طرح ہارنے والی وہ ٹیم بھی بھارت سے ہار گئی تھی، بہت سوچا وجہ کیا تھی۔ بڑے بڑے کھلاڑیوں سے یہ سوال ہوا جواب ندارد ۔پاکستانی مذاق میں ٹال دیتے تو بھارتی تمسخر اڑانے میں ۔ کسی کو بھی اسکی وجہ معلوم نہ تھی  لیکن کل مجھے اسکی وجہ معلوم ہو گئی ۔ جی ہاں ہو ہی گئی۔۔پوچھیے کیسے ؟ ۔خواتین و حضرات وہ ایسے کہ۔۔۔۔

دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے قوموں نے ہر میدان میں انکے استعمال سے فائدہ اٹھایا ہے۔ کوئی شک ہی نہیں کہ on the field کارکردگی کا نعم البدل کچھ ہو ہی نہیں سکتا لیکن اسے ممکن بنانے میں off the field محرکات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔ آپ نے میدان میں کتنا اچھا پرفارم کیا یہ اس محنت اور تیاری کی نشاندہی کرتا ہے جو آپ نے اس پرفارمنس کے لیے میدان میں اترنے سے پہلے کی،کرکٹ کیا دنیا کی ہر جسمانی کارکردگی سے منسلک شئے کے پیچھے متحرک و مستعد دماغ اور مضبوط اعصاب کار فرما ہوتے ہیں جو کہ اس میدان میں کامیابی حاصل کرنے کی جستجو اور ناکامی کے خوف کے دباؤ میں اچھی کارکردگی دکھانے کے فن میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ بس یہی وہ ایک نقطہ ہے جس پر پاکستان نے کام کیا ،محنت کی ۔

پاکستانی باؤلرز نئی بال کے ساتھ وسیم اکرم سے لے کر عامر تک آگے پچ کرتے رہے ہیں، بال کو کیونکہ نیا بال آف دا ائیر رائٹ ہینڈڈبیٹسمین کے پیڈز کی طرف آتا ہے۔ ایل بی ڈبلیو یا کلین بولڈ کا چانس بنتا ہے شاہین شاہ اس سے پہلے اپنے قد کا فائدہ اٹھانے کے لیے لینتھ باؤلنگ کرتا رہا ہے ۔ کل اس نے روہت اور راہول کو جب فل لینتھ کر کے آؤٹ کیا تو میرے بچپن کا کرکٹ پنڈت جاگ اٹھا  اور جب کیمرہ گیا بھارتی ڈریسنگ روم کی طرف تو روی شاستری کا اترا ہوا چہرہ مجھے یہ باور کرانے کے لئے کافی تھا ۔جس frame of mind سے اس سے پہلے پاکستان ہوتا تھا آج بھارت ہے۔ شاہین شاہ آفریدی نے کمال کر دیا ۔ اس نے بھارت کو اس منفی نفسیات کا شکار کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔  میرے خیال میں اسے ویرات کوہلی کو بھی آتے ساتھ فل لینتھ کروانی چاہیے تھی۔ تمام باؤلرز میں حسن علی معمولی سا off colourنظر آئے حارث رؤ ف کی کامیابی کا راز وہی اپنی سٹرینتھ کو پہچاننا تھا، سب باؤلرز نے بہترین باؤلنگ کی ۔فیلڈنگ میں شاہین شاہ کی اوور تھرو کے علاوہ سب کچھ ٹھیک تھا۔ ویرات کوہلی دنیا کا بہترین بیٹسمین ہونے کا اعزاز بابر اعظم کے ساتھ کیوں شیئر کرتا ہے کل دونوں نے بتا دیا ۔یہ وہ مائنڈ سیٹ تھا جو بھارت کی باقی تمام ٹیم میں غیر موجود اور پاکستانی ٹیم میں بدرجہ اتم موجود تھا ۔

میں جن کزنوں بھائیوں کے ساتھ کرکٹ کو جیتے بڑا ہوا تھا انکے ساتھ واٹس ایپ گروپ میں بتائے گئے سکور کے عین مطابق ٹارگٹ بنا۔  میرے خیال میں کوہلی کے آخری اوور تک جانے کی صورت میں رنز 170 تک جاتے ۔اسے انتہائی اہم موقع پر شاہین آفریدی نے اپنی مہارت  سے سلو باؤنسر پر آؤٹ کر کے کمال کیا۔ میں عرض کر چکا کہ پریشر کے لمحات میں آپ اپنی مہارت کا مظاہرہ دماغ کی مضبوطی کے بغیر نہیں کر سکتے اور دماغ کی مضبوطی “میں ہوں ناں ” کے self belief کے بغیر نہیں آتی۔ جس میں کوچنگ کاؤنسلنگ اور بالآخر کھلاڑی کا بڑا کردار ہے۔

جب بیٹنگ شروع ہوئی تو رضوان کے پہلے پل شاٹ چھکے نے مجھے دل میں ایک یقین پیدا کیا اور اس یقین پر مہر لگا دی بابر اعظم کی بیک فٹ سکوئیر ڈرائیو نے۔ رضوان اور بابر نے کسی ایک لمحے کو یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ انکے ذہن میں “میں ہوں ناں ” کی بنیاد پر جیت کی خود اعتمادی نہیں۔۔اور اسی خود اعتمادی نے انڈین باؤلرز کو میچ جیتنا تو درکنار ایک وکٹ ہی حاصل کرنے کا اعتماد حاصل نہ ہونے دیا۔ شارٹ آف لینتھ باؤلنگ انکے آف دی فیلڈ پاکستان سے میچ ہار جانے کی غماز تھی۔  ہم سارے کزنز اتنے  پُر جوش تھے بال بائی بال اپنے واٹس ایپ گروپ کو اپڈیٹ کر رہے تھے ۔

پندرھویں اوور میں ایک رضوان اور ایک بابر کے چھکے نے میرے متوقع سکور بورڈ کو غیر موثر کر دیا ۔ میں 24 گیندوں پر 30 رنز کی ضرورت کی توقع رکھتے ہوئے 18 گیندوں پر 15 رنز کا متمنی تھااور سیکنڈ لاسٹ اوور میں میچ کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ ویرات کوہلی کے پاس ایک معدوم سا چانس تھا صرف ایک۔۔ اور وہ چانس اس نے اس وقت گنوا دیا جب اٹھارویں اوور میں گیند بومرا کو دے کر واپس لے لی اور واپس بھی اسے دی جو شامی پورے میچ میں سب سے بری بالنگ کر رہا تھا۔ میڈیم پیس ہاف ٹریکر ۔ میں نے موبائل پکڑا اور اپنے گروپ میں لکھ دیا کہ کوہلی میچ ہار چکا بومرا سے گیند واپس لے کر۔۔۔اور وہی ہوا تاریخ بدلنے کے لئے بے تاب شہنشاہِ کرکٹ بابر اعظم نے اپنے وزیر رضوان سے مل کر ہندوستان کو دوسری مرتبہ اور اس کی کرکٹ ٹیم کو ورلڈ کپ میں پہلی دفعہ فتح کر لیا۔

عام طور پر ہم ورلڈکپ میں بھارت سے میچ کو فائنل سمجھتے ہیں اور اسے ہار کر اپنے تئیں خود کو ٹورنامنٹ سے باہر ہی سمجھتے ہیں لیکن اس بار یہ عام طور ، ایک خاص طور میں بدل چکی ہے۔  پاکستان نے کل بھارت سے سیمی فائنل کھیلا اور اب فائنل آنے والے کل کو اس نیوزی لینڈ سے ہے جس نے پاکستانیوں کے دل توڑے  ۔پاکستان کو صرف ایک کام کرنا ہے صرف ایک کام   اور وہ یہ کہ ٹیم کے ہر کھلاڑی نے اسی جذبے  سے سرشار رہتے ہوئے سر اٹھا کر بالکل اسی بدن بولی اور ذہنی مضبوطی کے ساتھ خود اپنے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہنا ہے “میں ہوں ناں ” اور بس پاکستان نیوزی لینڈ کو ہرا کر میرے لیے تو ورلڈکپ جیت جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری طرح بہت سے پاکستانیوں نے سالوں کے بعد کسی میچ کو اس دلجمعی سے دیکھنے کا دعویٰ  کیا اور خدا کا شکر اور جوانوں کا شکریہ کہ یہ شوق واپس پلٹ کر منہ کو نہیں آیا  بلکہ میں تو اپنے اندر وہ بچپن والی دلچسپی محسوس کر رہا ہوں کیونکہ شاید میرے بچوں کے پاس اب مجھ سے جدید اور بہتر کھلونے ہیں ۔
بھارت ہار گیا پاکستان جیت گیا۔ ویرات کوہلی ایک بہترین بلے باز ہی نہیں زبردست انسان بھی ہے ۔جس نے بابر اعظم اور رضوان کو گلے لگایا مبارکباد دی ۔یہ اتنا عظیم کارنامہ ہے کہ اس کا ذکر چند سطروں میں ممکن نہیں ۔جیسے آن دی فیلڈ مین آف دی میچ شاہین شاہ آفریدی رہا۔۔۔ اسی طرح اپنے اس بہترین رویے کے باعث ویرات کوہلی آف دی فیلڈ مین آف دی میچ تھا ۔اسے یہ خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ایک تقریب ایک مضمون کی صورت پیش کرنے کے لیے۔
“میں ہوں ناں “۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply