کتاب ” عشقِ درویش” مصنف ڈاکٹر اختر شمار/تبصرہ:سخاوت حسین

انسانی زندگی دو رخوں سے مرکب ہوتی ہے‘ ایک رخ ظاہری مادی جسم کہلاتا ہے جبکہ دوسرا رخ جوکے چھپا ہوتا ہے‘ روح کہلاتا ہے۔ اس مادی زندگی کو قرآن حکیم کی اصطلاح میں اسفل سافلین بھی کہتے ہیں۔
انسان کی مادی زندگی میں سب سے بڑی کمزوری ہے کہ انسان ہروقت اپنے مادی جسم کی فکر میں گھلتا رہتا ہے حتیٰ کہ مادی جسم کی آرائش‘ زیبائش اور آسانیاں حاصل کرتے کرتے اپنا ضمیر بھی فروخت کردیتا ہے۔ ’’ضمیر‘‘ ہی انسان کی کل زندگی کا حاصل ہوتا ہے۔ اسے اس حقیقت کا مرتے دم تک احساس ہی نہیں ہوتا۔اس کی زندگی کی پیدائش سے لے کر موت تک کے ایک ایک لمحے کی حرکت اس کی اپنی ’’روح‘‘ کے تابع ہوتی ہے جس کا مادی لذتوں میں وہ ایک پل کیلئے بھی احساس نہیں کرتا۔ روح انسان کے ایک ایک لمحہ کی حرکت کو زندگی دیتی ہے۔ زندہ انسان کا مطلب ہے ’’روح کی موجودگی‘‘ زندگی میں روح ہی ہمیں کھلاتی ہے‘ پلاتی ہے‘ ہنساتی ہے‘ رلاتی ہے‘ روح ہمیں جذبات‘ احساسات اور خیالات عطا کرتی ہے۔ روح ہی ہمیں رشتوں کی موجودگی اور غیرموجودگی کا احساس کراتی ہے۔
تصوف یا روحانیت کی جتنی بھی تعلیمات ہیں ان کا مآخذ روح ہے اور روح کے عروج سے متعلق ہوتاہے۔ تصوف کے یوں تو بہت سے معنی نکالے گئے ہیں۔ ادنیٰ لباس پہننے کو تصوف کہا گیا ہے‘ تزکیہ نفس کا نام بھی تصوف رکھا گیا ہے‘ اپنی انا کی نفی کا نام بھی تصوف ہے۔زیر مطالعہ کتاب ” عشقِ درویش” بھی روحانی تجربات و مشاہدات کی غیر معمولی واقعات کا قلبی اظہار ہے۔جس میں مصنف اپنے مرشد سے مکالمہ کرتے ہوئے دیکھائی دیتا ہے۔ “عشقِ درویش” کے مصنف معروف شاعر، محقق، نقاد، کالم نگار، معلم اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر اختر شمار ہیں۔ اس میں مصنف اپنے مرشد ( صوفی ناظر حسین) کی سوانح حیات اور اپنی خود نوشت کو بہترین انداز میں قلم بند کیا ہے۔ اگر آپ نے ملتان کا لاری اڈہ دیکھا ہو تو آپ نے اس کے مشرقی طرف ایک نہر بھی دیکھی ہو گی۔اس نہر کے بائیں کنارے پر ایک پختہ سڑک ہے جو نہر کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ریلوے پھاٹک آتا ہے۔ یہی سے نہر کے دوسرے کنارے پر سایہ دار درخت شروع ہو جاتے ہیں۔ جو کہ دربار حضرت صوفی ناظر حسین تک پھیلے ہوئے ہیں۔ان درختوں کا سایہ گرمی میں درجہ حرارت معتدل رکھے ہوتا یے۔گرمی کے ستائے لوگ ان کے حجرے میں آرام کرتے ہیں۔اور یہی ملک کے نامور قوال عزیز میاں آسودہ خاک ہیں۔دوسری طرف آپ سبزی منڈی کے پچھلے دروازے سے نکل کر جیسے ہی نہر کے کنارے آتے ہیں تو سامنے مصنف کے مرشد آسودہ خاک ہیں۔
اس کتاب میں ڈاکٹر اختر شمار اپنے مرشد سے ملاقاتوں کا احوال خوب صورت انداز میں بیان کرتے ہیں۔یہ کتاب روحانی وابستگی کا خوبصورت مرقع یے۔کتاب میں درس و ہدایت، مکالمہ و مکاشفہ، حکمت و دانائی اور واعظ و کلام سے قاری کی ذہنی تربیت کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔
“عشقِ درویش” میں مرید و مرشد کے غیر محسوس راز و نیاز کا روحانی ربط ملتا ہے۔اس کتاب سے مصنف کا اپنے مرشد سے والہانہ عقیدت کا اظہار یے۔کتاب کے مطالعہ کے بعد قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔وہ اپنے اندر واضح تبدیلی محسوس کرتا یے۔میں جب اس کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا تو مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میں بھی مصنف کے ساتھ ان ملاقاتوں میں شامل ہوں۔ اس کے مطالعہ سے قلبی سکون واطمینان ملتا یے۔ یہ کتاب زائرین کے لئے ایک انمول تحفہ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply